حلیف ،حریف اور ملکی انتشار

جمعہ 10 جنوری 2020

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ معاشرہ روزِ اول سے ہی خیروشر،نیک وبد،کمزور وتوانا، امیر و غریب،اسود وابیض،زیردست وبالا دست،ذہین وکند طبقات میں منقسم رہا ہے۔گویا انسانی معاشرہ میں طبقاتی تقسیم عصرِحاضر کی پیداوار نہیں ہے بلکہ صدیوں قبل سے رائج ہے،یہ بھی ازمنہ قدیم سے ہوتا چلا آرہا ہے کہ توانا اپنے سے ناتوانا ،زبردست،زیردست اور ذہین کند ذہن پربالواسطہ یا بلا واسطہ غالب یا حکومت کرتے چلے آرہے ہیں۔

طاقتور ہمیشہ سے کمزور کو اپنے زیراثرکر کے محکوم یا غلام بنانے کے لئے ہر ممکن سعی کرتے ہیں۔چونکہ طاقتور حاملِ اقتدار یا صاحبِ اختیار ہوتے ہیں اس لئے بڑی آسانی کے ساتھ عام آدمی کو اپنے زیراثر کرکے محکوم بنا لیتے ہیں،جس سے معاشرہ دو حصوں میں منقسم ہو جاتا ہے،جسے سوشلزم میں have اورhave not کہا جاتا ہے،ان طبقات کی وجہ سے ہی عام انسان کو ضروریات زندگی کے حصول میں گوناں گو مسائل اورمشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

(جاری ہے)

مثلا ایک عام انسان کو انصاف طلبی کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں اس پر بھی ضروری نہیں کہ انصاف کی دیوی اس پر مہربان ہوتی ہے کہ نہیں۔اس کے برعکس طبقہ اشرافیہ کو عدالت جانے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی ،عدالتیں کبھی کبھار تو خود ان کے محلوں کی دریوزہ گر ہوتی ہیں۔ ایک عام اندازے کے مطابق بااثر افرادتقریبا دو فیصد ہوتے ہیں جبکہ 98 فیصد کسی نہ کسی طور ان دو کے زیراثر رہتے ہیں۔

یہی دو فیصد وہ لوگ ہوتے ہیں جو دولت مند،با اثر،اشرافیہ یا فیوڈل ہوتے ہیں جوبقیہ کا استحصال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔زبردست جب زیر دستوں پر ظلم وبربریت کا بازار گرم کرتا ہے تو ریاست میں بدامنی پھیلنا شروع ہو جاتی ہے۔اسی طرح جب اشرافیہ کے خلاف کوئی صدائے احتجاج یا علم بغاوت بلند کرتا ہے تواشرافیہ کی جانب سے ملک میں انتشار کی سی صورت حال پیدا کر دی جاتی ہے۔


دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان بھی ایک ایسا ملک ہے جو قیام سے لے کر اب تک بے شمارطبقاتی تقسیم کا شکار رہا ہے وہ امیر وغریب ہو،فیوڈل مزارع یا اشرافیہ وعوام الناس کا طبقہ ہو،اگرچہ اس طبقاتی تقسیم کو ختم تو نہیں کیا جا سکتا لیکن میرا خیال ہے کہ اسے کم تو کیا جا سکتا ہے۔مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کسی بھی طبقہ کی طرف سے سنجیدہ کاوش نہیں کی گئی۔

اس کی ایک بڑی وجہ شائد یہ رہی ہے کہ چوکیدار ہی چور بنے رہے،آپ خود سوچئے کہ جب چوکیدار ہی چوربن جائیں گے تو چوروں کو کون پکڑے گا،یا پھر دودھ کی رکھوالی بلے اور بندروں کے ہاتھ میں ماچس دے دی جائے گی تو نتیجہ کیا نکلے گا بائیس کروڑ عوام کے سامنے ہے۔پاکستان کے بننے کے بعد سے ہی ہر صاحب حیثیت،لارڈ،فیوڈل،اشرافیہ،جاگیردار،سیاستدان الغرض مذہبی علما نے بھی اپنے اردگرد اپنے ماننے اور چاہنے والوں کو ایسا حلقہ جمع کر رکھا ہے کہ جہاں چاہیں،جب چاہیں ان بھوکوں،ننگوں کی مدد سے امن وآشتی کو آتش نفرت میں بدل دیں۔

ایسے لوگ مفاد پرستوں کے ایک ٹولہ کے سوا کچھ نہیں ہوتے جو چالاک لومڑی کی طرح اپنے فائدے اور مفاد کی خاطر سیدھی سادھی عوام کو استعمال کرتے ہیں،لیکن صد افسوس اس عوام پر جو ان کے پیچھے لگ کر اپنے ہی ملک،اداروں اور افواج پاکستان کے خلاف زہرافشانی سے بھی اجتناب نہیں کرتے۔
حالیہ خلیجی ممالک کی صورت حال کو ہی لے لیجئے جس میں امریکی ڈرون نے ایرانی جرنیل قاسم کو چند ساتھیوں سمیت نشانہ بنا کر اس جہاںِ فانی سے رخصت کردیا،ایران کا عسکری جواب دینا،اخلاقی اور جنگی حکمت عملی کے تحت بنتا ہے ااور اس نے ایسا ہی کیا۔

لیکن ہم پرائی شادی میں عبداللہ بنے اپنے اپنے قول فیصل دے رہے ہیں کہ وہ امریکی وزارت خارجہ کو ہمیں فون کرنا چاہئے،ہم اپنی خودداری کو گروی نہیں رکھیں گے،ہماری بین الاقوامی حیثیت کیا ہے؟وغیرہ وغیرہ لیکن میرے خیال میں یہ مناسب نہیں کہ بطور عوام ہم اپنے ملک کی ہی افواج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا مذاق اڑائیں اور انہیں ڈکٹیٹ کریں،ہماری افواج،ہمارے ادارے بہتر جانتے ہیں کہ کس کو کس وقت کیا جواب دینا ہے۔

ایران کے حلیف بننا ہے یا امریکہ کے رفیق،خلیجی ریاستوں کو باہم متحد کر کے ایران کے ساتھ صلح پسندی کی طرف جانا ہے یا ایران کو قریبی مسلم ممالک کے ساتھ دوستانہ اور برادرانہ تعلقات پر مجبور کرنا ہے،یہ کام ہمیں ریاست اور ریاستی اداروں پر چھوڑ دینا چاہئے ۔ہمیں بحثیت پاکستانی اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا تے ہوئے اپنی صفوں میں اتحاد ویگانگت کو فروغ دینا ہے کیونکہ ہم تو پہلے ہی طرح طرح کے طبقات میں منقسم ہیں۔

ہم تقسیم در تقسیم کے اب متحمل نہیں ہو سکتے۔اسی ضرورت کو ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے محسوس کرتے ہوئے گذشتہ روز اپنے قطری ہم منصب کو ٹیلی فونک رابطہ کرتے ہوئے خطہ کی صورت حال پر اپنی تشویش کا اظہار بھی کیا ہے اور کہا ہے کہ ہمیں صلح جوئی ،امن پسندی اور برادرانہ تعلقات کا راستہ اپنانا چاہئے اور ہم دونوں کو مل کر خطہ میں امن کی بحالی کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔


یقینا پاکستان کی طرف قطری ہم منصب سے رابطہ ایک احسن قدم ہے،میں عرصہ بیس سال سے قطر میں مقیم ہونے کی بنا پر قطر کی معاشی ترقی ،خطہ کے پائیدار امن اور بین الاقوامی امن وسلامتی میں ان کے مثبت کردار کا چشم دید گواہ ہوں ،قطر جس تیزی سے دنیا ئے امن میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے میں سمجھتا ہوں وہ قابل تحسین وآفرین ہے۔لہذا ہمیں اپنے ملک کے اداروں کی مثبت سوچ کا ساتھ دینا چاہئے نا کہ مزید طبقات میں تقسیم،ذرا سوچئے کہ ایک ایسی قوم جو پہلے ہی ذات برادری،مذہبی فرقہ بندی،اور مختلف قسم کے طبقات میں تقسیم ہو وہ کیا مزید تقسیم کی متحمل ہو سکتی ہے،ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارا ایک طبقہ پاکستان سے زیادہ ایران کا وفادار ہے ،ایک کی وفاداریاں سعودی عرب کے ساتھ ہیں اور کچھ حلقے پاکستان سے بھی زیادہ امریکہ نواز ہیں،اور ہم کوئی اپنی اپنی بانسری بجانے پر مضر ہے۔

ہمیں کسی کے ساتھ وفاداری ثابت کرنے کی بجائے پاکستان کے ساتھ حق وفا ادا کرنا چاہئے کیونکہ پاکستان کی بقا اور سلامتی میں ہی ہماری بقا وسلامتی ہے اور اسی میں خطہ کا امن بھی مضمر ہے۔اس لئے ہمارا حریف،حلیف،رفیق کون ہوگا ؟یہ ہمارا کام نہیں اسے اداروں اور حکومت پر چھوڑ دینا چاہئے۔ہمیں بس اپنے ملک کی بقا کے لئے زندہ رہنا ہے۔اور اسی میں ہمارے ملک کی بھی حیات ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :