باؤلی مختصر تاریخ اور ضرورت!

بدھ 2 جون 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

باؤلی سنسکرت زبان کا لفظ ہے، اردو میں اس کے معنی ایسے کنویں کے ہیں جس میں سیڑیاں بنی ہوئی ہوں جو پانی کی سطح تک جاتی ہوں، ھندی میں باