کیا کیمبرج اور بورڈ امتحانات طلبہ کی زندگیوں سے بھی اہم ہیں؟

بدھ 28 اپریل 2021

Pir Mohammad Farooq Bahawal Haq Shah

پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ

یہ ایک حقیقت ہے کہ ان لائن تعلیم کسی صورت میں بھی کلاس روم کا متبادل نہیں ہوسکتی۔تجربے نے یہ بات ثابت کی ہے کہ ان لائن تعلیم اور پھر اسکے نتیجے میں امتحانات پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک کیلیے کسی طرح بھی ممکن نہیں۔حالیہ دنوں میں یہ مسلہ ایک بار پھر شدت سے ابھر کر سامنے آیا جب مختلف غیر ملکی تعلیمی اداروں کی جانب سے پاکستانی طلبہ سے امتحان لینے کا شیڈول جاری کر دیا گیا۔

اس اعلان کے بعد ملک بھر کے والدین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور کرونا کے بڑھتے ہوے کیسز نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔پاکستانی آئین ہر کسی کے لیے تعلیمی سہولیات کی ضمانت دیتا ہے۔ لیکن اگر مالی وسائل کی ناکافی فراہمی اور ملک میں تعلیمی شعبے کی عمومی صورت حال کو دیکھا جائے تو فورا? اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت کے لیے تعیلمی شعبہ دیگر شعبوں کے مقابلے میں سوتیلی اولاد جیسا ہے۔

(جاری ہے)


کورونا کے باعث لاک ڈاؤن کے دوران تعلیمی ادارے بند کرنا اپنی جگہ پر حکومت کی انتظامی مجبوری تو ہو سکتی ہے، لیکن یہ ضمانت کون دے گا کہ وہ کروڑوں پاکستانی بچے اور نوجوان جو گھر بیٹھے ہیں، ان کا کوئی تعلیمی نقصان نہیں ہو گا؟
اگر تقریبا? ایک تہائی پاکستانیوں کو انٹرنیٹ کی سہولت ہی میسر نہیں، تو پھر وہ آن لائن تعلیم کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟ ملک میں موبائل فون استعمال کرنے والے شہریوں میں سے چالیس فیصد کی مشکل یہ ہے کہ وہ اپنے اسمارٹ فون اور ان میں انسٹال کی گئی ایپس کو پوری طرح استعمال کرنا جانتے ہی نہیں۔


ملک میں ہر کسی کے لیے انٹرنیٹ کی دستیابی کی ضرورت کا معاملہ تو ایک طرف، پاکستان میں بہت سے شہریوں اور طلبا و طالبات کے پاس کوئی کمپیوٹر یا اسمارٹ فون ہی نہیں ہے۔ تو ایسے حالات میں وزیر تعلیم شفقت محمود نے طلبا و طالبات کے لیے آن لائن تعلیم کے جس ممکنہ راستے کی نشاندہی کی، اس پر کوئی کیسے، کب تک اور کتنا چل سکے گا؟اور پھر آن لائن امتحان کس حد تک سود مند ثابت ہوسکے گا
کووڈ 19 کی وبا کے وجہ سے یکدم آن لائن ایجوکیشن پر دیا جانے والا بہت زیادہ زور اساتذہ کے لیے بھی ایک مشکل امتحان کا سبب بنا ہے۔

اول تو پاکستان میں تعلیمی شعبے سے وابستہ افراد میں سے ہر کسی کے پاس کافی ثابت ہونے والا تکنیکی انفراسٹرکچر نہیں ہے اور جن کے پاس ہے بھی، وہ بغیر کسی مناسب تربیت اور کوچنگ کے ورچوئل کلاس رومز میں اپنی ذمے داریاں کتنے احسن طریقے سے انجام دے رہے ہوں گے۔کورونا وائرس کی عالمی وبا کے پس منظر میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں تصدیق کی تھی کہ اس وقت ایک سو دس سے زائد ممالک میں تمام اسکول اور کالج بند پڑے ہیں اور دنیا بھر میں اس وبا سے پیدا ہونے والے حالات تقریبا ایک ارب طلبا و طالبات کو متاثر کر رہے ہیں۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ کٹھن حالات کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستان بھی اپنے ہاں تعلیمی شعبے پر اب تک کے مقابلے میں زیادہ توجہ دے اور اس میدان میں جدید ٹیکنالوجی کے زیادہ سے زیادہ استعمال کو یقینی بنایا جائے۔
تاہم اس سے بھی زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ پاکستانی طالب علموں کا کورونا لاک ڈاؤن کے نتیجے میں تعلیمی نقصان اس حد تک ناقابل تلافی نہ ہو کہ آئندہ برسوں میں کروڑوں پاکستانی بچے اپنا ایک تعلیمی سال ضائع ہو جانے کا ماتم نہ کرتے رہیں کرونا کی تازہ صورتحال۔

طلبہ کی زندگیوں کا سوال۔
اس وقت اگر کرونا کی بین الاقوامی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا کہ 18اپریل کو سعودی عرب میں 916،برطانیہ میں 1882, بنگلہ دیش 3698,کویت میں 1127,عمان میں 3363,اور پاکستان میں کرونا مریضوں کی تعداد 6127 معلوم ہوی۔اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں علاقے کے تمام ملکوں میں سے سب سے زیادہ مثبت شرح پائی جاتی ہے۔

یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف تو حکومت نے تمام شادی ہال، شاپنگ مال،اور پارک وغیرہ بند کر دیے تو آخر کیا وجہ ہے کہ حکومت اس تشویشناک ماحول میں پورے ملک میں طلباء کو ایک جگہ جمع کرنے پر مصر ہے تاکہ امتحانات کے نام پر انکی زندگی سے کھلواڑ کیا جاے۔جس طرح کے پہلے عرض کیا کہ آن لائن کلاسز کا تجربہ پاکستان میں ناکام ہوچکا ہے۔پاکستان کے ستر فیصد سے زائد علاقہ میں وائی فائی کی سہولت دستیاب نہیں۔

کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جن کے پاس سمارٹ فون موجود نہیں۔اور بعض گھروں میں تو یہ صورت حال ہے کے گھر میں فون ایک ہے اور طلبہ کی تعداد چار ہے آپ مجھے کوئی سمجھائے کہ چار طلبہ ایک موبائل فون سے تعلیم کیسے حاصل کریں گے۔
کیمبرج طلبہ کے خصوصی مسائل کیا ہیں؟
کیمبرج کے امتحانات کے حوالے سے پاکستان میں موجود طلبہ کے کچھ خصوصی مسائل بھی ہیں۔

مثال کے طور پر اگر کسی طالب علم کو امتحانات میں شمولیت کے دوران ایک دن کے لیے بخار ہو جائے اس کو چھ ماہ کے لیے امتحانات سے باہر رہنا پڑے گا۔اور پھر وہ اکتوبر نومبر میں امتحانات میں دوبارہ بیٹھنے کا اہل ہوگا۔اور اس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ اکتوبر نومبر میں کرونا کے حالات کیسے ہوں گیاس طرح بچوں کو 6 ماہ انتظار کی سولی پر لٹکنا پڑے گااور اگر 6 ماہ کے بعد بھی صورت حال مزید بگڑ گئی یا مزید خراب ہوگئی تو اسکا کیا نتیجہ برآمد ہوگا
حکومتی نااہلی کا ایک اور نمونہ۔


پاکستان کیمبرج کے اس زون میں واقع ہے جہاں پر طلبہ قابل رشک کامیابی حاصل کرتے ہیں۔سابقہ ادوار کو دیکھا جاے تو پاکستان کے زہین طلبہ نے کء نئے ریکارڈ اپنے نام کیے ہیں اور ملک کا نام روشن کیا ہے۔لیکن اس مرتبہ وزیر تعلیم کی عدم توجہی کے باعث طلبہ کی کارکردگی اچھے انداز میں پیش نہ کی جاسکی ہونا تو یہ چاہے تھا کہ سابقہ نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے اس مرتبہ طلبہ کو اچھے گریڈ ملتے۔

دوسرے ممالک نے اس حوالے سے کافی محنت کی اور اپنا مقدمہ بہتر انداز میں پیش کیا۔لیکن پاکستان کے وزیر تعلیم کیمبرج کے سامنے ڈھیر ہوگئیاور زہین طلبہ اہنیجائز نمبر بھی حاصل نہ کرسکے۔اگر حکومت کی ترجیحات یونہی رہیں تو اس مرتبہ بھی طلبہ کا مستقبل تاریک ہونے کا خدشہ ہے۔اس لیے اولا تو حکومت کو بچوں کی زندگیاں محفوظ کرنی چاہیں اور کیمبرج سے طلبہ کے گریڈ کو انکی سابقہ کارکردگی کے اچھے گریڈ دلوانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

۔
دوسری طرف اس زون 4 کے کء ممالک پہلے ہی یہ امتحانات ملتوی کر چکے ہیں جنمیں قطر کویت انڈیا یو اے ای۔ بنگلہ دیش اور سعودی عرب شامل ہیں۔حالانکہ وہاں پر کرونا کے مثبت کیس کی شرح پاکستان کے مقابلے میں کئی گنا کم ہے۔پاکستان کے وزیر تعلیم کی دانش پر ہم حیران ہیں کہ پوری دنیا اپنے طلباء کے تحفظ کے لیے اقدامات کر رہی ہے جبکہ پاکستان کے وزیر تعلیم ان طلبہ کو کرونا کے سامنے چارا بنا کر پیش کر رہے ہیں۔

آئین کا آرٹیکل 25 حکومت کو پابند کرتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں اور بچوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کرے۔اگر کیمبرج کے امتحانات منعقد کیے گئے تو یہ آرٹیکل 25 کی بھی خلاف ورزی ہوگی مختلف شہروں اور مختلف گھروں سے لوگ اتنی بڑی تعداد میں ایک جگہ اکٹھے ہوں گے اور اس طرح کرو نا کے پھیلنے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
گیارہویں بارہویں کے طلبہ کے مستقبل داؤ پر کیوں؟
پاکستانی طلبہ و طالبات کی بھاری تعداد پاکستان کے نظام کے تحت امتحان میں شریک ہوتے ہیں۔

ان علاقوں میں تو صورت حال اور بھی ناگفتہ بہ ہے۔نیٹ کی سہولت کی عدم دستیابی کی وجہ سے وہ کماحقہ نصاب مکمل نہیں کر سکے۔گھر پر تعلیم کا سلسلہ بھی قائم نہیں ہوسکا۔اس تناظر میں اگر ان سے امتحان لیا گیا تو اسکے خوفناک نتائج برآمد ہوں گے۔حکومت کا ان سے امتحان لینے کا فیصلہ ان کے مستقبل کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے۔جن نصابی کتب سے امتحان لیا جاے گا وہ بغیر پڑھے ان میں سے کیسے کامیاب ہوسکیں گے۔

حکومت کے بچگانہ اقدامات کی وجہ سے لاکھوں بچے اس وقت پریشانی میں مبتلا ہیں۔ضروڑت اس امر کی ہے ان بچوں کو بھی خصوصی حالات کی طرح رعائت دی جاے تاکہ انکا مستقبل محفوظ ہوسکے۔
حرف آخر
کیمبرج اور گیارہویں بارہویں کے امتحانات سمیت تمام امتحانات کے حوالے سے حکومت کو ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

بلاشبہ امتحان بھی بہت اہم ہے لیکن اس سے زیادہ بچوں کی زندگیاں قیمتی ہیں۔لہذا بچوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کے بجائے حکومت کو کیمبرج انتظامیہ سے مذاکرات کرنے چاہئیں اور اپنے بچوں کے لئے بہتر پیکج حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔حکومت کو بھی اس امر کی طرف توجہ دینی چاہیے کہ ہر سطح کے امتحانات کے انعقاد سے قبل کرونا کی صورتحال کو مدنظر رکھا جائے اور کوئی ایسا قدم نہ اٹھایا جائے جس سے بچوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :