ڈاکٹرشان الحق حقی۔دہلی کی آخری شمع

ہفتہ 1 مئی 2021

Muhammad Usman Butt

محمد عثمان بٹ

مشہورِ زمانہ شعر ”تم سے الفت کے تقاضے نہ نبھائے جاتے/ ورنہ ہم کو بھی تمنا تھی کہ چاہے جاتے“کس شاعر کا ہے؟اِس کا جواب اکثر لوگ نفی میں دیں گے۔    اُس کی بنیادی وجہ ہم اہلِ اُردو کی وہ عدم توجہی ہے جو ہم اپنے مشاہیر کے ساتھ برتے چلے جارہے ہیں۔ بہرحال اِس سوال کا جواب ہے، شان الحق حقی#! ایک عظیم شاعر اور کئی جہتیں رکھنے والا ادیب۔

شان الحق حقی کا خانوادہ دہلی کے قدیم اہلِ علم و فن گھرانوں میں شامل ہے۔ وہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور اُن کے والد کا نام احتشام الدین حقی تھا جنھوں نے دیوانِ حافظ اور عمر خیام کی رباعیات کو اُردو زبان میں منتقل کیا۔مشفق خواجہ نے بجا طور پر شان الحق حقی کو اُن کی زبان دانی، الفاظ و محاورات کے خوب صورت استعمال، دلکشی رکھنے والی رواں نثر اور منفرد اُسلوبِ بیاں کی بنیاد پر دلی کی آخری شمع قرار دیا ہے۔

(جاری ہے)

شان الحق حقی 15 ستمبر 1917ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ اُنھوں نے دہلی کے گورنمنٹ ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان1934ء میں پاس کیا،پھر علی گڑھ سے 1938ء میں بی اے کا امتحان پاس کیا۔ایم اے انگریزی کا امتحان اُنھوں نے سینٹ سٹیفن کالج دہلی سے 1940ء میں پاس کیا۔پاکستان منتقل ہونے سے پہلے شان الحق حقی صاحب نے شملہ میں مانیٹرنگ آفس میں کچھ دیر ملازمت کی،پھر فوج میں مترجم کی حیثیت سے کام کیا۔

قیام پاکستان کے بعد وہ کراچی منتقل ہو گئے جہاں اُنھوں نے پاکستان ریڈیو کے لیے کام کیا۔1948ء سے 1950ء تک اُنھوں نے برٹش کونسل میں بطور لائبریرین ملازمت کی جس کے بعد وہ1950ء میں وزارت ِ اطلاعات و نشریات کے شعبہ مطبوعات و فلم سازی میں بطور آفیسر ایڈورٹزمنٹ مقرر ہوئے۔1955ء میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور1965ء میں ڈپٹی ڈائریکٹر کے طور پر تعینات ہوئے۔

اُنھوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن میں بطور جنرل مینجر بھی کام کیاجہاں سے وہ 1978ء میں کنٹرولر سیلز کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔وہ اُردو لغت بورڈ کراچی سے سترہ سال تک وابستہ رہے۔ ریٹائر منٹ کے بعد سے اُنھوں نے1996ء تک یونائیٹڈ ایڈورٹائزرز میں ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کیا۔بعد ازاں وہ کینیڈا چلے گئے جہاں 11 اکتوبر 2005ء ،اپنی وفات تک رہائش پذیر رہے اور کینیڈا میں ہی مدفون ہیں۔


شان الحق حقی ایک نام ور محقق، نقاد، شاعر، افسانہ نگار، مترجم ، بچوں کے ادیب، لغت نگار اور ماہرِ لسانیات تھے۔اُنھوں نے بحیثیت رکن ترقی اُردو بورڈ اور معتمد اعزازی ہونے کے ناطے اُردو لغت کی تدوین میں نمایاں کردار ادا کیا۔ادبی صحافت کے شعبے میں بھی اُنھوں نے اہم کردار ادا کیا،ترقی اُردو بورڈ کے ساتھ منسلک عرصے میں اُنھوں نے ایک سہ ماہی جریدہ ”اُردونامہ“ جاری کیا،جس کا تعلق اُردو لغت اور لسانیات سے متعلق معاملات سے تھا۔

وہ مختلف اخبارات میں مضامین بھی لکھتے رہے، جن میں انگریزی اخبار روزنامہ ”ڈان“ نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔اُن کی تصانیف کی تعدادپچاس سے زائد ہے،جن میں تراجم کے حوالے سے ”صورِ اسرافیل“(1953ء)، ”خیابانِ پاک“(1957ء)،”انجان راہی“(1957ء)،”تیسری دنیا:وسائل و مسائل“ (1979ء)،”قہرِعشق“(1984ء)، ”درپن درپن“ (1985ء)،”ارتھ شاستر“(1990ء)اور”بھگود گیتا“(1996ء) کے نام نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔

علمی، تحقیقی، تنقیدی اور لسانی حوالوں سے ”نکتہٴ راز“(1972ء)،”نقد و نگارش“ (1985ء)، ”لسانی مسائل و لطائف“(1999ء)اور”آئینہ افکارِ غالب“(2001ء) اپنا مقام رکھتی ہیں۔اُن کے شعری مجموعوں میں ”تارِ پیرہن“ (1958 ء)،”حرفِ دل رس“ (1981ء)، ”نذرِ خسرو“ (1983ء)، بچوں کی نظموں کا مجموعہ ”پھول کھلے ہیں رنگ برنگے“ (1985 ء) میں جب کہ لغت کے حولے سے ”فرہنگ ِ تلفظ“ (1995ء) اور ”آکسفورڈ اُردو انگلش ڈکشنری“(2002ء) نمایاں اہمیت رکھتی ہیں۔

ماہ نامہ ”افکار“ کراچی میں اُن کی آپ بیتی ”افسانہ در افسانہ“ کے عنوان سے قسط وار شائع ہوئی۔ شان الحق حقی صاحب کو اُن کی علمی، تحقیقی، تنقیدی، ادبی و لسانی خدمات کی بدولت حکومتِ پاکستان کی جانب سے ”تمغہ قائد اعظم“(1969ء) اور ”ستارہٴ امتیاز“ (1985ء)جیسے اعزازات سے نوازا جا چکا ہے۔
”نکتہٴ راز“ شان الحق حقی کے مضامین کا پہلا مجموعہ تھاجسے اُنھوں نے دو حصوں میں تقسیم کیا تھااور اِس میں کل چوبیس مضامین شامل تھے۔

پہلا حصہ فکری و لسانی حوالے سے نو مضامین پر مشتمل تھا جب کہ دوسرے حصے میں شامل پندرہ مضامین ادبی تنقید سے تعلق رکھتے تھے۔ افکار و مسائل کے تناظر میں اُنھوں نے ادیب اور پیشہ وری، اُردو الفاظ میں چھوت چھات، رسم الخط کی اُلجھن، زبان وسیلہٴ آشتی، چند تعلیمی مسائل، زبان اور تعلیم زبان، ثقافت سے معیشت تک، پاکستانی کلچر، اور 1965ء کی جنگ جیسے موضوعات پر بحث کی ہے۔

دوسری طرف تنقیدات کے ضمن میں غالب# کے مرغوب استعارے، قاضی نذرالاسلام، بہادر شاہ ظفر# کی شاعری، انیس# کی ڈراما نگاری، اکبر کا فنِ ظرافت، اصغر کی غزل، ز۔خ۔ش۔، اُردو شاعری میں غمِ ملت اور غمِ قوم، شرح نکات غالب#، ناداں دہلوی، تلوک چند محروم، مولانا نیاز، کرخنداری اُردو، گلبن اُردو، اور اُردو کے پانچ شعر جیسے موضوعات پر ادبی تنقید سے کام لیا ہے۔

”نقد و نگارش“ حقی صاحب کا دوسرا مجموعہٴ مضامین ہے جس میں کل چودہ مضامین شامل ہیں۔ اِس کے نمایاں مباحث میں غزل کا سفر سعدی سے اقبال تک، اقبال کے نظریہٴ خودی کے اصل مآخذ، مطالعہٴ فانی، غالب کا قطعہٴ معذرت، غالب کے استعارات کا بھید، زبان کے معیار کا مسئلہ، پاکستانی کلچر کا سراغ، جوشِ ذی ہوش، خواجہ حسن نظامی، انیس کی ڈراما نگاری، اکبر کا فنِ ظرافت، سرِ وادیٴ سینا کی غزلیں، نظر# کی سُویدا پر ایک نظر، اور ادب کے ابعاد شامل ہیں۔

اِن میں تین مضامین ایسے ہیں جو ”نکتہٴ راز“ میں بھی شامل تھے مگر یہاں اضافوں کے ساتھ دوبارہ شامل کردیے گئے۔اُردو زبان کی جامع لغت ”فرہنگِ تلفظ“ کے نام سے مرتب کرنا شان الحق حقی کا ایک شاہ کار کارنامہ ہے۔ اِ س لغت کی خاص بات یہ ہے کہ اِس میں الفاظ کے معانی کے علاوہ الفاظ کا رائج فصیح تلفظ مع اعراب وضح کیا گیا ہے۔
”لسانی مسائل و لطائف “ شان الحق حقی کا تیسرا مجموعہٴ مضامین ہے جس میں اُنھوں نے اُردو الفاظ، زبان کے معیار کا مسئلہ،رسم الخط کی اُلجھن،اختلافِ لسانی اور ادبی تراجم کے مسائل، اُردو کے حدودِ اربعہ، اُردو اور سنسکرت، زبان وسیلہٴ آشتی، زبان اور تعلیمِ زبان، اُردو گنتی کے چند پہلو، ہائے مخلوط، ہمزہ،ڑ،ن،کرخنداری اُردو اور اجنبی بولی جیسے اہم مباحث پر روشنی ڈالی ہے۔

یہاں بھی تین مضامین ایسے ہیں جو ”نکتہٴ راز“ میں بھی شامل تھے۔ شان الحق حقی نے اِن مباحث پر قلم اُٹھاتے وقت پاکستان کے خصوصی لسانی حالات کو ملحو ظِ خاطر رکھا ہے۔حقی صاحب کے نزدیک اُردو زبان نے بہت سی زبانوں سے اکتساب حاصل کیا ہے اور اِس اکتسابی عمل کی دو نمایاں خصوصیات میں اُنھوں نے اُردو کے جامع حروف و اصوات اور اِس کی ترکیبِ نحوی کو بیان کیا ہے۔

جہاں تک اُردو کے حروف اور آوازوں کا معاملہ ہے تو یہ بات عیاں ہے کہ اُردو زبان میں جذب و انجذاب کی جو گنجائش موجود ہے،وہ شائد ہی دنیا کی کسی اور زبان میں پائی جاتی ہو۔ترکیبِ نحوی کی جہاں تک بات ہے تو اُردو میں دوسری زبانوں کے الفاظ استعمال کرنے کے لیے لاحقہٴ مصدری اور امدادی افعال ”کرنا“ اور ”ہونا“ کے ذریعے بہت سے مرکب افعال تخلیق کیے جا سکتے ہیں۔شان الحق حقی نے اُردو زبان و ادب کے لیے جو خدمات انجام دیں ، وہ کسی ادارے سے کم نہیں۔ آج ضرورت اِس امر کی ہے ہم ایسی شخصیات کو یاد رکھیں اور اُن کے تحقیقی ، ادبی اور لسانی کاموں سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے اُنھیں آگے بڑھائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :