زمین پر کرپشن پھیلانے کا جرم

پیر 14 ستمبر 2020

Muhammad Sikandar Haider

محمد سکندر حیدر

 عالمی مالیاتی اداروں کی متعدد رپورٹس میں واضح الفاظ میں تحریرہے کہ گڈ گورننس کے لیے کرپشن کو ختم کرنا ضروری ہے۔ کوئی بھی ملک اپنے کرپٹ سیاست دانوں اورکرپٹ سرکاری ملازمین کا خاتمہ کیے بغیر کبھی بھی نہ تو ترقی کر سکتا ہے اور نہ ہی اپنی عوام کے لیے گڈ گورننس قائم کر سکتا ہے۔ورلڈ بنک کے مطابق دُنیا بھر میں تقریباً 1.5ٹریلین ڈالر کی سالانہ کرپشن ہوتی ہے جوکہ دُنیا کی مجموعی جی ڈی پی کا 2فیصد بنتی ہے اور عالمی امداد سے دس گنازیادہ ہے۔


73سالوں کی مسافت کے باوجود پاکستان میں کرپٹ مافیا کی بناپر آج تک نہ سیاسی استحکام آ سکا ہے اور نہ ہی گڈ گورننس کے لیے کرپشن کے ناسور کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا جا سکا ہے۔ CPIکے مطابق2019میں پاکستان کی کرپشن کی درجہ بندی 120/180اورسیکور 32/100 تھا۔

(جاری ہے)

قومی احتساب بیورو کی سالانہ رپورٹ 2019کے مطابق نیب نے گذشتہ سال 141.542ارب روپے کی ریکوری کی ۔جبکہ نیب مجموعی طور پر(1999-2019) اب تک 466.069ارب روپے کرپٹ مافیا سے ریکور کر چکا ہے۔

2019میں نیب کو 46289شکایات موصول ہوئیں۔ چیرمین نیب نے 649انکوئریوں اور   246تحقیقات کی منظوری دی ۔ نیب کورٹ میں دائر مقدمات کی کامیابی 68.8فیصد رہی۔
پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جما عتوں کے لیڈرز، اکثر منتخب نمائندگان  ِپارلیمنٹ اور متحرک رہنما نیب زدہ شہرت کے حامل ہیں۔ جس دن نیب پر سیاسی اثر و رسوخ ختم ہوا اور نیب آزاد ادارہ بنا تو یہ تمام نامور سیاست دان جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوں گے ۔

کرپٹ سیاست دان پاکستان میں غریب عوام کا خون چوسنے والی جونک ہیں۔ بعین ہی کرپٹ سرکاری اہلکار سرکاری اداروں کو تباہ کرنے اور سرکاری فنڈز کھانے والے چوہے ہیں جو کہ سرکاری مال کھا کر کسی سیاست دان یا پھر کسی اعلیٰ افسر کی پناہ میں چھپ جاتے ہیں۔ کرپشن کا یہ عالم ہے کہ ہر سرکاری ادارے کا شعبہ فنانس کرپٹ لوگوں کے قبضہ میں ہے۔اخلاقی و قانونی پستی کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ پاکستان بھر میں جتنے بھی ترقیاتی منصوبہ جات سالانہ بجٹ میں منظور ہوتے ہیں ۔

اُن تمام منصوبہ جات کے ٹینڈر ز تا تکمیل منصوبہ تک ہونے والے تمام مراحل میں سرعام سرکاری رشوت کے نرخ مقرر ہیں ۔متعلقہ افسران اور اُن کے چہیتے اہلکار سرعام ٹھیکہ داروں سے رشوت وصول کرتے ہیں اور پھر بل پاس کرتے ہیں۔ قابلِ افسوس پہلو تو یہ ہے کہ اِس کرپشن کا علم تمام سرکاری افسران سمیت اعلیٰ حکومتی حکمرانوں کو بھی ہے۔ مگر کوئی بھی صاحبِ اقتدار حکمران اِس مافیا کو قانون کے شکنجے میں لانا نہیں چاہتا۔

کیونکہ کسی نہ کسی صورت میں وہ بھی اِس کرپشن کا حصہ دار لازمی ہے۔
ترقیاتی منصوبہ جات سے وابستہ سرکاری ادارے ہوں یا سروسز فراہم کرنے والے سرکاری ادارے ،سبھی اداروں میں کرپشن کا ناسور موجود ہے ۔جو جنتا بڑا کرپٹ ہے وہ اُتنے بڑے عہدے پر تعینات کیا جاتا ہے۔ اِس سے بڑ ھ کر اور کیا بد قسمتی ہو گی کہ محکمہ صحت جس کا کام عوام کو علاج معالجے کی سہولت فراہم کرنا ہے وہ شفاخانے بھی کرپشن زدہ بن چکے ہیں۔

پاکستان میں تمام عوامی ادارے مثلاً تھانے ، عدالتیں، ہسپتال، پٹوار خانے،لوکل باڈیز حتی کہ میونسپل ادارے بھی کرپشن زدہ ہو چکے ہیں۔ 73سال ضائع ہو چکے ہیں تاحال کوئی نشانِ منزل ہی نہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کے تبدیلی کے ادھورے خواب نے اب تو اُمیدوں کی بصارت ہی ختم کر دی ہے۔ چینی ، گندم کارٹیل مافیا نے حکومت کو بے بس کر رکھا ہے۔ کابینہ میں واقعی ہی کارٹیل کا راج چلتا ہے۔

مایوسی کی انتہا تو یہ ہو چکی ہے کہ عام آدمی کے پاس بہتر کل کے خواب بھی باقی نہیں بچے۔ نجانے اَب آئندہ الیکشن میں مداری اپنا کونسا نیا چورن بچے گا۔
تاریخ گواہ ہے کہ سخت فیصلوں سے ہی قومیں بنتی ہیں۔ امریکہ اور ایران ایک دوسرے کے سخت ترین دشمن ہیں۔ 2018میں امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر اقتصادی پابندیاں مذید سخت کیں تو ایرانی قیاد ت نے امریکہ کے آگے سرجھکانے کی بجائے ملک میں اقتصادی وار کی ایمرجنسی نافذ کر دی۔

ایران کے سپریم کمانڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اگست 2018میں دیگر امور کے ہمراہ سب سے اہم فیصلہ یہ کیاکہ اُنہوں نے کرپشن کی بناپر ایران کو ہونے والے نقصان سے بچانے کے لیے فوری طور پر ملک میں اقتصادی امور سے وابستہ انقلابی عدالتیں قائم کیں اور کرپشن کے تمام مقدمات کو اِن عدالتوں میں منتقل کر دیا۔ مذید براں تمام اینٹی کرپشن اداروں کو ملک بھرکے سرکاری اور نجی تجارتی اداروں میں کرپشن کو بلا امتیاز فوری طور پر ختم کرنے کا حکم دیا۔


2018میں ایران میں مالی کرپشن کے حوالے سے تین نامور بزنس مینوں کو سرعام پھانسی دی گئی۔ سلطان آف کوائنز ( سونے کے سکوں کا سلطان) واحد مظلومین اور اِس کے ساتھی محمد اسماعیل قسمانی کو ناجائز ذرائع سے دو ٹن سونے کے سکوں کو ذخیرہ کرکے مارکیٹ میں سونے کے بھاﺅ پر اثر انداز ہونے اور ملکی معیشت کو نقصان پہچانے کے جرم ثابت ہونے پر سزائے موت دی گئی۔

اِسی طرح سلطا ن آف بچومن کہلانے والے بزنس میں حمید باقری درمنی کو سرکاری قرضوں کے حصول کے لیے جعلی کاغذات بنانے ، جعلی کمپنیاں بنانے اور بھاری رشوت کے استعمال کے جرم پر سزائے موت دی گئی۔ بچومن ایک کیمیائی مادہ ہے جس سے تارکول کی ایک قسم ایسفالٹ بنائی جاتی ہے ۔ بچومن سے ایسفالٹ بنانے کا کاروبار ایران میں ایک منافع بخش ترین کاروبار ہے۔

حمید باقری نے ایران کے سنٹرل بنک سے قرضہ کے حصول کے لیے سنٹرل بنک کے اعلیٰ عہدہ داروں کو رشوت دی جن میں گورنر بنک محمد رضا خواری بھی شامل تھا۔ اِس گورنر کو بھی بعد ازاں گرفتار کر لیا گیا۔ حمید باقری نے سو ملین ڈالر سے زیادہ مالیت کی تین لاکھ ٹن سے زیادہ بچومن جعل سازی سے حاصل کی۔اِن تینوں نامور بز نس مینوں کا مقدمہ ”زمین پر بدعنوانی پھیلانے کا جرم“کے تحت چلا اور انہیں کرپشن کی بناپر سزائے موت دی گئی۔

حمید باقری کی سزائے موت تو باقاعدہ فلمی انداز میں بمعہ ساونڈ ٹریکس کے ہمراہ سرکاری ٹیلی ویژن پر پوری ایرانی قوم کو دکھائی گئی۔
ایرانی قوم اگر امریکہ جیسے طاقتور ملک سے پنجہ آزما ہے تو اُس کے پس پردہ اُس کے حکمرانوں کا بے داغ کردار ہے اور سخت اقدامات ہیں۔ اِس کے برعکس 73سالوں سے کرپشن کے انگ انگ میں ڈوبے پاکستان میں آج تک کسی ایک فرد واحد کو بھی مالی کرپشن پر سزائے موت نہیں دی گئی۔

پاکستان تحریک انصاف کی پانچ سالہ مدت اقتدار میں سے ابھی دوسال گزرے ہیں اورتین سال باقی ہیں۔اِن باقی ماندہ تین سالوں میں اگر وزیر اعظم عمران خان ایران کی مانند کرپشن کے ناسور کو ختم کر دیں تو تمام سیاسی اور سرکاری اداروں کا قبلہ خود بخود درست ہوجائے گا کیونکہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہی فقط مالی کرپشن ہے اور یہ کرپشن ہر بُرائی اور بیڈ گورننس کی ماں ہے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :