
365 امّیدیں
جمعہ 3 جنوری 2020

مراد علی شاہد
(جاری ہے)
بات ہو رہی تھی کہ عوام ہرآنے والے سال میں اپنی حکومت سے سوطرح کی امیدیں اورخواہشات کو پروان چڑھانا شروع کردیتی ہے کہ یہ سال گزرے تو سال نو کسی طور تو بہتر ہوگا،لیکن ایسا ہوتے میں نے اپنی زندگی میں ابھی تک نہیں دیکھا،ہر آنے والا دن،ہفتہ،ماہ اور سال ،سال گذشتہ سے عوامی امنگوں کا ترجمان نہیں ہوتا۔
آس کی ڈوری جو، ہر طلوع ہونے والے سورج کے ساتھ بندھ جاتی ہے اور سراچہ آفتاب کے ساتھ ہی تار تارہوکر گھنجلک کا ایسے شکار ہوتی ہے کہ زندگی بھر اس کا سرا تلاشتے تلاشتے عوام کی زندگی پوری ہو جاتی ہے۔گزرے ہوئے سال کے365دن کا زمام اقتدار سنبھالے ہوئے ایوانوں سے اگر سوال کیا جائے کہ سالِ گذشتہ میں عوام کی فلاح،بہبود،ترقی،معیارِزندگی کے لئے کون سے اقدامات اٹھائے گئے تو اس کے سوا کوئی جواب نہیں آتا کہ سابقہ حکومتوں نے ملک کی بینڈبجا رکھی تھی اس لئے ہمیں ہرکام زیرو سے شروع کرنا پڑا۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جب سے حالیہ حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے آئے روز کی طوائف الملوکی ملک کو اور بھی تنزلی کی طرف دھکیل رہی ہے،جو کسی طور بھی ملکی مفاد میں نہیں،لیکن کیا یہ سب حکومت ِوقت کے علم میں نہیں تھا جو ایک سو چھبیس روز اسلام آباد میں یہ شور مچاتے رہے کہ کرپٹ حکومت کے خلاف ہمارا اعلان جنگ ہے،گیس اور برقی بل کو نذرِ آتش کرتے ہوئے سول نافرمانی کا اعلانِ جنگ کرتے ہوئے کیوں نہ سوچا کہ ؟کل ہم بھی عوام کے کٹہرے میں کھڑے ہوسکتے ہیں۔وعدوں کا لولی پاپ دے کر عوامی جذبات سے کھیلنے کی کیوں کوشش کی گئی،شائد اس لئے کہ پی ٹی آئی کو بھی معلوم ہوگیا تھا کہ
شریک ِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
روائت ہے کہ ایران کا ایک بادشاہ سردیوں کی شام جب اپنے محل میں داخل ہو رہا تھا تو اس کی نظر ایک بوڑھے دربان پر پڑی جو محل کے صدر دروازے پر باریک اور پرانی وردی زیب تن کئے پہرہ دے رہا تھا،بادشاہ نے اس کے قریب جا کر سواری رکوائی اور دربان سے پوچھا کہ تمہیں اس وردی میں سردی تو نہیں لگ رہی ،دربان نے جواب دیا کہ جی حضور سردی تو لگ رہی ہے مگر میرے پاس گرم وردی نہیں ہے،یہ سن کر بادشاہ نے افسوس سے سر ہلاتے ہوئے کہا کہ ہم ابھی اندر جا کر تمہارے لئے گرم وردی بھجواتے ہیں۔دربان نے خوش ہو کر بادشاہ کو فرشی سلام کرتے ہوئے تشکر کا اظہار کیا۔
لیکن بادشاہ جیسے ہی گرم محل میں داخل ہوا دربان کے ساتھ کیا ہوا وعدہ بھول گیا،صبح دروازے پر دربان کی اکڑی ہو ئی لاش ملی اور قریب ہی مٹی پر اس کی انگلیوں سے لکھی ہوئی یہ تحریر بھی تھی کہ”عالی جاہ میں کئی سالوں سے سردیوں میں اسی نازک وردی میں دربانی کر رہا تھا،مگر کل رات آپ کے گرم لباس کے وعدہ نے میری جان لے لی“لہذا بادشاہ حضور کو جب بھی وعدہ کرنا ہو سوچ سمجھ کر کرنا چاہئے وگرنہ عوام جس حال میں جیسے بھی گزارہ کر رہی ہوانہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔کیونکہ عوام کی بھی یہ عادت پختہ ہو چکی ہے کہ سب بدل جائے گا ماسوا عوامی حالت کے۔حکومت کسی بھی سیاسی جماعت کی ہو اگر سال کے 365 یوم میں روزانہ کی بنیاد پر صرف ایک عوامی امید یا خواب کو شرمندہ تعبیر کردیا جائے تو سال میں کچھ اور نہیں تو چھوٹی چھوٹی تین سو پینسٹھ امیدیں تو بر لائی جا سکتی ہیں۔لیکن
وعدہ نہ وفا کرتے،وعدہ تو کیا ہوتا
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مراد علی شاہد کے کالمز
-
برف کا کفن
بدھ 12 جنوری 2022
-
اوورسیز کی اوقات ایک موبائل فون بھی نہیں ؟
منگل 7 دسمبر 2021
-
لیڈر اور سیاستدان
جمعہ 26 نومبر 2021
-
ای و ایم اب کیوں حرام ہے؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
ٹھپہ یا بٹن
جمعہ 19 نومبر 2021
-
زمانہ بدل رہا ہے مگر۔۔
منگل 9 نومبر 2021
-
لائن اورکھڈے لائن
جمعہ 5 نومبر 2021
-
شاہین شہ پر ہو گئے ہیں
جمعہ 29 اکتوبر 2021
مراد علی شاہد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.