ایک عاشق رسول صلی اللہ علیہ والہ و سلم کا سفر آخرت

پیر 30 نومبر 2020

Prof Masood Akhtar Hazarvi

پروفیسر مسعود اختر ہزاروی

دنیا میں ہر آنے والا آتا ہی موت کی آغوش میں لپٹ کر اپنی اصل منزل کی طرف لوٹ کےجانے کیلئے ہے۔ دنیا کی زندگی دارالامتحان ہے اور خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس عارضی زندگی کی مقصدیت کو سمجھ کر شب و روز گزارتے اور رضائے الہی سے واصل بالله ہوجاتے ہیں۔ ان گنت اور بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ ایسی ہستیوں کو اللہ تعالٰی دنیا اور آخرت میں عزت و تکریم سے نوازتا ہے۔

یاد رہے کہ اللہ کی ذات اپنے پارسا، مخلص اور برگزیدہ بندوں کے معاملے میں بہت غیور ہے۔ اسی لیے حدیث مبارکہ میں "اولیاء اللہ سے دشمنی اور عداوت رکھنے والوں کو اللہ کریم کی طرف سے اعلان جنگ" قرار دیا گیا ہے۔ دور حاضر کی ایسی ہی ایک فقید المثال شخصیت شیخ الحدیث علامہ خادم حسین رضوی رحمة الله تعالٰی علیہ کی تھی،  جو چند دن قبل مختصر علالت کے بعد داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔

(جاری ہے)

ساری زندگی علوم اسلامیہ کے مدرس کے طور پر دین متین کی خدمت میں گزاری۔ زندگی کے آخری چند سالوں میں ناموس رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے تحفظ اور عقیدہ ختم نبوت کی پاسبانی کے افق پر اچانک نمودار ہوئے اور عشق رسول کریم علیہ الصلاة والتسلیم کا استعارہ بن کرحیات جاوداں پاگئے۔ کروڑوں دلوں کی دھڑکنوں میں "لبیک یا رسول اللہ لبیک" کی دھنیں بسا کر اہل دنیا کو کئی عملی پیغامات دے کے کر اپنے مالک حقیقی کے پاس چلے گئے۔

وہ لبرلز اور دین بیزاروں کو بتلا گئے کہ اربوں ڈالر خرچ کرکے بڑی ہوشیاری اور چالاکی سے پاکستان کا نظام تعلیم بدلنے کی کوشش کی گئیں، میڈیا خرید کر بے حیائی اور فحاشی کا طوفان بد تمیزی بپا کیا۔ سپر پاورز نے ارباب اقتدار کو دباؤ میں لا کر ناموس رسالت اور ختم نبوت کے قوانین کو ختم کرنے یا ان میں تبدیلیاں لانے کی سازشیں کیں۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اس قوم کے بچوں کے دلوں سے عشق رسول اور جذبہ جہاد نکال کر ہم اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوجائیں گے۔

مملکت پاکستان جو بنا ہی نفاذ اسلام کیلئے ہے۔ جس کے معرض وجود میں آنے کی بنیاد ہی یہ نعرہ مستانہ تھا، "پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ۔" تمہارا گمان تھا کہ عالم اسلام کی اس اکلوتی نیوکلئر پاور کو ایک بے حیا اور آزاد خیال ریاست بنا دیں گے۔ اس قوم کی بچیوں اور بچوں کو فحاشی میں مبتلا کرکے مذہب سے بیگانہ کر دیں گے۔ لیکن اقبال کے شاہین اور مجدد الف ثانی رح کے فیض یافتہ اس مرد قلندر امیر المجاہدین علامہ خادم حسین رضوی رح نے بے مثال قربانیاں دے کر، اپنے نعرہ مستانہ سے ہر پیر و جواں کے قلب و جگر میں عشق الہی اور محبت رسول صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے دیپ روشن کردیے۔

جنازے کے فضائی مناظر دیکھ کر لبرلز اور دنیا بھر کے اسلام دشمن ورطہ حیرت میں مبتلا ہوگئے۔ 21 نومبر بروز ہفتہ پورا دن مینار پاکستان اور ہر طرف میلوں تک فضا "لبیک لبیک یارسول اللہ لبیک" کی صداؤں سے گونجتی رہی۔ میڈیا کے ذریعے یہ آواز دنیا بھر میں پھیلی۔ جہاں ان ایمان افروز صداؤں سے اہل ایمان کے دل حب رسول کریم علیہ الصلاة والتسلیم  میں تڑپ رہے تھے، وہاں یہ آوازیں طاغوتی محلات میں زلزلے بھی برپا کر رہی تھیں۔

پاکستان کی سرزمین پر چشمان فلک نے شاید یہ نظارہ کبھی نہ دیکھا ہو کہ دل کی گہرائیوں سے نکلنے والے "لبیک لبیک یا رسول اللہ لبیک" کے فلک شگاف نعروں نے مذہبی و سیاسی مسلکوں کی زنجیریں توڑ دیں۔ آرمی چیف، وزیر اعظم پاکستان،  سیاسی جماعتوں کے زعماء، مختلف دینی مسالک کے علماء و فضلاء، اینکرز اور دانشوران قوم اس مرد درویش کو یک زبان ہو کر اپنے اپنے انداز میں تعزیت کے ساتھ ساتھ خراج عقیدت بھی پیش کر رہے تھے۔

ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل افسردہ تھا۔ بقول مشہور اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود کے ابھی کوئی ایسا کیمرہ بنا ہی نہیں جو اس جنازے کی زمین سے عکسبندی کر سکتا۔ اس کیلئے ہیلی کاپٹر کے ذریعے ہی فوٹو بنا کر لوگوں  کے اس ہجوم کو دیکھا جا سکتا تھا۔ معروف کالم نگار حسن نثار حسرت بھرے انداز میں کہتے ہیں کہ اگر مجھے اندازہ ہوتا کہ اس بندہ خدا  سے مخلوق خدا اتنا پیار کرتی ہے تو میں اس سے ضرور ملاقات کرتا۔

دو دن پہلے تک "تحریک لبیک"کے نہتے کارکنوں پر بے پناہ شیلنگ اور فائرنگ کا حکم دینے والے بھی پچھتا رہے ہوں گےکہ ہم نے کیا ظلم کیا۔ امیر المجاہدین کی وفات حسرت آیات سے یہ بھی حقیقت کھل گئی کہ عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ بقول اقبال اللہ کریم کا وعدہ ہے کہ " کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں"۔ دو اڑھائی مرلے کے مسجد سے ملحقہ گھر میں رہنے والا یہ مرد حق آگاہ اور کشتہ عشق مصطفی صلی اللہ علیہ والہ و سلم جاتے جاتے  اہل ایمان کو یہ بھی پیغام دے گیا کہ نمود و نمائش اور خود نمائی کے خول سے باہر نکل آؤ. عقلی مصلحتوں اور ذاتی مفادات کی پرواہ کیے بغیر اپنے پیارے نبی محتشم،  مرشد قلب و نظر آقائے نعمت صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی ناموس کے پہرے دار بن جاؤ. اللہ تمہیں وہ عزتیں عطا کرے گا جو رہتی دنیا تک یاد رہیں گی۔

یہ حقیقت ہے کہ مغلیہ دور میں جب بر صغیر میں دین اسلام پر کٹھن وقت آیا تو وہاں مجدد الف ثانی رح جیسے مرد درویش ہی اکبر کے دین الہی کی مخالفت میں ڈٹ کر کھڑے ہوئے۔ ابولفضل اور فیضی جیسے منطقی، فلسفی مولوی مصلحتوں اور ذاتی منفعتوں کا شکار ہو کر اکبر کی آغوش میں بیٹھ کر اس کی مدح سرائی کرنے لگے۔ رہے وہ بھی نہیں اور مجدد الف ثانی رح بھی وصال فرما گئے۔

لیکن اللہ کے دین سے وفا کرنے والے مجدد الف ثانی رحمة الله عليه کی محبت و عقیدت اب بھی کروڑوں دلوں میں جاگزیں ہے۔ ان کا چشمہ فیض اب بھی جاری و ساری ہے۔ جبکہ ان دو مفاد پرست اور دین فروش ملاؤں کا کوئی نام لینا بھی گوارہ نہیں کرتا۔ کاش امیر المجاہدین جیسی ہستیاں جب زندہ ہوتی ہیں اس وقت ان کی قدر کی جائے۔ ان کی بات کو سمجھا جائے۔ ان کا دست و بازو بنا جائے تو بہت سے دینی و دنیوی مقاصد اور مصالح کا حصول آسان سے آسان تر ہوجائے۔

علامہ خادم حسین رضوی رح کے طریقہ کار سے تو کوئی اختلاف کر سکتا ہے لیکن ان کے عظیم مقصد اور  پیارے نبی محتشم صلی اللہ علیہ والہ و سلم سے ٹوٹ کر عشق و محبت کا کوئی سخت ترین مخالف بھی انکار نہیں کرتا۔ وہ قرآن پاک اوراحادیث کے حافظ تھے۔ اقبالیات کے ماہر تھے۔ اعلی حضرت فاضل بریلوی رح کا کلام از بر تھا۔ دنیا بھر کی طاغوتی طاقتیں ان کا رستہ روکنے کی کوشش کرتی رہیں۔

اپنے و بیگانے مخالفتين کرکے حوصلے پست کرنے کی کوششیں کرتے رہے۔ خدا گواہ ہے کہ ان میں سے کوئی حربہ بھی اس مرد قلندر کے زرا بھر بھی حوصلے پست نہ کر سکا۔ ان کی ہر ہر ادا یہ آواز دے رہی تھی کہ
ہم  نے سیکھا ہے  اذانِ سحر  سے  یہ اصول
لوگ خوابیدہ ہی سہی ہم نے صدا دینی ھے
پاکستان میں حالیہ قیام کے دوران اکتوبر 2020 کی لاہور میں ایک بابرکت شام تھی،  جب عزیز القدر علامہ قاری احسان اللہ قادری کی معیت میں ہماری امیر المجاہدین علامہ خادم حسین رضوی رح سے تقریبا 45 منٹ کی   ملاقات ہوئی۔

وہ برطانیہ و یورپ میں مسلمانوں کے حالات اور خدمات دین کے حوالے سے پوچھتے رہے۔ دوران گفتگو ان کے ہر جملے سے اسلام کی محبت اور عشق رسول صلی اللہ علیہ والہ و سلم کا فیضان ٹپکتا تھا۔ وہ چاہتے یہ تھے کہ اسلام کی عظمت رفتہ بحال ہو اور مسلمان دنیا میں عزت کے ساتھ جیئیں۔ مقبوضہ کشمیر میں عورتوں، بچوں اور جوانوں پر بھارتی مظالم سے بہت پریشان تھے۔

خصوصا نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے مبینہ توہین آمیز خاکوں پر بہت افسردہ دکھائی دے رہے تھے۔ بار بار جرات ایمانی کے ساتھ کہتے تھے کہ ہمارے ہوتے ہوئے کوئی ہمارے پیارے نبی کی اس طرح توہین کرے اور ہم صرف مذمتی بیانات دیتے رہیں؟ یہ نہیں ہوسکتا۔ ہم اپنے نبی کی ناموس کے تحفظ کیلئے اپنا سب کچھ قربان کردیں گے۔ ان کا کمال یہ بھی تھا کہ بولتے پنجابی تھے لیکن ان کی توانا اور گرجدار آواز سے دنیا بھر کے پنجابی زبان سے ناواقف بڑے بڑے ایوانوں میں بھی لرزہ طاری ہوجاتا تھا۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :