روٹی بندہ کھا جاندی اے

جمعہ 30 اگست 2019

Noorulamin Danish

نورالامین دانش

یہ سات سال کا بچہ تھا جسے غریب والدین نے اسکے حصے کی روٹی بچانے کے لیئے مقامی مدرسے میں داخل کروایا تھا۔اس نو عمری میں اس اسے بھوک تھی تو فقط ایک روٹی کی، داخلے کے وقت وہ خوش تھا کیونکہ دل میں ایک آس تھی کہ شاید ایک وقت کی پوری روٹی مل سکے، لیکن جب غربت ناچتی ہے تو اسکی چال میں بھی وحشت عیاں ہوتی ہے۔
یہاں اسکی روٹی کو بھی کام سے مشروط کر دیا گیا ، وہ تعلیم کیساتھ ساتھ کام کرتا کہ شاید یہ میری بھوک مٹا دیں لیکن گھر میں ملنے والے روٹی یہاں چند نوالوں تک محدود و مشروط ہو چکی تھی۔

بھوک انسان کو اندھا کر دیتی ہے وہ اسے مٹانے کے لیئے کسی بھی حد کو چھو سکتا ہے۔
سات سالہ بچے نے زندگی میں پہلی چوری کا آغاز مدرسے کے کچن سے روٹی چرا کر کیا، خوب جی بھر کر روٹی کھائی اور بہت عرصہ بعد یہ پہلا موقع تھا جب اس کا پیٹ بھرا، وہ بہت خوش تھا۔

(جاری ہے)

اب اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اس معاشرے میں اگر زندہ رہنا ہے تو چھینا جھپٹی کرنی پڑے گی۔


اب روز کا معمول بن چکا تھا کچھ روز بعد اس نے پڑوس میں واقع گھر سے کھیر بھی چرا کر خوب جی بھر کے کھائی ۔
خواتین و حضرات جب اس سات سالہ معصوم کے استاتذہ کو پتا چلا تو اسے سزا موت کے خطرناک قیدیوں کی طرح بیٹریاں پہنا دی گئیں، گھر والوں نے اس سے قطع تعلق کر لیا۔وہ مدرسہ سے بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔
بھوکے کی دو جمع دو ہمیشہ چار روٹیاں ہی بنتی ہیں ، لہذا اس نے وہاں سے سیدھا قریبی شادی ہال کا رخ کیا جہاں وہ جتنا عرصہ رہا خوب جی بھر کے بھوک مٹائی، کیونکہ وہ گھر سے بھاگا ہوا تھا اس لیئے شادی ہال والے اسے کوئی پیسہ نہیں دیتے تھے اور اسے صرف دو وقت کھانا دیکر خوب کام لیتے۔

اس نے روٹی کے بعد دوسری چوری کپڑے لینے کے لیئے چند سو روپے کی کی تھی جسے ہال انتطامیہ نے لاکھوں ظاہر کر کے اسے گرفتار کروایا۔جج نے کم عمر ہونے کی وجہ سے دس ہزار کے عوض ضمانت منطور کی ، بھوک و افلاس کا مارا یہ بچہ بھری عدالت میں جج سے مخاطب ہو کے کہتا ہے سر میں نے تو کبھی زندگی میں دس روٹیاں بھی نہیں دیکھیں ، دس ہزار کیسے دونگا، عدالت میں سناٹا طاری ہو جاتا ہے اور جج صاحب نے اسکی سزا معاف کر دیتے ہیں۔


یہ لڑکا اب یہ فیصلہ کر چکا تھا کہ بھوک مٹانے کے لیئے اسے کچھ بھی کرنا پٖڑا وہ کرے گا۔کل تک روٹی چوری کرنے والے بچے کا ٹارگٹ اب امرا تھے کیونکہ اس نے یہی دیکھا تھا کہ جب اسے روٹی تک نہیں ملتی تھی تب انکے بچے لاکھوں روپے کے کھلونوں سے عیاشیاں کر رہے تھے، کسی کو بھی یہ بھوکا بچہ نظر نہیں آ رہا تھا۔
کہتے ہیں کہ ڈرو اس وقت سے جب بھوکا ہر اس گھر کو آگ لگائے گا جسکی چمنی سے دھواں نکلے گا۔

اس بچے کا ٹارگٹ وہ گھر ہوتا جہاں کروڑوں روپے کی گاڑیاں ہوتیں ، سیکورٹی پر باہر پولیس اہلکار مامور ہوتے۔ ایسی کمال مہارت سے چوری کرتا کہ دنیا کو اس پر شک تک نہ گزرتا۔
اس نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے چھوٹے بھائی عباس شریف، فوج کے جرنیلوں اور حالیہ دنوں میں تحریک انصاف کے رہنما شبلی فراز کے گھر بھی چوری کی۔
روٹی چوری سے سفر کا آغاز کرنیوالے اس بچے کا مجرم یہ معاشر ہے، ہائی پروفائل لوگوں کے گھروں میں چوری کرنے پر ہم سب اسے چور تو کہہ رہے ہیں لیکن کھلونوں کی عمر میں جب وہ ایک روٹی کے لیئے ترس رہا تھا کیا کسی نے اسکی مدد کی۔


مفلسی سے شاید آپ نہ گزرے ہوں لیکن انسانی سماج کا حصہ ہونے کی وجہ سے اس کا احساس تو کرسکتے ہیں ۔ اگر کر سکتے ہیں تو اندازہ ہوگا کہ مفلسی کس قدر جاں سوز ہوتی ہے اور ساتھ ہی ایک مفلس آدمی کے تئیں سماج کا رویہ کیا ہوتا ہے وہ کس طرح سماجی علیحیدگی کا دکھ جھیلتا ہے۔
کس نے خوب کہا ہے کہ
میں خون بیچ کے روٹی خرید لایا ہوں
امیر شہر بتا یہ حلال ہے کہ نہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :