مثبت اور منفی سوچ کا فرق!!

جمعرات 14 مئی 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

ایک دن میں نے ایک جملہ لکھا تھا کہ" یہ کان، آنکھیں اور زبان روح کی کھڑکیاں ہیں، جو چیز ان کے ذریعے اندر جائے گی روح ویسے ہی پروان چڑھے گی" ذرا غور کرنے والی بات ہے، ایک بات وضاحت کے ساتھ سمجھ لیں کہ جسم اور روح دو متوازی جسم ھیں۔اسی لیے حدیث مبارکہ ھم سب نے سنی ھوئی ھے کہ "صفائی نصف ایمان ہے" اس سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ آدھا ایمان تو ھوگیا کہ ھم ظاہری جسم کو توانا رکھنے کے لیے ہر غذا اور حسب توفیق کوشش کرتے رہتے ہیں کہ میل کچیل سے جسم کو صاف رکھیں بلکہ جدید دور میں غذا اور اللہ کی بے شمار نعمتوں کے ساتھ ھم خوبصورتی کے لیے کیا کچھ نہیں کرتے، خواتین کے ساتھ ساتھ اب نوجوان نسل اور کئی ادھیڑ عمر کے افراد بھی میک اپ، فیشل، پلاسٹک سرجری اور پتہ نہیں کیا کیا کچھ نہیں کیا جاتا، ذرا سوچیں یہ تو چلیں ظاہری صفائی ھوگئی مگر باطنی صفائی کیسے ہو گی؟ اس کے لیے کونسا، صابن، تولیا، پانی، غذا، ڈاکٹر یا ھسپتال تلاش کریں گے؟ یہی غور کرنے والی بات ہے، اگر جسم کہ ساتھ روح کی پاکیزگی اور طہارت کا نہ خیال رکھا تو توازن بگڑ جائے گا، گاڑی ایک ٹائر پہ کیسے چلے گی،؟ اگر دھکے دے کر چلا بھی لیں تو کسی کھائی میں تو جا گرے گی، اب ظاہری صفائی کا شعور تو والدین، معاشرہ، ذرائع ابلاغ اور کئی ذرائع بتاتے رہتے ہیں، مگر دوسرا جسم اسی طرح بیمار چھوڑ دیا جاتا ہے قرون اولیٰ کے والدین اسی صفائی اور تربیت سے آغاز کرتے تھے اور بچا جب سن شعور کو پہنچتا تو وہ کسی درسگاہ دوئم کا انتخاب کرتا تھا لیکن گھر سے سیکھی ھوئی اے بی سی اس کے ساتھ ھوتی تھی، اب بدقسمتی سے یہ نہیں ھو رھا! دوسرا مقام اس کا معاشرہ، صحبت اور تعلیمی ادارے ھوتے ھیں بدقسمتی سے وہ بھی باوجوہ خالی دامن ھیں تو" گلہ تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے" کے مصداق اسی بھول بھلیوں میں وقت گزر جاتا ہے اور اب امتحان ھے جوانی کا ، جذبات کا، جنون کا مگر مثبت اور منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں مگر اس کو روکنا ھی پلٹ آنا ھے، قرآن کتاب ھدایت ھے تدبر اور نظم کے ساتھ پڑھیں گے تو صفا ئے باطن کا آغاز ھو جائے گا، دوسرا ذریعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات، کردار اور ان کی زندگی ھے جو ھو بہو قرآن ھے۔

(جاری ہے)

تیسرا بڑا ذریعہ آپ کے ظاہری جسم کے وہ اعضاء ہیں جو باطنی جسم کی پرورش میں اھم کردار ادا کرتے ھیں، فرض کر لیں کسی کی ٹوہ لگانے سے منع کیا گیا ہے اور ھم بے دھڑک ٹوہ لگاتے اور غلاظت سے اپنے کانوں، پھر آنکھوں اور زبان کے ذریعے روح کے حوالے کرتے ہیں، گویا ان کھڑکیوں سے اندر جانے والی آلودگی باطن کا ماحول بھی گندہ کر دے گی۔ھم آنکھوں سے جو دیکھتے ہیں ان میں کتنی چیزیں ایسی ہیں جو نہیں دیکھنی چاہیے مگر ھم دیکھ بھی رہے ہیں اور اندر تڑکا لگا کر پھینک بھی رہے ہیں اور پھر مصالحہ لگا کر دوسروں کو سنا بھی رہے ہیں، زبان گالیوں، جھوٹ، فریب، اور لغویات کا منبع بن کر غلاظت کے ڈھیر اندر اور باہر جمع کرتی رہتی ہے۔

پھر کیسے باطنی جسم نشوونما  پائے گا، اچھا اس کے علاج کے مواقع کئی ملتے ہیں مگر بقول حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے " صفائی سے کپڑا صاف تو ھو جاتا ھے مگر نیا نہیں رہتا" غیبت جس کو مردہ بھائی کا  گوشت کھانے کے برابر کہا گیا بخوبی ھم سرانجام دیتے ہیں۔یر چیز کا منفی رخ دیکھنے دوسرے کے بارے میں بات کرنے، اس کی جاسوسی کرنے اس کی ذاتیات میں اترنے کا شوق ھمیں تباھی کے دھانے پر لے آیا ھے۔


  ایک بات اس رمضان کے عشرے میں ھم غور کر لیں ،کہ ھر بات کا مثبت رخ دیکھنا ہے اور منفی سوچ کو دفن کر دینا ھے اپنے گریبان میں جھانکنا ھے دوسرے کے نہیں، بغیر تحقیق کے بات آگے نہیں پہنچانی، دوسرے کو ھارانا، لڑانا نہیں بلکہ صلح رحمی کی طرف آنا ھے زبان کو ذکر الہیٰ سے رطب اللسان کرنا اور کانوں کو اچھی باتوں کا محور بنانا ہے۔انکھوں میں وہ حیا پیدا کرنی ہے جو بچوں کے لیے قابل مثال ھو تو دیکھیے گا روحانی علاج وحفاظت سے مضبوط جسم پروان چڑھے گا جس طرح ظاہر کے باطن پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اسی طرح باطن کے ظاھر پر بھی ھوتے ھیں، اشفاق احمد کہا کرتے ھوتے تھے کہ بے جا تنقید اور دوسرے کو ڈسکس کرنے سے گیس کی بیماری پیدا ھوتی ھے، علاج، ڈاکٹر اور تعمیر کے نسخے آپ کے، ھمارے سامنے ھیں مثبت اور منفی سوچ میں تفریق کریں اور ظاہری و باطنی صفائی کے ساتھ توانا، صحت مند جسم پائیں اور، عادل، بے خوف اور شجاع بن کر دیکھائیں، راستہ اور رہنمائی فیض عام کی طرح اس عشرہ رمضان میں ھماری منتظر ہے۔

حال ھی میں کورونا کے کیس میں ھی دیکھ لیں کہ بجائے احتیاطی تدابیر کے ھم سازشی نظریات کے اسیر ھو گئے، ایک چیز کھلی آنکھوں سے دیکھ کر انکار کرنا اور جہالت کی نذر کرنا، خوابوں کے پیچھے بھاگنا، اور منفی اثرات کو قبول کرنا کیا دانشمندی ھے اور یہ ھم مسلمانوں میں کیوں ھے بجائے تحقیق کے دروازے کھولنے، ٹیکنالوجی کے حصول اور اللہ کی تنبیہ سمجھ کر معافی مانگنے کے اور طنطنہ سے منفی رخ کی پیروی کرنا کونسی عقل مندی ھے اس پر مکمل تحقیقی کام قارئین کے جلد سامنے لاؤں گا۔صرف روح اور جسم کی تفریق کے موضوع کو سمجھیں اور مجھ سمیت سب عمل کی دنیا میں اتر جائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :