جُرم کیوں ختم نہیں ہوتے ؟

جمعہ 3 جنوری 2020

Muhammad Sohaib Farooq

محمد صہیب فاروق

خبردارہوشیارکیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے ..دوکانوں ِمارکیٹوں ،تعلیمی اداروں ،چوک چوراہوں ،یہاں تک کہ مساجدمیں بھی خفیہ کیمروں کے ساتھ جلی حروف کے ساتھ یہ تنبیہی عبارت لکھی نظرآتی ہیں پولیس وانٹیلیجنس اداروں کاتویہ کام تھا ہی آجکل ہاتھوں میں مائیک تھامے گلے میں مختلف ٹی چینلزکے کارڈزلٹکائے صحافت کاتمغہ ماتھے پرسجائے ہانپتے ہوئے لڑکے اورلڑکیاں بھی گلی گلی محلہ محلہ زیادتی ،قتل وغارت ،کرپشن ،اغواکاری،رشوت خوری ،بلیک میلنگ،منشیات وغیرہ کی سرکوبی کے لیے دوڑیں لگاتے نظرآتے ہیں۔

(جاری ہے)

مجرم رنگے ہاتھوں گرفتارہوتے ہیں مجرم کی گرفتاری پرسبھی بغلیں بجاتے ہیں میڈیاکے نمائندے کیمرے لیکرپہنچ جاتے ہین جہاں فوٹوسیشن ہوتاہے اگلے دن ملک بھرکی اخبارات میں ان مجرموں کی تصاویرلگ جاتی ہیں مجرم کوگرفتارکرنے والوں کوانعام اوراعزازی شیلڈزسے نوازاجاتاہے ، اکثرچینلزمیں مختلف قسم کے سنگین ودلخراش جرم کرنیوالے مجرموں کو پکڑکرمیڈیا کے سامنے آئے روزپیش کیاجاتا ہے ہرچینل نے اس کیلیے باقاعدہ ٹیمیں تشکیل دے رکھی ہیں جوہردن ایک ناقابل یقین دل دہلادینے والی کہانی پیش کرتے ہیں لیکن اس سب کے باوجودجرم کیوں ختم نہیں ہوتے؟مجرم رسوائی کے باوجوداپنی روش تبدیل کیوں نہیں کرتے ؟اس سوال کاجواب کس کے پاس ہے ؟
کچھ عرصہ قبل ایک انویسٹی گیشن پولیس آفیسرسے ملاقات کے دوران میں نے ان سے یہی سوال کیاکہ ایساکیوں ہے؟توان کاجواب تھاکہ یہ دراصل ہمارااورہم سے بڑھ کرمیڈیاکاقصورہے کہ جونہی کوئی مجرم گرفتارہوتاہے توکچھ ہی دیرمیں سارے شہرمیں میڈیاکے ذریعہ اس مجرم کاچرچاہوجاتاہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں قانون کی حکمرانی نہ ہونے کی وجہ سے یہ رنگے ہاتھوں گرفتارمجرم اپنے اثررسوخ کی وجہ سے بہت جلد جیل سے صرف رہاہی نہیں بلکہ باعزت بری ہوجاتاہے اوراس کی گرفتاری میں معاون لوگوں کوبلیک میلرظاہرکیاجاتاہے جس کے نتیجے میں یہ مجرم پہلے سے زیادہ پراعتمادطریقہ سے وارداتوں میں ملوث نظرآتاہے ،ہم عموماسمجھتے ہیں کہ کسی غلط کام کرنے والے کی ویڈیوبناکرشئیرکرنے سے اس کی بدنامی ہوگی اوراپنے غلط کام سے ہمیشہ کے لیے توبہ کرجائے گالیکن ہماری یہ سوچ بالکل غلط ہے ہم اس مجرم کے جرم کی تشہیرکرکے اسے جرم اورگناہ پرزیادہ جرات بخشتے ہیں وہ سمجھتاہے کہ میں لوگوں کی نظروں میں رسواتوہوہی چکاہوں لہذااب مجھے کسی کے لعن طعن سے کوئی سروکارنہیں اوروہ پہلے سے خطرناک مجرم بن جاتاہے میڈیاپرمختلف جرائم میں گرفتار مجرموں کوجب پیش کیاجاتاہے تواس وقت ان میں سے اکثرکے چہروں پربجائے ندامت وشرمندگی کے کسی درجہ ہٹ دھر می واطمینان نظرآتاہے اورسینہ تان کرآنکھوں میں آنکھیں ڈال کرجواب دے رہاہوتاہے لہذاہمیں یہ تسلیم کرناہوگاکہ کسی مجرم کی میڈیاپرتشہیرکے ذریعے ہم اس کے دل میں جرم کی نفرت پیدانہیں کرسکتے بلکہ اس کوبرانگیختہ کرنے کاسبب بنتے ہیں اس کے برعکس اگرمجر م کوقانون کے مطابق جرم کی سزادی جائے اوراسے مختلف طریقوں سے اس برے عمل پرتنبیہ کی جائے تووہ اپنی سزابھگتنے کے بعدمعاشرے کے لیے ایک سودمندشہری بن سکتاہے اس لیے کہ ایک چھوٹابچہ بھی عزت نفس رکھتاہے اس کے والدین بھی دسروں کے سامنے اس کے کسی ایسے عمل کوظاہرکریں جسے وہ اپنے لئے رسوائی سمجھتاہوتو اس سے اس بچے کی نفسیات پربہت منفی اثرپڑتاہے جس کے ردعمل میں وہ بچہ باغی ،ہٹ دھرم اورضدی بن جاتاہے اوردوسری انتہائی اہم بات کہ ہمارے ہاں قانون کی حکمرانی ہوہمارے قانونی ادارے اورعدالتیں اس قدراختیارمندہوں کہ مجرم کووہاں سے کسی قسم کی نرمی دستیاب نہ ہومجرم پابندسلاسل ہواوراس سے متعلق خفیہ معلومات دینے والوں کومکمل تحفظ فرا ہم کیاجائے ان کانام صیغہ رازمیں رکھاجائے انکی حوصلہ افزائی کی جائے تواس سے معاشرے میں جرم کم ہوں گے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :