
خلجی بننا پڑے گا
جمعہ 27 مارچ 2020

مراد علی شاہد
گویا عوام کو بے رحمی کی موت سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ ایک بادشاہ قانون کے اطلاق اور انصاف کی فراہمی کے لئے اگر مجرموں کے ساتھ بے رحمانہ سلوک روا رکھتا ہے تو یہ عین اسلام اور اخلاق ہے۔
(جاری ہے)
اب بات کرتے ہیں پاکستان کی موجودہ صورت حال کی جس میں وزیر اعظم نے کرونا جیسی موذی مرض کے خطرات کو بھانپتے ہوئے عوام کو ریلیف پیکج دیا ہے کہ عوام کو کس طرح سے خوراک،صحت اور مالی معاونت کی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔اس سلسلہ میں انہوں نے دس ارب کی رقم مختص کر دی ہے جس کے ثمرات ضرورت مندوں تک آج سے پہنچنا شروع ہو جائیں گے۔وزیر اعظم کا قدم بلا شبہ قابل تحسین ہے کہ کچھ ہونا نہ ہونے سے بہتر ہے اور پھر ڈوبتے کو تنکے کا بھی سہارا مل جائے توساحل تک پہنچنے کی ایک امید پیدا ہو جاتی ہے۔بعض عوامی حلقوں،سیاسی شعبدہ بازوں اور مخالفین کے رویوں سے کبھی کبھار میرا دل چاہتا ہے کہ خان صاحب کچھ دنوں کے لئے علاؤلدین خلجی بن جائیں۔علاؤالدین خلجی نے اپنے دورحکومت میں جس طرح ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور نظم وضبط کو کنٹرول کرنے لئے جو اقدامات اٹھائے تھے ان سب کی آج بھی میرے ملک کو ضرورت ہے۔
علاؤالدین خلجی کو تاریخ میں ایک طاقتور بادشاہ خیال کیا جاتا ہے،اگرچہ مشہور مورخ ضیاالدین برنی کہتا ہے کہ اگرچہ وہ جلال الدین خلجی کا داماد تھا لیکن اس کی اپنی بیوی اور ساس سے کوئی خاص نہیں بنتی تھی اس لئے اس نے مال اکٹھا کرنے کے لئے بھلسہ اور دیواگری پر حملہ کر کے بے پناہ دولت اکٹھی کی لیکن اس کے پاس کوئی مستند حوالہ نہیں ہے۔علاؤالدین خلجی کو اس لئے بڑا اور طاقتور بادشاہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے رعایا کی فلاح وبہبود کے لئے بڑے بڑے اقدامات کئے جیسے کہ بازار میں ہر چیز کی قیمت مقرر کی تاکہ اخراجات مکمل قابو میں رہیں۔جاسوسی کا ایسا نظام بنایا کہ بادشاہ کو منڈی کے حالات اور خبریں براہ راست محل میں بیٹھے ہی مل جایا کرتی تھیں۔اشیا کو قابو میں کرنے کی ایک سب سے بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ لوگ خوش حال رہیں،لوگ جتنا خوش حال ہوں گے اتنی ہی بھاری تعداد میں فوج میں شامل ہوں گے۔کیونکہ وہ معاشی طور پر بے فکری کے ساتھ ساتھ پس اندازی قوت کے بھی حامل ہوں گے۔خلجی نے ہر جنس کا الگ الگ بازار بنا رکھاتھا جیسا کہ کوتلیہ نے بھی اپنی کتاب میں صرافہ بازار کے بنانے،اس کے انتظامات چلانے کے لئے ایک صرافہ ناظم کے تقرر کا ذکر کیا ہے۔اس کا عوامی سطح پر یہ فائدہ ہوتا ہے کہ مقابلہ کی دوڑ میں دوکاندار عوام کو سستے داموں اشیا فروخت کر دیتے ہیں ،جو کہ عوامی مفاد میں ہوتا ہے۔ایک سمجھدار بادشاہ وہی ہوتا ہے جو عوام کی فلاح کے ذریعے ان کے دلوں پر حکمرانی کرے۔
سب سے بڑے مسئلہ یعنی ذخیرہ اندوزی کو علاؤالدین نے کیسے قابو میں کیا ،جو میرے نزدیک ہر حکومت کو کرنے کی ضرورت ہے،کہ شاہی گودام بنائے گئے جو بوقت ضرورت سستے داموں آڑھتیوں کو فروخت کی جاتی تھیں ،جب منڈی میں آڑھتی کو اشیائے ضروریہ اور صرف سستے داموں ملے گا تو یقینا وہ عوام کو ارزاں قیمت پر ہی فروخت کرے گا۔سب سے برا قدم جو علاؤالدین نے اٹھایا وہ تھا ناپ تول میں کمی کی برائی کو کیسے روکا جائے۔اس نے اس فعل ہی ایسی کڑی اور سخت سزا مقرر کی کہ جو بھی ایک بار اس برائی میں مبتلا پایا جاتا سزا کے بعد دوبارہ اس کی جرات کبھی نہ کرتا۔کیونکہ علاؤالدین کے جاری کردہ قانون کے مطابق اگر کوئی دوکاندار ناپ تول میں کمی کا مرتکب پایا جاتا تو تو اتنا ہی گوشت دوکاندار کے جسم سے نکال کر اس کمی کو پورا کیا جاتا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مراد علی شاہد کے کالمز
-
برف کا کفن
بدھ 12 جنوری 2022
-
اوورسیز کی اوقات ایک موبائل فون بھی نہیں ؟
منگل 7 دسمبر 2021
-
لیڈر اور سیاستدان
جمعہ 26 نومبر 2021
-
ای و ایم اب کیوں حرام ہے؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
ٹھپہ یا بٹن
جمعہ 19 نومبر 2021
-
زمانہ بدل رہا ہے مگر۔۔
منگل 9 نومبر 2021
-
لائن اورکھڈے لائن
جمعہ 5 نومبر 2021
-
شاہین شہ پر ہو گئے ہیں
جمعہ 29 اکتوبر 2021
مراد علی شاہد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.