ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سے کہیں جسے!!!

پیر 21 اکتوبر 2019

Musharraf Hazarvi

مشرف ہزاروی

وطن عزیزکے نامورصحافی ودانشور،کونسل آف پاکستان نیوزپیپرزایڈیٹرز(سی پی این ای )کے سینئرراہنماء،پشاورسے شائع ہونے والے معتبرومقبول ترین روزنامہ "آج "کے بانی ایڈیٹرعبدالواحدیوسفی (مرحوم)کی پرملال رحلت سے اندرون وبیرون ملک صحافتی حلقوں سمیت ہرشعبہ زندگی سے وابستہ افرادوشخصیات گہرے رنج و غم اوردلی پثرمردگی کی کیفیت سے دوچارہیں ۔

ان کی سحرآفریں شخصیت سے آگاہی حاصل کرنے یا ان کے ساتھ کام کرنے والے صحافی و کارکن بخوبی جانتے ہیں کہ یوسفی صاحب میں رب کریم نے کیاعجب و منفرد خصوصیات ودیعت کر رکھی تھیں کہ آپ وجیہ وخوش شکل اوربارعب شخصیت کے مالک تو تھے ہی مگران اوصاف کے ساتھ ساتھ آپ کی مسحورکن شخصیت میں ایک مقناطیسی کشش تھی،جوکم کم لوگوں کامقدرہی ٹھہرتی ہے،اپنی خوش اخلاقی،اعلیٰ ظرفی،ملنساری وانسان دوستی سے ہر ایک کا دل موہ لیتے تھے اورایک قابل،محنتی و خوددار کارکن صحافی سے بڑا اخباری مالک ومدیربن کر،جہاں بہت سوں کے قدم ڈگمگاجاتے اورایک گوناتکبرواحساس تفاخرغیرارادی طورپربھی انسان میں درآیاکرتاہے مگریہ مرددرویش تودولت ،طاقت و اختیاررکھنے کے باوجودبھی بے مثل عاجزی وانکساری،انسان دوستی اورغریب پروی کی ایسی بے مثل زندگی گذارگیاجس کی مثال شایدچراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی کم ہی ملے،مگریہ توپاک پرودگارکی دین ہے وہ جسے چاہے دے جسے چاہے نہ دے۔

(جاری ہے)


یوسفی صاحب (مرحوم)کی داستان حیات توسب ہی بالخصوص نوآموزصحافیوں ،اخباری مدیروں اورمالکان کے لیے یقینامشعل راہ ہے جس پر عمل کر کے دین و دنیاکی بھلائیاں سمیٹی جا سکتی ہیں ۔ہم میں سے بہت سے اس وقت اس دنیامیں ہی نہیں آئے تھے جب اس قابل تقلیدعظیم صحافی و دانشورنے بحیثیت عامل صحافی 1960کی دہائی سے خارزارصحافت میں قدم رنجہ فرماکر روزنامہ انجام پشاورکے سٹاف رپورٹر کی حیثیت سے کام شروع کیاتوپہلے دن سے ہی خدمت خلق کو اپناشعاربناکردن رات انتھک محنت کی ،محض صحافتی اصول نہیں بلکہ اسلامی اصولوں کو اپنایاکہ اسلام ہی وہ مکمل ضابطہ حیات ہے جو آپ کو زندگی کے ہرشعبہ میں کامل راہنمائی فراہم کرتاہے کیونکہ یہاں انسانیت کی راہبری و راہنمائی کے ماخذشک و شبہ سے بالاآفاقی و نورانی کتاب اوررسول یعنی قرآن مقدس اورنبی آخرالزمان حضر ت محمدرسول اللہ ﷺ ہیں ۔

یہ ہی وجہ ہے کہ یوسفی صاحب نے روزنامہ انجام،روزنامہ جنگ راولپنڈی اورروزنامہ مشرق پشاورمیں سٹاف رپورٹرسے بیوروچیف،ایڈیٹروڈپٹی چیف ایڈیٹرجیسی اہم ترین پوسٹوں پرتین ساڑھے تین دہائیوں پر محیط ایساجاندار،مثالی اورشاندارکام کیاجوصحافتی تاریخ میں بہت کم اورگنے چنے عظیم المرتبت صحافتی شخصیات کی زندگیوں کا خاصہ اوروجہ شہرت بناہے۔

