
چلو پڑھے لکھے ہونے کا ثبوت دیتے ہیں
جمعرات 12 دسمبر 2019

مراد علی شاہد
(جاری ہے)
ٹی وی پر لائیو دیکھتے ہوئے مجھے دوسری جنگ عظیم کے ہیرو سر ونسٹن چرچل یاد آگئے کہ جب دوسری نگ عظیم عروج پر تھی دونوں اطراف سے یعنی اتحادی اور محوری افواج کی طرف سے گھمسان کی جنگ جاری تھی کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کی جاپان کے پرل ہاربر پر حملہ کے بعد یوں دکھائی دیتا تھا کہ اب یہ جنگ جاپان اور اس کے اتحادی کسی وقت بھی جیت سکتے ہیں،عین عروج ِجنگ پر ایک فوجی افسر نے ونسٹن چرچل سے پوچھا کہ سر ،کیا آپ کو یقین ہے کہ ہم یہ جنگ جیت جائیں گے ،تو ونسٹن چرچل نے پر اعتماد لہجے میں جواب دیا کہ
سوال یہ نہیں کہ کس نے کیا،کیوں کیا،کس کے کہنے پر کیا گیا،کروانے والوں کے پس پردہ کون لوگ ہیں؟سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا معاشرہ ان تمام کا متحمل ہے،معاشرتی بگاڑ اگر جاہل،کم تعلیم یافتہ طبقہ یا گنوار لوگوں کے سبب ہو تو جرم قابل معافی اس لئے ہو جاتا ہے کہ سماجی رویے اور عوامی رائے ان کے حق میں اس دلیل کے ساتھ ہو جاتی ہے کہ چھوڑو جی یہ تو لاعلم اور جاہل ہیں۔لیکن جب مردہ معاشرہ کی لاشیں پڑھے لکھے افراد کے کندھوں پر ہوں اور معاشرہ کے جسم سے روح نکالنے اور خون کا ایک ایک قطرہ نکالنے کے ذمہ دار بھی ایسے تعلیم یافتہ نوجوان ہوں تو کیا انصاف،کہاں کی مسیحائی،کدھر کا مثالی معاشرہ اور کس کی شرم وحیا۔اصل مسئلہ میں نے کہا کہ یہ نہیں کہ ایسا کیوں ہوا؟اصل بات یہ ہے کہ کیوں اور کس نے کیا؟معاشرہ کے روندھے ہوئے جاہل افراد نے یا اعلی تعلیم یافتہ انسانوں نے۔میرے ایک سویڈن ادیب دوست عارف کسانہ صاحب کا ایک کالم یاد آگیا جس میں انہوں نے ایک تجویز دی تھی کہ ایم بی بی ایس میں ایک مضمون اخلاقیات کا بھی ہونا چاہئے کیونکہ ڈاکٹرز کی اخلاقی تربیت اس لئے ضروری ہے کہ انہوں نے براہ راست عوام سے ربط رکھنا ہوتا ہے،لیکن حالیہ واقعہ سے مجھے لگتا ہے کہ ہر اس پروفیشنل ڈگری میں جس کا تعلق براہ راست عوام سے ہو اخلاقیات کے مضمون کو بطور لازمی ضرور متعارف کروانا چاہئے اور ساتھ ہی ساتھ ایسے طلبا کی اخلاقی تربیت بھی ضرور کرنا چاہئے کہ ہماری نسل آئندہ میں انسانی ہمدردی کے جذبات اور عزت واحترام کو ممکن بنایا جا سکے۔ایک آخری بات کہ چلیں ہم سب آج سے اپنے پڑھے لکھے ہونے کا ثبوت اس طرح سے دینا شروع کرتے ہیں کہ پرانی رنجشیں بھلا کر ایک دوسرے سے باہم دست وگریباں ہونے کی بجائے باہم شیروشکر اس طرح سے ہوجائیں کہ میں،میں نہ رہوں تم ہو جاؤں۔اگر آپ ڈاکٹر ہیں تو مسیحائی کا حلف اٹھائیں،وکیل ہیں تو انصاف کی فراہمی سے حق وصداقت کی صدا بلند کرنے کے علمبردار بن جائیں،پولیس مین ہیں تو ”رشوت دینے اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں“کی عملی تفسیر بنتے ہوئے اپنے آپ اور دوسروں کو نارِ جہنم سے بچائیں،استاد ہیں تو معمار قوم کی اصلاح کا بیڑہ اس طرح سے اٹھائیں کہ آپ کی کوکھ سے جنم لینے والا وکیل، ڈاکٹر، انجینئر، سیاستدان، پولیس مین آپ کے لئے خلد مکانی کا باعث ٹھہرے اور معاشرہ کا ایک ایسا کردار بنے کہ دنیا ان کی مثالیں دے۔آئیے ہم سب آج سے اپنے آپ سے ایک عہد کریں کہ ہم اپنی اخلاقی تربیت پر بھی اتنا ہی زور دیں گے جتنا کہ ڈگری کے حصول پر،پھر دیکھئے گا کہ معاشرہ کا مستقبل کس قدر تابندہ ودرخشاں ہوتا ہے۔انشا اللہ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مراد علی شاہد کے کالمز
-
برف کا کفن
بدھ 12 جنوری 2022
-
اوورسیز کی اوقات ایک موبائل فون بھی نہیں ؟
منگل 7 دسمبر 2021
-
لیڈر اور سیاستدان
جمعہ 26 نومبر 2021
-
ای و ایم اب کیوں حرام ہے؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
ٹھپہ یا بٹن
جمعہ 19 نومبر 2021
-
زمانہ بدل رہا ہے مگر۔۔
منگل 9 نومبر 2021
-
لائن اورکھڈے لائن
جمعہ 5 نومبر 2021
-
شاہین شہ پر ہو گئے ہیں
جمعہ 29 اکتوبر 2021
مراد علی شاہد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.