رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن‎

ہفتہ 5 جون 2021

Nafeesa Ch

نفیسہ چوہدری

دہشتگردی کا الزام ہے تو مسلمان پر،قتل و غارت کا الزام ہے تو مسلمان پر، عہد شکن ہے تومسلمان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!
اور ہم چپ چاپ تسلیم کیے جارہے ہیں۔مگر کیا کریں تسلیم کرنا پڑے گا۔ہمارے حکمران جب اپنا ملک الجھنوں اور خانہ جنگیوں کی نذر کرکے خود کچھ بہتر محسوس کرنے اور آرام فرمانے کے لیے لندن،کینیڈا وغیرہ تشریف لے جاتے ہیں اور عوام شُتر بے مہار کیطرح کبھی اس لیڈر سے دست و گریباں اور کبھی اس لیڈر کے خلاف کھڑی ہو جاتی ہے تو یہ ماحول حکمرانوں کی زندگی پہ اثر انداز ہو یا نہ ہو عوام کے اتحاد و امن کی دھجیاں اڑانے کو کافی ہوتا ہے۔


چلیں اب دیکھتے ہیں کہ قتل و غارت،دہشت گردی اور عہد شکنی کی عملی تفسیر کون ہے؟
1400سال پیچھے جاٸیے۔رحمتِ دوجہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم درخت کےنیچے آرام فرما ہیں۔

(جاری ہے)

کافر نعوذ باللہ ارادہ قتل سے گھات لگاٸے بیٹھا ہے۔اپنے گھر میں ہیں تو پورے گھر کا محاصرہ کر لیاجاتا ہے۔کوٸی داٸرہ اسلام میں آگیا ہے تو اسے گلیوں میں گھسیٹا جاتا ہے۔

سینے پہ پتھر رکھے جارہے ہیں۔گرمی میں تپتی ریت پہ چِت لٹایا جارہا ہے۔
اب اسی زمانے سے مجھے کوٸی ایسی مثال دو جسمیں یہی کام مسلمانوں نے کیے ہوں۔پہل کو چھوڑو۔جواباً کیے ہوں ایسی ہی مثال دیدو۔
نہیں ہے نا؟؟؟
تو پھر بتاٶ دشمنانِ اسلام اور انکے خفیہ غدار دوستو کون ہے دہشتگرد؟ کون ہے قتل و غارت کا دلدادہ؟
مسلمانوں نے جب بھی کیا جہاد کیا اور سامنے صف آرا ہو کرکیا۔

نہ تو موقع تلاش کیا۔نہ اکیلے پا کر حملے کیے اور نہ ہی کسی بے کس و مجبورکو باندھ کر فاٸدہ اٹھایا۔
اس دور کے بعد بتدریج آگے چلیے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ چنگیز خان نے وہ ستم کیے جو کوٸی آنکھ یا دل برداشت نہ کرے۔
اس نے لاشوں کے دستر خوان بنا کر ان پہ کھانا کھایا۔
گھوڑوں کے پیروں سے زندہ باندھ کر گھوڑے دوڑاٸے۔
مسلمانوں کو زندہ جلایا۔


بدلے میں مسلمانوں نے مظلوم کافر بھی دیکھا تواس کی مدد کی۔
اب بتاٶ دہشتگرد کون؟قتل و غارت کس نے کی؟
چلیں وہ سب چھوڑیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہاں آپ تاریخ کھنگالتے رہیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔موجودہ زمانے کی ہی بات کر لیتے ہیں۔
اب میں کس کس پہلو کو چھیڑوں؟ کس کس کی بات کروں؟ برما اور فلسطین کی ماٶں کو چیختے چلاتے اپنے معصوم بچوں کی لاشیں اٹھاتے اپنے سہاگ اجڑتے دیکھ کر اپنی بے بسی پہ اشک بہاتے اور اپنی عزت و آبرو کو لٹتے دیکھ کر صبر و تحمل کی تصویر میں اتاروں۔

۔۔۔۔۔یا پھر کشمیر کی ماٶں کی آنکھوں میں بھوک پیاس اور انکے بچوں کے خشک حلق دیکھ کر منظر کھینچ کر رکھ دوں ۔
دوسری طرف کوٸی ایک مثال دو جب پاکستان میں کسی  غیر مذہب  لڑکی بے آبرو کی گٸی۔کسی بچے پر ظلم ڈھایا گیا۔کسی بڑے کو نقصان پہنچایا گیا۔
پھر بتاٶ مجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دہشتگرد کون؟؟
اور اب المیہ یہ ہے کہ۔
ان ظالموں کے روز بڑھتے ہوٸے ظلم کے خلاف آج ایک جماعت آواز اٹھاتی ہے تو اس بے حس حکومت کو تکلیف ہوتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ امن کے خلاف ہے۔


اوپر میں نے لکھا کہ یہ سب ظلم و ستم دشمنانِ اسلام نے کیے۔مگر ہر گز مقصد نہیں کہ مسلمانوں نے مزاحمت نہیں کی۔
ارے مسمانوں نے تو اسوقت بھی مزاحمت کی جب تعداد 313 تھی۔ہتھیار بھی براٸے نام تھے۔سامانِ رسد بھی قلیل تھا۔
مگر منظرکیا تھا کہ
جب یہ لشکر نکلا تو ایک کافر جسکا نام عمیر تھا اس نے دیکھا اور جا کر ابو جہل کو اطلاع دی۔وہ جو تعداد اور مال کے نشے میں چور تھا ہنسا اور کہنے لگا کہ رسیاں جمع کرو آج انکو باندھیں گے اور دنیا کو بتاٸیں گے یہ آٸے تھے ہم سے جہاد کرنے۔


تو عمیر نے کیا جواب دیا
کہتا ہے تو کہتا ہے کہ ہم انہیں باندھیں گے دنیا کو تماشا دکھاٸیں گے۔؟
میں کہتا ہوں وقت کے بھاگ جا ورنہ لشکر سمیت ذلت آمیز موت مارا جاٸے گا۔میں دیکھ کے آرہا ہوں اس لشکر کے سامنے کھڑے ہونا حماقت ہے جو جینے کی غرض سے نہیں مرنے کے لیے آٸے ہیں۔
یہ رعب یہ دبدبہ ہوتا ہے مومن کی للکار کا۔
اور تم نے آج کے نوجوانوں سے وہ للکار وہ ہمت وہ جرات چھین کر اپنے آپ پر ظلم کرنے کی ٹھان لی ۔


ابھی ہم کہتے ہیں کہ اسلام تلوار سے نہیں پھیلا اسلیے ہر بات تلوار یا جہاد پر ختم کرنا شدت پسندی اورجذباتیت ہے۔
تو واضح رہے اسلام تلوار سے نہیں پھیلا مگر بچایا ہمیشہ تیغوں کے ساٸے میں گیا۔تاریخ میں اسکی بیش بہا مثالیں ہیں مگر ایک ایسی مثال جو کربلا کے میدان میں واضح نظر آتی ہے وہ اسطرح کہ اس دور میں یزید نے کہا کہ ظلم کے ہاتھ پر بیعت کرو تو عفو درگزر کے مجسمے کے نواسوں نے تلوار تھام لی اور کہا کہ جب معاملہ حق و باطل کا آجاٸے تو فیصلہ اخلاق،امن اور خوش مزاجی سے مشکل ہو جاتا ہے پھر باطل کو صفحہ ہستی سے مٹایا جاتا ہے نہ کہ لے دے کے بچایا جاتا ہے۔

موجودہ حالات بھی اسی ڈگر پر آچکے ہیں آج اسراٸیل ہم سے بیعت کا تقاضا کررہا ہے اور تم کہتے ہو اسلام امن پسندی کا درس دیتا ہے یعنی کربلا کا سبق صرف غمِ حسین منانے تک محدود کر کے زیادہ اعلیٰ اخلاق کے مجسمے ہونے کی ایکٹنگ کرتے ہوٸے اسے تسلیم کر لیا جاٸے۔اور سہارا اس جملے کا لیا جاٸے کہ اسلام تلوار سے نہیں پھیلا؟
ہوش کیجیے۔حالات کو حالات کے تناظر میں جا کر جانچنے کی کوشش کیجیے۔


اور یاد رکھیے۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!
جب کبھی ضمیر کے سودے کی بات ہو
ڈٹ جاٶ حسین کے انکار کی طرح
اور موجودہ حالات بھی رُخ بدل کر اس لیول پر آچکے ہیں کہ اسلام کو پھیلانے سے زیادہ بچانے کی ضرورت پیش آگٸی ہے۔
اسلیے اب اخلاق و کردار  کا مظاہرہ کرتے ہوٸے اپنے ہاتھوں سے دشمنانِ اسلام کو مندر بنا کر دینے کا وقت نہیں بلکہ صلاح الدین ایوبی اور نورالدین زنگی بنکر اسلام اور ملک و ملت کے لیے دفاعی جنگ لڑنے کا وقت ہے۔


اسلیے تعلیمی میدان میں کام کرنے والے اپنے کاروبار سے زیادہ بچوں کا مستقبل اور کردار چمکاٸیں۔
اور بچوں کے دلوں پر یہ نقش کریں کہ اسلام امن پسندی کا درس دیتے ہیں مگر امن کے حالات میں مگر جب اسلام اور پاکستان پر کڑا وقت ہو تو فقط غیرت کا درس دیتا ہے ایسی غیرت جو جان بچانے کا نہیں بلکہ جان دینے کا تقاضا کرتی ہے۔
جس عورت کے ذریعے اس نوجوان نسل کا ایمان خراب کیا گیا عنقریب ان صلاح الدین کے وارثوں کے لیے وہ عورت ایک عزت ایک آبرو کےعلاوہ کچھ نہیں ہوگی۔
پھر دیکھیں گے وہ منظر جب دشمن تلوار سے نہیں فقط للکار سے سمجھ جاٸے گا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :