خلجی بننا پڑے گا

جمعہ 27 مارچ 2020

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

قدیم اساتذہ کے بقول عصائے شاہی کے بغیر عوام الناس کو قابو کرنا بہت مشکل ہوتا ہے،لیکن مشہور زمانہ کتاب ارتھ شاستر کے مصنف چانکیہ کوتلیہ کا خیال یہ ہے کہ بادشاہ اگر ڈنڈے سے سختی کرے گا تو وہ عوام میں ہیبت اور دہشت کی علامت بن جائے گا،جو نرمی برتے گا لوگ اسے بودا کمزور اور بزدل خیال کریں گے ،جو قرار واقعی سزا دے گا اس کی عزت کی جائے گی۔

یعنی کوئی بھی بادشاہ اگر عوام میں عزت چاہتا ہے تو اسے قانون وضوابط کے مطابق بلا تعصب قرار واقعی سزا دینا چاہئے کیونکہ یہی اخلاقیات،قانون اور امن وامان قائم کرنے کا تقاضا بھی ہے،اگر آپ لوگوں کے علم میں ہو کہ ایک بار حضرت عمر نے فرمایا تھا کہ”جو ریاست مجرموں پر رحم کرتی ہے وہاں کے بے گناہ لوگ بڑی بے رحمی سے مرتے ہیں“
گویا عوام کو بے رحمی کی موت سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ ایک بادشاہ قانون کے اطلاق اور انصاف کی فراہمی کے لئے اگر مجرموں کے ساتھ بے رحمانہ سلوک روا رکھتا ہے تو یہ عین اسلام اور اخلاق ہے۔

(جاری ہے)

کیونکہ ایک انصاف پسند اور عادل بادشاہ رعایا کو بلا تعصب فلاح میں پیش پیش ہوتا ہے اس کی نظر میں امیروغریب برابر ہوتے ہیں،وہ کسی کی طرفداری اس بنا پر نہیں کرتا کہ مجرم یا ملزم کس طبقہ سے تعلق رکھتا ہے۔اسی لئے ازمنہ قدیم میں بادشاہ کی پہچان اس کی کابینہ بھی ہوا کرتی تھی ایک سمجھدار بادشاہ اپنی ٹیم کا انتخاب کرتے وقت بہت احتیاط سے کام لیتا،لیکن جب ٹیم منتخب کرلیتا تو سب سے پہلے اسی ٹیم کی مخبری اپنے ذاتی مخبروں سے کرواتا کہ مبادا اس کا انتخاب کہیں عوام الناس کے خلاف تو نہیں ہو گیا۔

ایک اچھے اور برے بادشاہ کہ پہچان اس کے نوازنے سے ہوتی تھی یعنی کہا یہ جاتا ہے کہ ایک اچھا بادشاہ اچھوں کو اور ایک کمینہ بادشاہ اپنے اردگرد کمینوں کو نوازتا ہے۔اس بات کا اظہار چانکیہ نے ان الفاظ میں کیا ہے کہ”کمینہ بادشاہ کمینوں کو نوازتا ہے،آریاؤں کو نہیں“
اب بات کرتے ہیں پاکستان کی موجودہ صورت حال کی جس میں وزیر اعظم نے کرونا جیسی موذی مرض کے خطرات کو بھانپتے ہوئے عوام کو ریلیف پیکج دیا ہے کہ عوام کو کس طرح سے خوراک،صحت اور مالی معاونت کی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔

اس سلسلہ میں انہوں نے دس ارب کی رقم مختص کر دی ہے جس کے ثمرات ضرورت مندوں تک آج سے پہنچنا شروع ہو جائیں گے۔وزیر اعظم کا قدم بلا شبہ قابل تحسین ہے کہ کچھ ہونا نہ ہونے سے بہتر ہے اور پھر ڈوبتے کو تنکے کا بھی سہارا مل جائے توساحل تک پہنچنے کی ایک امید پیدا ہو جاتی ہے۔بعض عوامی حلقوں،سیاسی شعبدہ بازوں اور مخالفین کے رویوں سے کبھی کبھار میرا دل چاہتا ہے کہ خان صاحب کچھ دنوں کے لئے علاؤلدین خلجی بن جائیں۔

علاؤالدین خلجی نے اپنے دورحکومت میں جس طرح ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور نظم وضبط کو کنٹرول کرنے لئے جو اقدامات اٹھائے تھے ان سب کی آج بھی میرے ملک کو ضرورت ہے۔
علاؤالدین خلجی کو تاریخ میں ایک طاقتور بادشاہ خیال کیا جاتا ہے،اگرچہ مشہور مورخ ضیاالدین برنی کہتا ہے کہ اگرچہ وہ جلال الدین خلجی کا داماد تھا لیکن اس کی اپنی بیوی اور ساس سے کوئی خاص نہیں بنتی تھی اس لئے اس نے مال اکٹھا کرنے کے لئے بھلسہ اور دیواگری پر حملہ کر کے بے پناہ دولت اکٹھی کی لیکن اس کے پاس کوئی مستند حوالہ نہیں ہے۔

علاؤالدین خلجی کو اس لئے بڑا اور طاقتور بادشاہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے رعایا کی فلاح وبہبود کے لئے بڑے بڑے اقدامات کئے جیسے کہ بازار میں ہر چیز کی قیمت مقرر کی تاکہ اخراجات مکمل قابو میں رہیں۔جاسوسی کا ایسا نظام بنایا کہ بادشاہ کو منڈی کے حالات اور خبریں براہ راست محل میں بیٹھے ہی مل جایا کرتی تھیں۔اشیا کو قابو میں کرنے کی ایک سب سے بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ لوگ خوش حال رہیں،لوگ جتنا خوش حال ہوں گے اتنی ہی بھاری تعداد میں فوج میں شامل ہوں گے۔

کیونکہ وہ معاشی طور پر بے فکری کے ساتھ ساتھ پس اندازی قوت کے بھی حامل ہوں گے۔خلجی نے ہر جنس کا الگ الگ بازار بنا رکھاتھا جیسا کہ کوتلیہ نے بھی اپنی کتاب میں صرافہ بازار کے بنانے،اس کے انتظامات چلانے کے لئے ایک صرافہ ناظم کے تقرر کا ذکر کیا ہے۔اس کا عوامی سطح پر یہ فائدہ ہوتا ہے کہ مقابلہ کی دوڑ میں دوکاندار عوام کو سستے داموں اشیا فروخت کر دیتے ہیں ،جو کہ عوامی مفاد میں ہوتا ہے۔

ایک سمجھدار بادشاہ وہی ہوتا ہے جو عوام کی فلاح کے ذریعے ان کے دلوں پر حکمرانی کرے۔
سب سے بڑے مسئلہ یعنی ذخیرہ اندوزی کو علاؤالدین نے کیسے قابو میں کیا ،جو میرے نزدیک ہر حکومت کو کرنے کی ضرورت ہے،کہ شاہی گودام بنائے گئے جو بوقت ضرورت سستے داموں آڑھتیوں کو فروخت کی جاتی تھیں ،جب منڈی میں آڑھتی کو اشیائے ضروریہ اور صرف سستے داموں ملے گا تو یقینا وہ عوام کو ارزاں قیمت پر ہی فروخت کرے گا۔

سب سے برا قدم جو علاؤالدین نے اٹھایا وہ تھا ناپ تول میں کمی کی برائی کو کیسے روکا جائے۔اس نے اس فعل ہی ایسی کڑی اور سخت سزا مقرر کی کہ جو بھی ایک بار اس برائی میں مبتلا پایا جاتا سزا کے بعد دوبارہ اس کی جرات کبھی نہ کرتا۔کیونکہ علاؤالدین کے جاری کردہ قانون کے مطابق اگر کوئی دوکاندار ناپ تول میں کمی کا مرتکب پایا جاتا تو تو اتنا ہی گوشت دوکاندار کے جسم سے نکال کر اس کمی کو پورا کیا جاتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :