حاتم طائی کے دربارمیں ایک ضعیف العمرخستہ حال فقیرنے دس درہم کے بقدرچینی کاسوال کیاتواس نے بدلہ میں اسے چینی کی بوری دے دی حاتم طائی کی بیوی یہ معاملہ دیکھ کرخاموش نہ رہ سکی اورکہنے لگی کہ اس نے توبہت تھوڑی مقدارکاسوال کیاتھااورآپ نے پوری بوری دے دی میری نظرمیں یہ دانش مندی کے برخلاف ہے اپنی بیوی کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھ کرحاتم طائی نے جوجواب دیاوہ اسکی سخاوت و ثروت کوسمجھنے کے لئے کافی ہے وہ کہنے لگا کہ ”اپنے اپنے ظرف اورشان کی بات ہے اس نے اپنے ظرف اورشان کے مطابق مانگااور میں نے اپنی شایان شان اس کوعطاکیا۔
کہتے ہیں کہ حاتم طائی کے زمانہ میں شاہ یمن بھی سخاوت میں مشہور تھا،بندہ پروری اوراوردادودہدکی وجہ سے سخاوت کابادل کہلاتاتھا لیکن انسان کی ایک فطری کمزوری ہے کہ وہ اپنے ہم عصرکی صلاحیت ولیاقت اوربرتری کابہت کم متحمل ہوتاہے اور”ہمچوں دیگرنیست “ہم ساہوتولاؤ‘ ‘کادعوی کرتانظرآتاہے اس یمنی بادشاہ کے سامنے کوئی اگرکوئی حاتم طائی کی سخاوت کاذکرکرتا تووہ ایک دم سیخ پاہوجاتااورکہتا وہ غریب کیاسخاوت کرے گاکہ اس کے پاس تومال ومملکت ہی نہیں ۔
(جاری ہے)
اپنی سخاوت کاچرچاومظاہرہ کرنے کے لیے ایک مرتبہ اس نے ایک جشن کا اہتما م کیاجس میں سخاوت کے دریابہادیے ہرکوئی اس کی سخاوت کے گُن گارہاتھا کہ اسی دوران ایک شخص نے حاتم طائی کاذکرچھیڑدیاتواسی مجلس میں ایک دوسراشخص اس کی جودوسخاکی تحسین کرنے لگابادشاہ ان دونوں کے اس فعل پراس قدرحسد میں آگ بگولہ ہوا کہ اس نے ایک آدمی کوحاتم طائی کاسرقلم کرنے کاحکم دے کرروانہ کیاکیونکہ اس کاگمان تھا کہ حاتم کے جیتے جی اس کی سخاوت کا عَلم ہمیشہ سرنگوں ہی رہے گا بادشاہ کا قاصد حاتم کے قتل کاناپاک منصوبہ لیے قبیلہ طے کی طرف روانہ ہوگیا راستہ میں اس شخص کی ملاقات ایک خوبصورت ووجیہ اورخوش اخلاق آدمی سے ہوئی جس نے اسے اجنبی مسافرسمجھ کراس کی خوب آؤ بھگت اورخاطرمدارات کی ۔
اوراسے اپنے ساتھ گھرلے گیاکھاناکھلایاشب گذاری کے لئے مناسب رہائش کابندوبست کیاصبح کوخاطرتواضع کے بعداپنے ہاں مزیدقیام کی درخواست کی لیکن مہمان نے ضروری کام کے عذرکی وجہ سے رخصت چاہی مہربان میزبان نے مہمان سے کہاکہ اگروہ مناسب سمجھے تواسے اپنے مقصودسے آگاہ کردے تاکہ وہ اس سلسلہ میں اس کوسہولت پہنچاسکے میزبان کے اخلاص واخلاق اورسخاوت سے متاثرمہمان کہنے لگاکہ تجھ جیساوسیع الظرف اورشجاع آدمی یقینانہ صرف میری مرادکی تکمیل میں معاون بن سکتاہے بلکہ میرارازبھی افشاء نہیں ہونے دے گامجھے قبیلہ طے کے معروف سخی حاتم طائی کوقتل کرنے کے لیے یمن کے بادشاہ نے بھیجاہے امیدہے تم میراساتھ دوگے مہمان قاتل کی بات سن کرنوجوان برزیرلب مسکراکرکہنے لگاکہ تم ٹھیک جگہ پرپہنچ گئے ہوتمہارامقصودومطلوب تمہارے سامنے موجودہے مجھے ہی حاتم طائی کہتے ہیں میں تمہارے سامنے حاضرہوں تم اپنی خواہش کی بلاخطرتکمیل کرواورجلدی کرواس سے قبل کے میرے عزیزواقرباء میں سے کوئی ظاہرہوجائے یہ کہہ کراپنی گردن مہمان کے سامنے جھکادی اور کہنے لگا میرا سرتلوار سے کاٹ کر لے جاؤ حاتم طائی کی بات سن کرمہمان حیران وپریشان ہوکرکہنے لگا اے حاتم توصرف اپنے مال واسباب کی تقسیم کے اعتبارسے ہی سخی نہیں بلکہ دنیاکی سب سے قیمتی چیزیعنی اپنی جان کے اعتبارسے بھی سخی ثابت ہواتجھ جیسے عظیم التربت کوتلواروخنجرتودرکنارپھول مارنابھی مردانگی کے منافی ہے اس کے ساتھ ہی حاتم طائی سے معانقہ کرکے اس کے ہاتھوں اورماتھے کوبوسہ دیااورحاتم کی سخاوت سے متاثرہو کر نامراد بادشاہ کے دربارمیں پہنچا اس کی دربارمیں آمدسے ہی بادشاہ اس کی ناکام واپسیکوبھانپ گیااوراسے بلاکرکہنے لگاکیاوجہ ہے کہ میں تیری زین کی رسی میں حاتم طائی کوبندھا ہواسرنگوں نہیں پارہا ؟،نوجوان قاصدنے بادشاہ کے غیظ وغضب کوبھانپتے ہوئے تخت کوچومااورشاہ کی قصیدہ گوئی کے بعدکہنے لگاعالی جاہ جا ن کی پناہ پاؤں توکچھ عرض کروں ،اے عادل وبندہ پروربادشاہ سلامت میں نے حاتم طائی کوحقیقت میں جودوسخااورشجاعت وثروت میں بے مثال وبے نظیرپایا،یہ جا ننے کے باوجودکہ میں اس کی گردن اڑانے کی غرض سے آیاہوں اس نے میرے ساتھ انتہائی بخشش وبردباری کابرتاؤکیااورمجھے اپنے پے درپے احسانات کے بوجھ تلے رونددیااس کی سخاوت کے سامنے اس کی زندگی بھی بے بس ہے اسکے بعدسفرکی مکمل کارگزاری سنائی جسے سن کرشاہ یمن نے بھی گردن جھکادی اوروہ حاتم طائی کی تعریف میں رطب اللسان ہوگیابادشاہ نے نوجوان کواعزازواکرام سے نوازااورکہنے لگاحاتم طائی کی سخاوت کاسکہ اورمہراس کاحق ہے اس کاظاہروباطن ایک ہے ۔
حاتم طائی کی وفات کے بعد اس کی بیٹی نے بھی سخاوت و خیرخواہی کی اعلی مثال قائم کردی ،عہدنبوی ﷺمیں جب قبیلہ طے کے لوگوں نے اسلامی فوج کے سامنے سرنڈرکرنے سے انکارکردیاتومزاحمت کے بعد قبیلہ طے کے بہت سارے لوگ جنگی قیدی بنے شاہ جودوسخاﷺ کی بارگاہ میں کسی نے عرض کی کہ ان قیدیوں میں قبیلہ طے کے نیک خومعروف سخی حاتم طائی کی بیٹی سفرانہ بھی شامل ہے توارشاد ہواکہ اسے آزادکردیاجائے چونکہ باقی قیدیوں کے لئے قتل کاحکم تھاتوسفرانہ آہ وزاری سے کہنے لگی کہ پھر مجھے بھی میری قوم کے ساتھ قتل کردیاجائے میرے لیے یہ بے مروتی ہوگی کہ میری قوم موت کے گھاٹ اتاردی جائے اورمیں زندہ رہوں رسول اللہ ﷺنے حاتم طائی کی بیٹی کی فریادوسفارش پر قبیلہ طے کے تمام قیدیوں کورہاکرنے کاحکم دے دیااورفرمایاکہ جس قوم میں حاتم جیساگوہرہو وہ خطاکی مرتکب نہیں ہوسکتی بارگاہ نبوی ﷺسے اس اخلاق کریمانہ اورسخاوت سے قبیلہ طے کے افراد نے متاثرہوکراسلام قبول کرلیا۔
حاتم کے رقیب نے تواس کی جودوسخاکوتسلیم کرلیالیکن آج لوگوں کی اکثریت خود کوحاتم طائی سے بڑاسخی گرداننے پرمُصِرہے اورحقیقت سے آنکھیں چَراتے ہوئے اپنے اخلاقی حدودوقیو د سے تجاوز کرتے ہوئے اپنے مدمقابل کوذلیل ورسوا کرنے یاخدانخواستہ قتل کرنے سے بھی نہیں کتراتے یہ ایک ہمارامعاشرتی المیہ ہے کہ ہم اپنے دوستوں کے علمی مرتبہ اورترقی وخوشحالی کونہیں دیکھ سکتے حالانکہ اللہ تعالی نے کسی کواگرکسی اعلی صفت سے نوازاہے تو اس کی حوصلہ افزائی کرناچاہئے اورخداسے دعاکرنی چاہیے کہ وہ اس کی مزید عزت افزائی فرمائے اوراسے بھی اپنی جناب سے نوازے ،ببیں تفاوت راہ ازکجااست تابہ کجا۔