
ووٹ،نوٹ اور عزت
منگل 9 مارچ 2021

مراد علی شاہد
(جاری ہے)
جبکہ تلوار،تیر وتفنگ کے متبادل اب کمپیوٹر میدان کار زار میں آچکا ہے۔اسی لئے تو آج کی جنگ کو 5th generation war کہا جاتا ہے ۔یہ ایک ایسی جنگ ہے جس میں جسمانی طاقت پر ذہنی استعداد غالب آچکی ہے اور اس جنگ میں وہی جیتے گا جن کے جوانوں میں ایسی صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود ہوں گی۔
اس جنگ میں کیا ہے کہ کس کو کیسے،کب اور کس وقت تباہ کرنا ہے بس ایک انگلی کو دبانے کی دوری پر ہوگی۔ایک بٹن پر enter پریس کرنا ہے اور دنیا ملبے کا ایک ڈھیر۔لیکن تاریخ کا مطالعہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ جب جب ظلم بڑھا اس ظلم کو تاریج کونے کے لئے اللہ نے کسی نہ کسی مسیحا کوضرور بھیجا ہے۔جب جب باطل نے سر اٹھایا ہے گردن کشی کے لئے حق کی تلوار کا کاری وار ضرور چلا ہے۔یہی قانون قدرت اور منشائے ایزدی بھی ہے۔کہ حق کو باطل کی جگہ لینا ہی ہے۔اگر اسلامی تاریخ سے حق وباطل کی لاثانی مثال و دلیل کو پیش کرنا ہو تو معرکہ کرب وبلا کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے۔قدرت نے کرب و بلا کے ایک ایک کردار کو رہتی دنیا تک باعث ِ تقلید بنا دیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ باطل کی صفوں کے سب کرداروں کو تاقیامت باعث عبرت بنا کر پیش کر دیا ہے اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ حسین استعارہ ہے حق کا۔اور یزید باعثِ عبرت ہے ان سب کے لئے جو حق کی راہ میں کانٹے بچھاتے ہیں ۔اگر غور کیا جائے تو یزیزیدیت ،عبرت ہی نہیں بلکہ ان سب کے لئے موت ہے جو راہ یزید کاانتخاب کرتے ہیں۔جبکہ دوسری طرف امام عالی سر کٹوا کر نوکِ سناں کی زینت بن کر آج بھی امامت کے اعلی معیار اور درجے پر فائز ہیں۔دنیاوی لحاظ سے اگر سوچا جائے تو مسئلہ کیا تھا بس ہاتھ میں دوسرا ہاتھ دینا تھا،یعنی بیعت۔بس ایک بار اس کو مان کیا جاتا تو جان کی امان مل جاتی،لیکن نہیں ایسا نہیں ہوا اور ہو بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ امام تو اس عظیم ہستی کے لاڈلے تھے جنہوں نے تن تنہا عرب کے کفار کو راہ حق دکھا دیا اور کوئی دنیاوی لالچ انہیں چھو کر بھی نہیں گزری۔وہ امام جانتے تھے کہ یہ بیعت نہیں ہے بلکہ ووٹ ہے اور اگر میں یہ ووٹ یزید کے حق میں استعمال کرتا ہوں تو رہتی دنیا تک اسی راستے کا انتخاب کیا جائے گا۔یہ ہے ووٹ کی عزت اور مقام،جسے آج سے پندرہ سو برس نواسہ رسول ﷺ ہمیں بتا گئے کہ سر کٹ تو سکتا ہے لیکن کسی باطل کے سامنے نگوں نہیں ہو سکتا۔
کیا دور رواں میں ووٹ کا وہ فلسفہ جو امام عالی مقام نے ہمیں بتایا اس کا رنگ ماند پڑ گیا ہے کہ ہم اس قابل نہیں رہے کہ ووٹ کے تقدس کا بار اپنے کاندھوں پر اٹھا سکیں۔کہیں ایسا تو نہیں کہ دنیاوی ضروریات،غرض اور ہوس ولالچ نے ہمیں ووٹ اور نوٹ میں کوئی تمیز باقی نہیں رہنے دی۔اسی لئے تو انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی ہماری اندر کی ہوس ایک دم انگڑائی لے کر بیدار ہو جاتی ہے کہ بس لوٹ لو میدان نہ جانے پھر کبھی موقع ملے کہ نا ملے۔ایسے لوگوں لے لئے ووٹ ہی سب کچھ ہوتے ہیں۔اسی لئے تو وہ اپنے ضمیر کی بولی سرعام لگا دیتے ہیں۔جیسا کہ ابھی حالیہ سینٹ کے الیکشن میں ہوا۔افسوس یہ نہیں ہوتا کہ وہ کون سی پارٹی کے تھے،چلئے وہ حکومتی پارٹی کے ہی اراکین تھے لیکن کیا وہ اپنے ضمیر کا سودا کر سکتے ہیں یا ان کے لئے ایسا کرنا جائز ہے۔ہرگز نہیں بلکہ ایسے افراد کی پکڑ تو عا م انسان سے زیادہ ہونا چاہئے کیونکہ یہ قوموں کو مستقبل متعین کرتے ہیں۔اور چہ گویرا نے تو کہا تھا کہ
”موت کو گلے لگا لینا لیکن کبھی اپنے ضمیر کا سودا نہ کرنا کیونکہ ضمیر کا سودا قوموں کا سودا ہوتا ہے“
جبکہ ہمارے ہاں تو سینٹ کے انتخابات میں گیلانی صاحب کے صاحبزادے تسلیم بھی کر چکے تو کچھ نہ ہوا،مریم بی بی نے بائیس کروڑ عوام کے سامنے اعتراف جرم کیا کہ اس بار سیٹ کی سیاست چلی ہے،جبکہ حکومتی اراکین تو بک بھی چکے اور خان صاحب کے ساتھ بھی نششت بردار ہیں۔کیا ایسے راہبروں کے ضمیر مجرم نہیں ہوتے۔بیوی کے قرض معاف سے لے کر ترک صدر کی اہلیہ کے ہار کے معاملہ تک ضمیر کا سودا کرنے والا آج نہ جانے کس بنیاد پر کہہ رہا ہے کہ میرے کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے مجھے سینٹ کے چیئرمین کے لئے ووٹ دیں۔جناب گیلانی صاحب سید زادے ہو کر کس ووٹ اور ضمیر کی بات کرتے ہیں۔آپ کے آباؤاجداد نے تو ایک ووٹ کے لئے سر قلم کروانے کو ترجیح دی لیکن نہ سر جھکا اور نہ بیعت کی۔آپ کیسے سید زادے ہیں کہ بائیس کروڑ عوام کے جذبات سے کھیل رہے ہیں اور اوپر سے اپنے سید زادے ہونے کو کیش کروا رہے ہیں۔یاد رکھئے گا کہ ایک دن حساب بھی ہونا ہے۔اور وہاں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجانا ہے۔
آج اگر ووٹ کو نوٹ سے خرید کر کے صاحب اقتدار بن جاتے ہیں تو کیا اس کا حساب نہیں لیا جائے گا۔جناب سید زادے تو لوگوں کی بخشش کا باعث ہوں گے آپ کیسے سید ہیں کہ اپنے ساتھ لوگوں کے ضمیروں کا سودا بھی کر رہے ہیں محض دنیاوی فائدے کے لئے۔دنیا ہی رکھنی ہے تو پھر اپنے سید زادے ہونے پر فخر نہ کیجئے۔اگر فخر کرنا ہے تو پھر رضائے الہی میں خوش ہوجائیے نا کہ دنیا جاہ وحشمت اور منصب کے لئے۔آپ نے تو یہ سب اپنی سیاسی طاقت کے لئے کیا بقیہ پی ڈی ایم کی سیاسی جماعتوں نے ایسے ہی اپنی عاقبت خراب کرلی۔یعنی اس ملک میں واقعی ووٹ کی نہیں نوٹ کی عزت ہے۔سچ ہی کسی نے کہا کہ
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مراد علی شاہد کے کالمز
-
برف کا کفن
بدھ 12 جنوری 2022
-
اوورسیز کی اوقات ایک موبائل فون بھی نہیں ؟
منگل 7 دسمبر 2021
-
لیڈر اور سیاستدان
جمعہ 26 نومبر 2021
-
ای و ایم اب کیوں حرام ہے؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
ٹھپہ یا بٹن
جمعہ 19 نومبر 2021
-
زمانہ بدل رہا ہے مگر۔۔
منگل 9 نومبر 2021
-
لائن اورکھڈے لائن
جمعہ 5 نومبر 2021
-
شاہین شہ پر ہو گئے ہیں
جمعہ 29 اکتوبر 2021
مراد علی شاہد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.