پھروہ90کی دہائی تھی جب روزنامہ مشرق کی نجکاری ہوئی تو یوسفی صاحب نے نامساعدحالات میں اپنے روزنامہ آج پشاورکی داغ بیل ڈالی۔
 اس وقت شاید کوئی سوچ بھی نہیں سکتاتھا کہ یہ ہی نوآموزروزنامہ دواڑھائی دہائیوں کے قلیل ترین عرصہ میں نہ صرف اپناآپ منوالے گابلکہ سب سے زیادہ پڑھے جانے والے قومی سطح کے معتبروموقرروزناموں کی اگلی صف میں شامل ہوجائے گا پھراہل صحافت ودنیانے دیکھاکہ روزنامہ آج نے خیبرپختونخواکے دارلحکومت پشاورسمیت صوبہ بھر میں صحافتی بھونچال بپاکرنے کے بعدپانچ سے چھ سال کے عرصے میں ہی روزنامہ آج ایبٹ آبادسے بھی اپنی مقبول ترین اشاعت کا منفرداعزازحاصل کرنے کے علاوہ وفاقی دارلحکومت اسلام آبادسے شائع ہونے والے معتبروموقرترین روزناموں میں بھی اپنی منفردشناخت قائم کر لی۔

پھر ابھی بمشکل تین دہائیاں ہونے کو ہیں کہ اندرون و بیرون ملک ہر جگہ روزنامہ آج کا طوطی بول رہاہے بلکہ خیبرپختونخوامیں توقارئین اپنے اس محبوب ومقبول ترین روزنامے کے بغیرتواپنی صبح کا آگازہی نہیں کرتے جس کی سب سے بڑی وجہ صرف اورصرف اس کے بانی ایڈیٹروباکمال صحافتی شخصیت عبدالواحدیوسفی(مرحوم)کی امانت، دیانت، خدمت،انسان دوستی اورجذبہ حب الوطنی سے سرشاری اوراسلام و پاکستان سے ولولہ انگیزمحبت ہے جواس مقبول روزنامے کا منشوربن کر رہ گیاہے یقینااسی لیے یہ مرددرویش اپنی زندگی میں ہی روزنامہ آج کی مسحورکن وخوبصورت پیشانی کو"روشن کل کی ضمانت ،آج کا نصب العین "جیسے دل موہ لینے والاسلوگن سے سجاگیاہے کہ اس بڑے اخبارسے وابستہ ہرقاری وکارکن ہرلحظہ یہ ظیم مشن ملحوظ رکھے کہ وہ کسی بے کارمشق میں جتے ہوئے محض صفحے کالے ورنگین نہیں کررہا اورنہ اس تحریک بنے اخبارکومحض وقت گذاری کے لیے پڑھاجائے بلکہ یہ اسلام و پاکستان کی حقیقی ترقی اورعروج کی وہ تحریک ہے جس کی مددسے وہ بلندپایہ مقاصدومشن حاصل کیے بغیرسانس نہیں لیناجن کا خواب مفکرپاکستان،حکیم الامت حضرت علامہ محمداقبال رحمة اللہ نے دیکھااوربانی پاکستان و بابائے قوم حضرت قائداعظم محمدعلی جناح رحمة اللہ نے ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کواسلامی احکام وشریعت کے نفاذکے لیے جوایک تجربہ گاہ قائم کر کے دی جہاں وہ اسلام و شریعت کے آفاقی اصولوں کے مطابق اپنی زندگیاں بسرکرکے حقیقی مقصدزندگی تک رسائی حاصل کر کے دنیاوآخرت میں سرخروئی حاصل کر سکیں۔

راقم کو بھی روزنامہ آج ایبٹ آباد و پشاورمیں بحیثیت نامہ نگاروکالم نگارکوئی لگ بھگ پندرہ سے بیس سال ہو چکے ہیں اس دوران راقم نے کسی ایک دن بھی محسوس نہیں کیاکہ ہمارے محبوب اخباری مدیرجناب یوسفی صاحب نے کبھی اپنی یا اپنے کسی بیٹے یاعزیزرشتہ دارکی کوئی ایک تصویربھی ذاتی نمودونمائش یا سستی شہرت کے لیے شائع کی ہو اوریہ ایک ایسی عجب ومنفردمثال ہے جوشائدہی کسی اخباری مالک ومدیرکے حصے میں آئی ہو حالانکہ برس ہابرس سے مقتدرترین حکومتی شخصیات وارباب اختیارکے علاوہ مختلف شعبہ ہائے زندگی کی ممتازترین شخصیات بھی روزنامہ آج کے پشاور،اسلام آبادوایبٹ آبادکے دفاترمیں تشریف لاتی اورمرحوم چیف ایڈیٹرسے ملاقاتوں کی سعادت بھی حاصل کرتی رہی ہیں مگران ملاقاتوں کی شائدہی کبھی کوئی تصویراخبارمیں جگہ پا سکی ہو جس پر راقم کی طرح بہت سے صحافی پریشانی کی حدتک حیران اوراس باکمال وصف پرجویوسفی صاحب کی بے نیازی کا بھرپورعکاس ہے پربجاطورپرفخربھی کرتے ہیں کہ اس قابل تقلیدصحافتی شخصیت نے کبھی کسی دنیاداریاحکمران سے حرص،طمع و لالچ نہیں رکھی اورنہ ہی کسی کی خوشنودی یا ناراضی کے خوف سے اپنی متوازن صحافتی پالیسی کو متزلزل ہونے دیا۔

یوسفی صاحب نے اپنے اس چھ دہائیوں پر محیط کامیاب ترین ومثالی دورصحافت میں بے شمارصحافیوں کی راہنمائی کی انھیں صحافتی آداب و اسرارورموزمیں ایساتاک کیاکہ وہ آج بھی پشاور سمیت وطن عزیزکے مختلف پرنٹ و الیکٹرانک میڈیاہاؤسزاوربیرون ملک بھی گراں قدر وقابل فخرصحافتی خدمات کی انجام دہی پر ماموررہ کر انسانیت و معاشرے کی دل و جان سے خدمت میں مصروف عمل ہیں۔

یوسفی صاحب حق وصداقت کے سرخیل اورسب سے بڑے داعی تھے ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ اخباری پلیٹ فارم سے اسلام و پاکستان کی ترقی کی راہیں ہموارکی جائیں ،وطن عزیزسے غربت و جہالت ،تنگ ظری اورپسماندگی کے خاتمے اورمعیاری تعلیم کے فروغ کے لیے انھوں نے بہت بڑاکرداراداکیاجورہتی دنیاتک یادرکھاجائے گا۔بالخصوص گذشتہ کافی عرصہ سے مختلف صحافتی اداروں واخباری مالکان کی طرف سے عامل صحافیوں اورکارکنوں کے استحصال پر مبنی جو منفی رویے تیزی سے فروغ پارہے ہیں اس کے برعکس روزنامہ آج اوراس کے انسان دوست مدیرعبدالواحدیوسفی اپنے کارکنوں کے لیے سراپاطمانیت تھے ،کبھی کسی کارکن کو اخباریامدیرآج سے کوئی شکایت پیدانہیں ہوئی اورنہ ہی کبھی اس مخلص مدیرنے ایسی صورتحال پیداہونے دی بلکہ اپنے کارکنان سے اتنی پدرانہ شفقت فرماتے تھے کہ ان کی ضرورتوں سے خودہی آگاہ رہنااوران کی خفیہ طریقوں سے بھی مددکرناتا کہ ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو اپنااولین فریضہ خیال کرتے تھے یہ ہی وجہ ہے کہ آپ کے زیرسایہ کام کرنے والے خوش نصیب سینکڑوں کارکن آج صحیح معنوں میں پدرانہ شفقت اوراپنے محسن ومربی سے محروم ہو گئے ہیں ۔

یہ ہی نہیں بلکہ یوسفی صاحب کے زیرسایہ تربیت پانے والے کارکن جہاں بھی ہیں ان سے کوئی پوچھے کہ آج ان کے دلوں پر کیابیت رہی ہے؟ان سے کوئی پوچھے کہ اپنے محسن و باپ سے جدائی کا کرب کیاہوتاہے؟رہی بات یوسفی صاحب کے اپنے دوشہزادوں علی یوسفی اور ارسلان جاویدیوسفزئی کی توانھیں کوئی کیسے پرسادے کہ صبرکرو؟جب غیرحقیقی اولادکے دل جدائی کے المناک صدمے سے پھٹ رہے ہوں توپھریوسفی صاحب کے ان لخت جگروں پرجوبیت گئی اس کا ذکرہی کیا!!!مگروہ ذات بڑی رحیم و غفورہے ،وہ جو ساری کائنات کا خالق ومالک ہے ،وہ جوہرچیزپرقادرہے ،وہ ہی پاک ذات،رب ذوالجلال،رب غفورالرحیم، اپنی خاص رحمت اورخصوصی فضل و کرم سے ہمارے اس محبوب بزرگ ومربی عبدالواحدیوسفی(مرحوم)کی قبرانورپراپنے پیارے حبیب پاکﷺ کے طفیل ان گنت وبے شماررحمتیں نازل فرمائے گا،انشاء اللہ،آپ کی قبررحمتوں کے نورسے منورہوگی،آپ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب ہو گا،انشاء اللہ ،انشاء اللہ،یا الٰہی قبول فرما،یا الٰہی قبول فرما،اورجملہ سوگواران ،پسماندگان ولواحقین کو صبرجمیل عطافرما(آمین،ثم آمین،بجاہ نبی الامین ﷺ)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :