قسم، تقسیم اور مفادات

ہفتہ 22 اگست 2020

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

پاسپورٹ ایسا سفری دستاویز ہے جو بطور کسی ملک کے باشندہ ،آپ کا تعارف اور پہچان دوسرے ممالک میں کرواتا ہے۔پاسپورٹ کی عزت دراصل ملک کے وقار اور حیا کی دلیل خیال کی جاتی ہے۔اسی لئے دیار غیر میں آپ نے سنا ہوگا کہ دیکھنا سبز پاسپورٹ کی عزت کا خیال رکھنا،جب یہ کہا جا تا ہے تو اس کا مطلب محض سبز رنگ کا پاسپورٹ ہی نہیں بلکہ ملک پاکستان کے تقدس کی بات کی جا رہی ہوتی ہے۔

بیرون ملک میں رہائش پزیر تارکین وطن سب سے زیادہ اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ ہر اس حرکت سے بچا جائے جس سے پاکستانی پاسپورٹ اور ملک پاکستان پہ حرف آسکتا ہو۔پاسپورٹ کی اگر تاریخ کی بات کی جائے تو کتب التواریخ سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اس کے آثار قبل از مسیح سے ملتے ہیں اگرچہ ان کی قسم حالیہ پاسپورٹ جیسی نہیں ہوتی تھی،جیسا کہ اہرام مصر کے ادوار میں خروج کی صورت میں،چین میں 1889میں چنگ شاہی خاندان کے دور میں،جبکہ جاپان میں 1886 میں اور سلطنت عثمانیہ کے دور میں 1900 کے دور میں اس ڈاکومنٹ کے نمونے ملتے ہیں۔

(جاری ہے)

تاہم جنگ عظیم اول کے اختتام کے بعد دنیا میں بہت تیزی سے تبدیلیاں آنا شروع ہوئیں تو اس بات کی شدت کو بھی محسوس کیا گیا کہ کوئی بھی فرد بغیر اپنی شناخت کے دوسرے ممالک میں داخل ہونے سے قاصر ہوگا۔اس مسئلہ کو لیگ آف نیشنز کے پلیٹ فارم پہ اٹھایا گیا ۔اس طرح 1928 میں باقاعدہ پاسپورٹ کے آغاز کا اعلان کردیا گیا۔گویا جنگ عظیم اول کے بعد دنیا جن دو بڑے بلاکس میں منقسم ہو گئی تھی اسے اور مضبوط کردیا گیا۔

یہی وہ عرصہ ہے جس میں جغرافیائی حدود کے تعین کے لئے ارض ِ عالم میں لکیریں کھینچ کر ملکوں کے تصور سے ایک دوسرے کے درمیان دیواریں کھڑی کر دی گئیں۔
جنگ عظیم اول کے بعد لیگ آف نیشنز بنانے کا مقصد یہ تھا کہ اب دنیا میں کوئی دوسری عالمگیر جنگ نہیں ہونے دی جائے گی لیکن 1939 میں دنیا کے حالات ایک معاملے سے واقعہ سے ایسے بگڑے کہ دنیا پھر سے ایک عالمگیر جنگ میں کود گئی۔

اس جنگ میں پوری دنیا دو حصوں یا بلاکس میں منقسم ہو گئی تھی۔ایک طرف اتحادی اور دوسری طرف کمیونسٹ بلاک یعنی محوری طاقت۔جنگ عظیم دوم کے اختتام کے بعد بھی یہ بلاکس ایسے ہی رہے اور دنیا میں دو بڑی طاقتوں امریکہ اور روس کی حکومت اور طاقت کو تسلیم کر لیا گیا۔دنیا میں ایسی تقسیم کیوں ہوتی ہیں؟اس کی بہت سے وجوہات میں چند یہ ہیں کہ طاقت کا حصول،علاقائی برتری کی خواہش،نسلی تعصب،طاقتور کا کمزور پر استحصال اور اپنی حیثیت کو منوانا،لیکن یہ سب طاقت کے اندھا دھن استعمال سے ہی ممکن ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا میں واقع ہونے والی دونوں بڑی عالمی جنگوں میں کروڑوں کی تعداد میں لوگ لقمہ اجل بنا دیے گئے۔

اسی تعداد میں لا پتہ اور زخمی بھی ہوئے۔لیکن تاریخ سے ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ایسی تقسیم کبھی بھی مستقل نوعیت کی نہیں ہوتی۔بدلتے حالات،سیاسی و معاشی ترجیحات،طاقت کے توازن میں بگاڑ اور استحصال سے بلاکس میں بھی تبدیلی آتی رہتی ہے۔گویا آج کے دوست کل کے دشمن اور کل کے دشمن آج کے دوست بھی بن سکتے ہیں۔اس لئے کہ سیاست میں کوئی چیز حتمی نہیں ہوتی۔

سیاست میں محض مفادات عزیزہوتے ہیں۔آجکل کے دور میں خارجہ پالیسی کے بارے میں یہی بین الاقوامی رائے ہے کہ خارجہ پالیسی میں ہر ملک اپنے مفادات کو عزیز رکھتا ہے۔ان مفادات کی بدولت ہی نہ ہی بین الاقوامی سیاست ،تعلقات اور خارجہ پالیسی میں استحکام نہیں ہو سکا۔یہی عدم استحکام دراصل دنیا کو بلاکس میں تقسیم کرنے کا باعث بنتا ہے۔
حالیہ بلاکس کی اگر بات کی جائے تو صد حیف مسلم امہ پر کہ جو غیر کے اشارہ ابرو پہ اپنا دامن صد چاک کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

اقبال نے تو مغربی تہذیب و تمدن کے بارے میں پیش گوئی کی تھی کہ وہ اپنے ہی خنجر سے خود کشی کر لے گا لیکن روح اقبال سے امت مسلمہ کو معافی کا طلب گار ہونا چاہئے کہ ہم اپنے ہی ہاتھوں اپنا خون کرکے اپنے ہی جسم کو تار تار کرنے کے در پے ہو گئے ہیں۔اپنی اس صدائے ضمیر کو لکھتے ہوئے قلم خون اگلتے ہوئے مجھ سے سوال کر رہا ہے کہ کہاں ہیں وہ نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر والے مسلمان،ہم تو دشمنوں کی چال کا حصہ بنتے ہوئے اپنے آپ کو ہی تقسیم کرنے جا رہے ہیں۔

جس دشمن کی پیش گوئی ہمارے آخرالزماں پیغمبرﷺ نے فرما دی انہیں وہ ہمارے دوست کیوں کر ہو سکتے ہیں۔انہوں نے تو ہمیں ہی دو بلاکس میں تقسیم کر دیا ہے۔ہم چین کے ساتھ ہیں یا امریکہ کے یہ سوال تو بعد کا ہے ،ہم متحد کیوں نہیں،ہم ایک جسم کی مانند کیوں نہیں،چبھے کانٹا جو یورپ کے مسلمان کو تو پوری امت کا جسم کیوں خون خون ہو جاتا ہے۔اب ہم آپس میں ہی دو بلاکس میں منقسم ہو گئے ہیں کہ ترکی،ایران،پاکستان،انڈونیشیا کا بلاک کس کے ساتھ ہے اور عرب کے دو بلاکس کس کے ساتھ ہیں۔

مگر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ہم خود کس کے ساتھ ہیں؟
یو اے ای،سعودی عرب،بحرین،عمان،اپنے بلاک میں کون سے اتحادی جمع کرتے ہیں اور ترکی،قطر،ایران ،پاکستان اور انڈونیشیا کس کی حمائت کرتے ہیں۔اسرائیل اور کس کس ملک کو اپنے ساتھ ملا کر عرب اور مشرق وسطیٰ کو پارہ پارہ کرتا ہے۔فلسطین کا مستقبل کیا ہوتا ہے۔اسرائیل کا گریٹر اسرائیل کا خواب پورا ہوتا ہے کہ نہیں۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی کیا نیا رخ اختیار کرتی ہے۔یہ ایسے سوال ہیں جن کا جواب آئندہ چند دنوں میں روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گا۔لیکن سلام ہے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو کہ انہوں نے اپنے ضمیر کی آواز کو بلند کیا۔کیونکہ ضمیر کا سودا قوم کا سودا ہوتا ہے۔انشا اللہ جب تک ہم اپنی صدائے ضمیر کو نوائے شکم بننے سے بچائے رکھیں گے کوئی عالمی طاقت ہمیں مزید منقسم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔اگر ایسا نہ ہوا تو پھر
جنگ تو چند برس کی ہوتی ہے
زندگی سو برس روتی ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :