اجلاس اورقراردادیں کیا مسئلہ کشمیر کا حل ہیں؟

پیر 2 ستمبر 2019

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

مسئلہ کشمیر کی حالیہ صورت حال یہ ہے کہ عام ممالک سے لے کر اقوام متحدہ تک تشہیر ہے کہ یہ ایک متنازعہ مسئلہ ہے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل طلب ہے،پوری دنیا میں ہندوستان کی جانب سے بے رحمانہ کرفیو کے رد عمل میں کہیں عوام الناس کی کثیر تعدادسڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں تو کہیں مختلف عالمی تنظیمیں اجلاس طلب کر کے اس بات کی قراردادیں منظور کر رہی ہیں کہ مسئلہ کشمیر کے حل کو اب حتمی شکل دی جانی چاہئے،پوری دنیا میں اس مسئلہ کو لے کر اجلاس کی طلبی اور قراردادوں کا پاس ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اب وقت نزدیک آگیا ہے کہ اس مسئلہ کا کوئی نہ کوئی حل ضرور نکلے گا۔

لیکن کہتے ہیں کہ جہاں رحمان وہاں شیطان،یعنی ابھی بھی بہت سے مفاد پرستوں اور ابن الوقت لوگوں کا خیال ہے کہ قراردادیں چاہے اقوام متحدہ کی ہو ،اجلاس خواہ سیکورٹی کونسل کا ہو اجلاس اور قراردادیں مسئلہ کا حل تلاش کرنے مین قاصر رہیں گے کیونکہ بعض مسائل کا حل اجلاس نہیں جنگ ہوا کرتی ہے۔

(جاری ہے)

لہذا یہ تمام اجلاس و قراردادیں چہ معنی۔ایسے منتشر اور شیطانی دماغ کے حامل افراد کے لئے عرض ہے کہ اجلاس اور قراردادیں ہمیشہ کسی کسی تحریک یا انقلاب کا پیش خیمہ ہوا کرتی ہیں۔

میری ذاتی رائے میں ایسے افراد تاریخ اور تحریک پاکستان کے صفحات سے نابلد ہیں۔تاریخ پاکستان کے اوراق کی اگر ورق گردانی کی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ 1886 ایسا سال ہے جس سے ایک سال قبل ہی ہندووں کی نمائندہ جماعت آل انڈیا کانگریس نے جنم لیا اور اس کے جنم پذیر ہونے کے صرف ایک سال بعد ہی برصغیر کے مرد آہن سر سید احمد خان نے بھی ایک جماعت کی داغ بیل ڈالی جس کا نام محمدن ایجوکیشنل کانفرنس تھا یہ وہ دور تھا کہ جب سر سید احمد خان علاقہ میں تعلیمی،سیاسی ،مذہبی اور ثقافتی حوالوں سے قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے انہیں اس بات کا بھی احساس تھا کہ مسلمان اب ان کی بات پر کان دھرتے ہیں اسی لئے انہوں نے ایک جماعت کی اساس رکھتے ہوئے ایک اجلاس میں فیصلہ کیا کہ اگر مسلمانان برصغیر سیاسی وتعلیمی میدان میں ترقی کے خواہاں ہیں تو انہیں جدید تعلیم سے بہرہ ور ہونا چاہئے۔

گویا یہ ایک اجلاس ہی تھا جس کا مقصد مسلمانوں میں جذبہ تعلیم کے حصول کو بیدار کرنا تھا۔بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اسی کانفرنس کے سالانہ اجلاس منعقدہ1906 بمقام ڈھاکہ مسلمانوں کے سیاسی مستقبل کے فیصلہ اور مفادات کے تحفظ کے لئے ایک الگ سیاسی جماعت کے قیام کا مطالبہ بھی کیا جس کا نام آل انڈیا مسلم لیگ رکھا گیا۔پھر چشم فلک نے دیکھا کہ اسی جماعت کے پلیٹ فارم سے ہم الگ وطن کے قیام میں کامیاب ہوئے،جبکہ مسلم لیگ کے قیام کے وقت صرف مقاصد کو اجلاس کا حصہ بنایا گیا۔


1۔ ہندوستان کے مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کرنا اور اپنے مسائل کو حکومت برطانیہ کے سامنے پر امن طریقے سے پیش کرنا۔
2 ۔حکومت برطانیہ کی عزت اور خیر خواہی کی فضا پیدا کر کے حکومت اور مسلمانوں کے درمیان غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا۔
3۔ہندوستان کی دیگر اقوام سے دوستانہ تعلقات قائم کرنا۔
قصہ یہاں اختتام پذیر نہیں ہو جاتا بلکہ تاریخ اور تحریک پاکستان کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں بھی ایک قرارداد ہی سنگ میل ثابت ہوئی تھی جسے کتب التواریخ میں قرارداد لاہور کہا جاتا ہے،یہ وہ قرارداد ہے جس کی منظوری تخلیق پاکستان میں مہر تصدیق ثابت ہوئی۔

اسی قرارداد میں قائد اعظم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جوق در جوق مسلمان منٹو پارک میں جمع ہوئے اور قائد کے مشن کی حمایت کا عملی ثبوت دیا،عوام کے ایک جم غفیر سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے کہا تھا کہ ”تاریخ گواہ ہے کہ ہم پچھلے بارہ سو سال میں ایک جگہ کبھی متحد نہ ہو سکے،ہندوستان ہمیشہ دو حصوں میں تقسیم رہا،ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا،مسلمان کو کسی بھی تعریف کے پیرائے میں دیکھا جائے تو وہ ایک الگ قوم ہیں اسی بنا پر ہم ایک الگ وطن کا مطالبہ پیش کرتے ہیں“قرارداد لاہور صرف سات سالوں میں قرارداد پاکستان بن کر الگ وطن کے حصول میں کامیاب ہوئی۔

یعنی قیام پاکستان بھی ایک قرارداد کا ہی نتیجہ تھا،بلکہ پاکستان کی قانونی حیثیت اور آئینی اساس بھی ایک قرارداد ہی تھی جسے قرارداد مقاصد کہا جاتا ہے۔
یہ تمام تاریخی حقائق ان افراد کی سطحی سوچ کا جواب ہیں جن کا خیال یہ ہے کہ ایک منٹ کی خامشی،آدھ گھنٹہ کا احتجاج ،اجلاس اور قراردادیں مسئلہ کشمیر کا حل نہیں ہیں،لیکن میری ذاتی رائے میں پاکستان کی خارجہ پالیسی مسئلہ کشمیر پر بالکل درست سمت اپنائے ہوئے ہیں،کہ حکومت مسئلہ کشمیر کو سفارتی،قانونی اور بین الاقوامی سطح پر امن کا داعی بن کر پیش کرنے میں اب تک کامیاب دکھائی دے رہی ہے۔

کیونکہ تمام مسائل کا حل جنگ نہیں ہوا کرتی،جنگیں قوموں کو مزید الجھا دیا کرتی ہیں ایسی صورت حال میں تباہی کا خدشات اور بھی بڑھ جاتے ہیں جب دونوں اطراف سے ممالک ایٹمی قوت کے متحمل ہوں۔لیکن یہ بھی خیال رہے کہ اگر ہم پر جنگ مسلط کی جاتی ہے تو پھر اس ضرب المثل کو بھی ذہن میں رکھئے گا کہ جب گھر کو آگ لگ جائے تو پھر پانی کے مشکیزوں کے نرخ نہیں معلوم کئے جاتے،ارزانی و گرانی ہر دو صورتوں میں مشکیزوں کو خرید کر کے آگ بجھائی جاتی ہے۔

لہذا دونوں ممالک کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے مسئلہ کا حل پرامن،اجلاسوں اور قراردادوں میں ہی تلاش کرنا چاہئے یہی خطہ کی بہتری کا بھی ضامن ہے لیکن اسے ہرگز ہماری کمزوری خیال نہ کیا جائے وگرنہ آگ بجھانے کے لئے ہم مشکیزوں کے نرخ معلوم نہیں کریں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :