سکون ہو تو کچھ کیا جائے؟

بدھ 22 جنوری 2020

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

آج کے اخبارات کا مطالعہ کرتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ سب اخبارات کے کالم نگاروں کے کالمز کے عنوانات کا موضوع آٹا اور آٹے کا بحران تھا۔جیسے کہ موجودہ حکومت نے غریب کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھین لیا،مجھے آٹا دو،آٹا کہاں غائب ہے،سب ٹھیک نہیں ہے،آٹے کا بحران،غریب کا پیٹ بھی کاٹ دیا گیا وغیرہ وغیرہ۔
بلاشبہ اہل علم وفکر اور دانش مند کو فکر مند ہونا بھی چاہئے کیونکہ اشیائے قلت کا براہ راست تعلق عوام سے ہے اور کسی بھی ملک کا دانش مند طبقہ اس معاشرہ کی آنکھ ہوتا ہے جو وہ دیکھتے ہیں وہ ایک عام آدمی نہیں دیکھ پاتا یا جتنا عمیق مشاہدہ ان کا ہوتا ہے ایک عام آدمی کی سوچ کے زاویے اس نہج کو چھو نہیں سکتے،لیکن کیا ہی اچھا ہو اگر مناسب وقت کا انتظار کر کے ملک میں کسی بھی مسئلہ کے وقوع پذیر ہونے کے محرکات،اسباب ونتائج کے بارے میں حقائق جاننے کا بھی انتظار کرلیا جائے۔

(جاری ہے)

اس بات سے بھی انکار وفرار ممکن نہیں کہ ملک میں دال چاول اور آٹے کا بھاؤ گرانی کی طرف ہی گیا ہے،اشیائے خوردونوش میں آئے روز اضافہ ہی دکھائی دیتا ہے لیکن یہ اضافہ شائد اتنا زمینی حقائق میں نہیں ہوتا جتنا کہ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا میں دکھایا جاتا ہے۔اگر میں حالیہ آٹے کے بحران اور قیمتوں میں گرانی کی بات کروں تو مجھے بھی فطری طور پر تشویش ہوئی کہ ملک میں آٹے کا بحران کیوں پیدا ہو رہا ہے غریب کے منہ سے روٹی کا نوالہ کیوں چھینا جا رہا ہے،کیوں غریب آدمی کا پیٹ کاٹا جا رہا ہے حالانکہ اس حکومت نے تو اپنے منشور میں ہی اس ریاست کی طرز حکومت کو ماڈل بنانے کی بات کی تھی جہاں کوئی بھوکے پیٹ نہیں سوتا تھا۔

اسی تشویش کی تفتیش کے لئے میں نے قطر سے پاکستان اپنے دوست احباب اور فیملی کوفون کیا کہ کیا واقعی آٹے کی قیمت ایک دم بارہ سو روپے سے تجاوز کر گئی ہے یا محض پراپیگنڈہ ہے،تو مجھے سب کی طرف سے ایک ہی جواب ملا کہ نہیں آٹے کی قیمت کہیں بھی بارہ سے روپے نہیں ہے۔
اگر ایسا ہی ہے تو پھر وہ کون سے ہاتھ ،خیالات،ہوس،سیاسی چال،ملک دشمن اور معیشت کے دشمن ہیں جو پاکستان کے استحکام کے درپے ہیں۔

ملکی وسائل ومسائل میں پہلے ہی اتنا تفاوت ہے کہ ملک مزید کسی بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا۔لیکن ہم اور ہمارا میڈیا اپنے ہی ہاتھ پاؤں کاٹنے کے درپے اس طرح سے ہیں کہ الیکٹرانک میڈیا دیکھ لیں تو لگتا ہے پنجاب اور وفاق پی ٹی آئی کے ہاتھ سے نکل گیا،کسی بھی لمحہ حکومت گھر جا سکتی ہے مگر حقیقت مین جب وزیر اعظم کی تقریر سنی جائیں تو لگتا ہے کچھ ہوا ہی نہیں،میڈیا کہتا ہے معیشت اب آخری سانسیں لے رہی ہیں وزیر خزانہ کی پریس کانفرنس کہہ رہی ہوتی ہے کہ ملکی معیشت اب بحران سے نکلنے جارہی ہے،میڈیا کی خبریں دیکھ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ حکومت مزید مقروض ہوتی جا رہی ہے بلکہ ملک کو گروی رکھ دیا گیا ہے جسے اب قائداعظم ہی چھڑا سکتے ہیں لیکن حکومت کہتی ہے ہم نے گردشی قرضوں کا خسارہ ستر فیصد کم کردیا ہے،میڈیا بتاتا ہے کہ نوجوان بے روزگاروں کی تعداد میں اضافہ باعث تشویش ہے جبکہ علامہ اقبال انڈسٹریل اسٹیٹ کا پراجیکٹ ظاہر کر رہا ہے کہ تین لاکھ نوکریاں پیدا ہونے جارہی ہیں،ایسے بہت سی مس انڈرسٹینڈنگ ہیں جن سے کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ حکومت کیا ،خاکم بدہن یہ ملک ہی چند یوم کا مہمان ہے۔

خدا را ملکی معاملات پر اپنی اپنی سیاسی دکان چلانے والو!یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ ملک کے دم سے ہمارے جسم میں دم ہے وگرنہ نہ جان ہے نہ دم ہے۔ملکی فلاح میں ہمیں دشمن کی صفوں میں نہیں بلکہ صف اول میں صف بندی کرنا ہے،ملک کو پیش خطرات میں سردھڑ کی بازی لگانی ہے نا کہ اپنی باری دشمن کو دے کرمات کھانی ہے ہمیں بساطِ سیاست میں دشمن بادشاہ کو چیک میٹ کرنا ہے نا کہ اپنے وزیر،فیل اور بادشاہ کو اپنے ہی ہاتھوں مروانا ہے۔

ہمیں آٹے کے بحران کو خبر نہیں بنانا بلکہ اس مصنوعی بحران کے پیدا کردہ مکروہ چہروں کو بے نقاب کر کے عوام کے سامنے پیش کرنا ہے اپنی سیاست کے لئے نہیں بلکہ حب الوطنی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے۔اس سلسلہ میں حکومت کے ہر اس اقدام کا ساتھ دینا ہے جو فلاح،ترقی،مضبوطی اور استحکام کی خاطراٹھایا گیا ہو۔پھر دیکھئے کہ ملک کیسے دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتا ہے۔ان شا اللہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :