میرا دم گھٹ رہا ہے

جمعہ 5 جون 2020

Naeem Kandwal

نعیم کندوال

گزشتہ ہفتے ایک سفید فام امریکی پولیس اہلکار نے ایک سیاہ فام امریکی شہری جارج فلوئیڈ کو انتہائی غیر انسانی طریقے سے تشدد کر کے ہلاک کر دیا۔ یہ واقعہ امریکہ کے شہر مینیا پولس میں پیش آیا۔ امریکہ میں نسل پرستی کوئی نئی بات نہیں۔سفید فاموں نے امریکہ پر قبضہ کیا تو افریقہ سے ہزاروں غلام خرید کر امریکہ لائے گئے۔سیاہ فاموں نے غلامی کے خاتمے کے لیے جد و جہد شروع کی۔

سابق امریکی صدر ابراہم لنکن نے غلامی کے خاتمے کے لیے جدوجہد میں حصہ لیا۔ اِس جدوجہد کی وجہ سے امریکہ میں خانہ جنگی شروع ہو گئی ۔لیکن ابراہم لنکن کے دشمنوں نے اُسے قتل کر دیا۔ اِس کے بعد سیاہ فاموں کو ووٹ کا حق حاصل کرنے کے لیے سو سال لگ گئے۔یکم دسمبر 1955ء کو ایک سیاہ فام خاتون روزہ پارکس بس میں سوار ہوئی۔

(جاری ہے)

اُس نے ایک سفید فام کے لیے نشست چھوڑنے سے انکار کیا۔

اِس انکار کی وجہ سے اُس عورت کو حراست میں لے لیا گیا۔اِس واقعہ کے خلاف سیاہ فاموں نے ملک بھر میں مظاہرے کیے۔آخر امریکی عدالت نے یہ فیصلہ سیاہ فاموں کے حق میں دیا۔
سیاہ فاموں کے حق میں آواز اٹھانے والا اگلا رہنما مارٹن لوتھر کنگ جونیئر تھا ۔ جس نے انسانی مساوات کے لیے بھر پور آواز اٹھائی۔مارٹن لوتھر کنگ کی جدوجہد کے نتیجے میں امریکی سیاہ فاموں کو ووٹ ڈالنے کا حق مل گیا۔

انسانی مساوات کے لیے آواز اٹھانے کے جرم میں مارٹن لوتھر کنگ کو قتل کر دیا گیا۔ اِس کے بعد ایک سیاہ فام امریکہ کا صدر بننے میں کامیاب ہوا جس کا نام باراک اوبامہ تھا۔ لیکن اِس کے باوجود بھی امریکہ نسل پرستی اور تعصب کی زنجیروں میں جکڑا ہواہے۔
امریکہ کی تاریخ نسل پرستی کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔گزشتہ سال 25مارچ کو ایک ایسا ہی افسوسناک واقعہ پیش آیا جس میں ایک سفید فام پولیس اہلکار نے ایک سیاہ فام امریکی شہری کو گولیوں کا نشانہ بنایا۔

اِس واقعہ میں سیاہ فام شہری موقع پر ہی ہلاک ہو گیا۔ اِس واقعہ کے خلاف پورے امریکہ میں مظاہرے ہوئے۔ستمبر2018ء میں بھی ایک ایسا ہی دردناک واقعہ پیش آیا۔ ایک سفید فام پولیس اہلکار نے ایک سیاہ فام امریکی شہری کو قتل کر دیا۔ اِس واقعہ کے بعد بھی امریکہ میں نسل پرستی کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ایک ایسا ہی واقعہ 2017ء میں بھی پیش آیا۔ جس میں دو سفید فام پولیس افسروں نے ایک سیاہ فام امریکی شہری کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

یہ واقعہ ریاست لوزیانہ میں پیش آیا۔ اِس ظلم کے خلاف کئی روز تک مظاہرے جاری رہے۔اِن مظاہروں میں شرکت کرنے والے 200افراد کو گرفتار کیا گیا۔ اِس واقعہ کے بعد امریکی محکمہ انصاف نے نسل پرستانہ فیصلہ دیا جس میں واقعہ میں ملوث دونوں پولیس اہلکاروں کے خلاف کاروائی نہ کرنے کا کہا گیا۔
اِس وقت پورے امریکہ میں جارج فلوئیڈ کے قتل کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔

یہ مظاہرے دن بدن شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔مظاہرین میں پولیس کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔کئی سرکاری املاک اور گاڑیوں کو جلایا جاچکا ہے۔ اِن مظاہروں میں شریک لوگ ” میرا دم گھٹ رہا ہے“ اور ” سیاہ فاموں کی جان بھی قیمتی ہے“ جیسے نعرے لگا رہے ہیں۔امریکہ کے 40سے زائد شہروں میں احتجاج ہو رہے ہیں ۔ یہ احتجاج دن بدن شدت اختیار کرتے جارہے ہیں۔

40سے زائد شہروں میں یا تو کرفیو نافذ کردیا گیا ہے یا پھر ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔ بلکہ مظاہروں کا دائرہ آسٹریلیا، یورپ،برطانیہ اور ایشیا تک پھیل چکا ہے۔عالمی رہنماؤں نے اِس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ سابق امریکی صدر باراک اوبامہ نے اِس واقعے کی سخت مذمت کی ہے ۔ اُن کا کہنا تھا کہ رنگین فام لوگوں کے ساتھ یہ سلوک معمول بن چکا ہے ۔

امریکی ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار جو بائیڈن نے بھی اِس واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ ہم اِس واقعے پر خاموش نہیں رہ سکتے ۔ اقوام متحدہ میں روس کے مندوب دی متری پولیانسکی نے بھی اِس واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے ۔اقوام متحدہ میں چینی مندوب ژانگ ژو نے بھی سلامتی کونسل کے غیر رسمی اجلاس کے دوران اِس واقعہ کی سخت مذمت کی ۔

اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے ہائی کمیشنر میشل بشلے نے امریکی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سیاہ فام امریکی شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوترس نے امریکی حکومت سے مظاہرین کے ساتھ تحمل سے نمٹنے اوراس واقعے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ترکی کے صدر طیب اردگان نے بھی اِس واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے ۔

جرمنی کے وزیر خارجہ نے تو امریکی عوام کے مظاہروں کو جائز قرار دیاہے۔
امریکہ جو کہ اپنے آپ کو انسانی حقوق کا علمبر دار کہلواتا ہے ،میں لاقانونیت عروج پر ہے۔ رواں عیسوی سال کے ابتدائی چار مہینوں میں امریکی پولیس کی حراست میں دو سو سے زائد شہری جاں بحق ہو چکے ہیں۔امریکہ میں سیاہ فام شہریوں کے قتل کے ملزمان کو اکثر بری کر دیا جاتا ہے یا نرم سزا دی جاتی ہے۔

اکیسویں صدی میں دنیا کی واحد سپر پاورامریکہ میں ایسے واقعات کا ہوناانتہائی قابل مذمت اور افسوسناک ہے۔امریکہ کی تاریخ نسل پرستی کے واقعات سے بھری پڑی ہے لیکن جتنا سخت رد عمل اس واقعے پر دیکھا گیا اتنا امریکہ کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔یہ امریکہ بلکہ پوری دنیا کے لئے ایک wake-up callہے ۔امریکی حکام کو نسل پرستی کے واقعات کی روک تھام کے لئے قانون سازی کرنا ہوگی جو کہ مظاہرین کا اہم اور جائز مطالبہ ہے۔

سیاہ فاموں کو کمزور سمجھ کر دبانا امریکہ کے لئے کسی المیے کا باعث بن سکتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب کمزور اپنے حقوق کے لئے نکل پڑتا ہے تو پھر کمزور کی جدو جہد انقلابات کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔1789ء کے انقلاب فرانس سے امریکہ بلکہ پوری دنیا کو سبق سیکھنا ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :