ڈائریکٹ ایکشن اور ڈائریکشن

منگل 8 ستمبر 2020

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

تخلیق پاکستان ایک ایسا عمل تھا جس کے بعد ایک مزدور سے قیادت تک ہو کوئی عزم صمیم لئے ہوئے تھا کہ اب منزل ِ مقصود کے بعد سے سے مشکل مرحلہ تعمیر وطن کا ہے۔جس کے بارے میں قائد اعظم بہت پرجوش تھے کیونکہ جب کسی نے صحافی نے پاکستان کی سالمیت کے بارے میں سوال کیا تو قائد نے دو ٹوک اور نپے تلے لہجہ میں جواب دیا کہ ”دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو ختم نہیں کر سکتی“۔

لیکن ان کی زندگی نے وفا نہ کی اور انہیں تکمیل پاکستان کے محض تیرہ ماہ بعد ہی ایک لا علاج بیماری کی وجہ سے اس دنیائے فانی سے کوچ کرجانا پڑا۔اگرچہ ان کی وفات پر بھی ابھی تک بہت سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں جو کہ میرے دانست میں بھی مبنی بر حقیقت ہے،جیسے کہ قائد کو زیارت جیسے تنہائی زدہ علاقہ میں کیوں بھیجا گیا جہاں سہولیات نامکی کوئی چیز نہیں تھی،11 ستمبر کو جس جہاز کے ذریعے قائد کوئٹہ سے کراچی آئے بقول الہی بخش اس میں انتظامات ناقص تھے جہاں تک کہ سلنڈر میں آکسیجن بھی کم تھی،ماڑی پور ائرپورٹ پر سرکاری پروٹوکول کیوں نہ تھا؟جو ایمبولنس قائد کے لئے بھیجی گئی اس کا پٹرول راستے میں ہی کیوں ختم ہو گیا،دو گھنٹے کے بعد دوسری ایمبولنس کیوں بھیجی گئی،یہاں تک کہ قائد کا بیمار جسم سڑک کنارے پڑا تھا اور سسٹرڈنہم ایک گتہ کے ٹکڑے سے ان کے منہ سے مکھیاں اڑا رہی تھیں۔

(جاری ہے)

کیا ان کے پروٹوکول میں کسی بھی سرکاری بیوروکریٹ اور دیگر گاڑی کے لئے قائد نے منع کر رکھا تھا جیسے کہ سب یہی جواب دے رہے ہیں کہ انہیں قائد نے منع کردیا تھا کہ کوئی بھی ائرپورٹ پر نہ آئے۔قائد اعظم نواب آف بہاول پور کی رہائش گاہ جانا چاہتے تھے لیکن انہیں گورنر ہاؤس لے جایا گیا وغیرہ وغیرہ۔لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قائد نے اپنی زندگی اس ملک کے لئے وقف کر رکھی تھی اور انہیں کی کاوشوں کا ثمر ہے کہ آج ہم پرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔


قائد اعظم جیسے راہنما اصل میں ایسے ڈائریکٹر ہوتے ہیں جن کی موجودگی ہی کہانی کے کامیاب ہونے کی دلیل ہوا کرتی ہے۔لیکن کامیابی،مقبولیت اور شہرت ودوام اسے ہی نصیب ہوتا ہے جس کا ڈائریکٹراور کاسٹ دونوں محنت کش ہوں۔قائد کی کہانی میں آدھی بات درست ثابت ہوئی کہ ایک ڈائریکٹر تو جفا کش تھا لیکن شومئی قسمت سے اس کہانی کے اداکار اس معیار کے سعادت مند اور استعداد کار سے خالی تھے جس کی تمنا لے کر قائد نے اس سفر کا آغاز کیا تھا۔

اس کی مثال میں ایسے دے کر اپنے قارئین کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ جیسے ایک صحت مند،تندرست وتوانا درخت کے لئے ضروری ہے کہ اس کا بیج بھی صحت مند ہو،تندرستی کے ساتھ ساتھ اس بیج کے لئے ضروری ہے کہ جب وہ زمین سے باہر آجائے تو اس کے ارد گرد کے حالات اور موسم اس پر اثر انداز نہ ہوں اس کے کئے کسان یا زمیندار کو خاص محنت درکار ہوتی ہے کیونکہ نوزائیدہ درخت کی جب کونپلیں پھوٹتی ہیں تو انہیں سردی اور گرمی بہتجلد متاثر کرتی ہے۔

اگر کسان یا زمیندار اسے موسمی کی تلخی سے بچانے میں کامیاب ہو گیا تو پھر بیج سے اگنے والے درخت کا تنا اتنا ہی مضبوط وتوانا ہوگا جتنا کہ بیج خود تھا۔ لیکن اگر آپ نے زندگی میں کبھی مشاہدہ کیا ہو کہ تن تنہا تنے کے ساتھ اگر کوئی درخت کھڑا ہو تو اسے دیمک زدہ یا خزاں رسیدہ خیال کیا جاتا ہے،یعنی درخت پتوں اور شاخوں کے بنا مردہ مردہ سا دکھائی دیتا ہے،اوراگر کوئی درخت محض پتے اور شاخیں ہی رکھتا ہو لیکن ثمر آور نہ ہو تو اس کا کام ماسوا چھاؤں کے اور کچھ نہیں ہوتا۔

گویاوہی درخت سب کو بھاتا ہے جو خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ پھل بھی مہیا کرتا ہو۔
پاکستان کی خوش قسمتی یہ رہی کہ اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے والا بیج یعنی قائد اعظم محمد علی جناح دوراندیش،معاملہ فہم اور ذی شعور صاحب فراست شخص تھے۔ان کی بصیرت اور دوراندیشی سے ہی پاکستان معرض وجود میں آیا لیکن ان کے اس دنیائے فانی سے رخصت ہوجانے کے بعد پاکستان کے درخت کو خوبصورت اور ثمرآور بنانے کے لئے ہمیں ان جیسے راہنما میسر نہ آسکے اور اگر کوئی ان کا نقشِ ثانی بنا بھی تو قوم نے ،یا کچھ اور طاقتوں نے انہیں راستے سے ہی ہٹا دیا۔

جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ پاکستان کو سیاسی ومعاشی استحکام نصیب نہ ہو سکا۔قائد اعظم نے جس طرح پاکستان معرض وجود میں آنے کے بعد شب وروز محنت شاقہ سے کام لیتے ہوئے اسے اپنے پاؤں پہ کھڑا کرنے کی جس طرح کوشش کی کاش کوئی قائد پاکستان کو نصیب ہو جاتا تو آج دنیا میں ہمارا مقام بہت بلند ہوتا۔شخصیات،اداروں اور سیاستدانوں نے تو ملک پر ایسے ایسے تجربات کئے کہ ریاست کم اور لیبارٹری زیادہ دکھائی دینے لگا۔

جبکہ قائد نے تو کہا تھا کہ
”ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا تھا،بلکہ ہم ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں“
لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ ملک میں نام ،اسلام بچوں کا تو ہے مگر اسلام کا عملی اطلاق مفقود ہے۔اصول کاغذوں میں ایسے دفن ہو کر رہ گئے ہیں کہ اصولوں ک بنیاد پر حاصل کردہ ملک میں کبھی کبھی جنگل کا اصول دکھائی دیتا ہے۔

لیکن ہمیں مایوس نہیں ہونا ہے ہو سکتا ہے کہ اللہ نے موجودہ حکمران کو اصولوں کی پاسداری اور قانون کے عملی اطلاق کے لئے منتخب کرلیا ہو۔ہو سکتا ہے قائد کے وضع کردہ اصولوں کا عملی اطلاق اس حکومت کے ہاتھوں سرانجام دینا قرار پائیں۔لیکن یہ سب تب ممکن ہے جب ڈائریکٹر ،ڈائریکشن دینے کی بجائے ڈائریکٹ ایکشن سے کام لے گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :