پاکستان میں کورونا وائرس

جمعرات 22 اپریل 2021

Prof Ihsan Ullah

پروفیسر احسان اللہ

پاکستان میں کورونا بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ کورونا کی وجہ سے روزانہ 100 سے 120 افراد تک مرتے ہیں۔ ہمارے  قریبی دوست و احباب اور رشتہ دار  اس وائرس کی وجہ سے وفات پاگئے اور معلوم نہیں کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔
بلکہ پوری دنیا کورونا وائرس کی لپیٹ میں ہے ۔ اس کی وجہ سے  پوری دنیا میں تقریبا 26 لاکھ  اموات ہو چکی ہیں۔  
حکومت کی طرف سے صحیح انتظام اور قانونی سازی نہ ہونے کی وجہ سے کورونا وائرس نے زندگی کے ہر شعبہ کو بہت مفلوج کیا ہے خاص کر تعلیم اور تجارت اس سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔

ایک طرف سکول کالجز اور یونیورسٹیاں بند دوسری طرف جلسے جلوس اور مختلف قسم کے اجتماعات پر کوئی پابندی نہیں آب حکومت ایس او پیز کے تحت تعلیمی ادارے کھولنے  کی بات کر رہی ہے لیکن ہمارے عوام میں شعور کے کمی کی وجہ سے کوئی بھی ایس او پیز کے خیال نہیں کرتے اور بےاحتیاطی سے کام لیتے ہیں اس وجہ سے کورونا روز بروز مزید پھلتا رہا ہے ۔

(جاری ہے)


آب مختلف ممالک نے کرونا کے لیے ویکسین تیار کیے ہیں۔

ہر ملک اپنے اپنے عوام کو ویکسین لگانا شروع کی ہے ۔ لیکن پاکستان میں بہت سستی کے ساتھ عوام کو ویکسین لگائے جاتے ہیں۔
ہمارے ملک میں پروپیگنڈوں پر کوئی پابندی نہیں بہت لوگ ویکسین کے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ یہ ویکسین مضر صحت ہے اس وجہ سے  ویکسین سے عوام میں خوف و حراس موجود ہے۔  تو حکومت کو چاہئیے کہ عوام کو اس بات کی شعور وآگہی دلایا جائے کہ یہ مضر صحت نہیں بلکہ بہت مفید ہے ان کا کوئی نقصان نہیں اور جو لوگ بغیر ثبوت اس کے خلاف پروپگنڈا کر رہے ہیں۔

تو حکومت کی طرف سے ان کو سخت سزائیں دیا جائے۔
 خبرونشریات  کے تمام ذرائع ابلاغ نے عوام کو سخت پریشانی میں مبتلا کر چکے ہیں۔ جھوٹ ومنگھڑت خبریں اس سے نشر ہورہی ہیں۔ جس میں خوف وحراس پائے جاتے ہیں۔ ایک طرف ٹیلی ویژن چینلز کی کثرت دوسری طرف سوشل میڈیا پر فضول قسم کی خبریں نے عوام کو مصائب سے دوچار کیے ہیں۔
سوشل میڈیا ہر خاص وعام کے ہاتھوں میں ہیں۔

جس کی وجہ سے ہر شخص صحافی،اینکر، اور تجزیہ نگار بن گیا ہے۔  جس کے ذہن میں جو بات آتی ہے وہ بغیر سوچ اور سمجھ آسانی کے ساتھ سوشل میڈیا کے ذریعے سے دوسروں تک پہنچاتے ہیں ۔ اس طرح مختلف ٹیلی ویژن اپنی نشریات پیش کر رہی ہیں حکومت نے سب کو آزاد چھوڑے ہیں اس کو کوئی کچھ نہیں کہتا اور نہ اس پر کوئی پابندی ہے ۔ حکومت کو چاہیئے ان کے لیے قانون سازی کرکے ان کو پابند کیا جائے تاکہ وہ عوام میں پریشانی کی خبریں نشر کرنے سے باز آجائے ۔

اکثر ماہرین کہتے ہیں کہ کورونا وائرس ان افراد کے لیے زیادہ مہلک ہوتے ہیں جو زیادہ ڈرتے ہیں خوف کی وجہ سے ان کی قوت مدافعت کمزور ہو جاتی ہیں۔ لہذا جو افراد حساس ہوتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو سوشل میڈیا، الیکٹرنک میڈیا اور اخبارات دیکھنے سے دور کیا جائے۔  
حکومت نے پرائیوٹ ویکسین کے لیے جو قیمت مقرر کیا ہے وہ بہت زیادہ ہے۔ حکومت کوچاہیےکہ اس کی قیمت پر نظرثانی کرکے جو قیمت انڈیا میں ہے وہی قیمت یہاں پر ویکسین کے لیے مقرر کیا جائے تاکہ زیادہ لوگ خود اپنا ویکسین پرائیوٹ مارکیٹ سے خرید سکے۔


 مشہور عالم دین مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے عوام سے اپیل کیا ہے۔  کہ وہ ان اوقات میں اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگے۔  اور اپنی گناہوں پراستغفار کریں۔اور ہر مسلمان روزانہ ایک سو مرتبہ
 آیت کریمہ ” لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ“ کا بار بار تلاوت کریں،
ان شاء اللہ اس آیت کریمہ کی تلاوت سے کرونا وائرس کی مصیبت ٹل جائے گی۔


گناہوں سے انفرادی اور اجتماعی توبہ کا بھی خوب اہتمام کرنا چاہیے کہ قدیم اور جدید ماہرین کا اتفاق ہے کہ ذکر اللہ اور توبہ و استغفار سے قلب کو قوت اور قوتِ مدافعت حاصل ہوتی ہے۔ یہی وہ قوت ہے جو لاعلاج بیماریوں کے لیے قوتِ مدافعت کے لیے بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔
تو او عہد کرے ! ۔ کورونا وائرس کی وجہ سے غربت میں اضافہ ہوا ہے اس لیے  اس رمضان بابرکت میں غریب پڑوسیوں، رشتہ داروں اور اپنے علاقے میں دیگر مفلوک الحال لوگوں کے ساتھ دل کھول کر مدد کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :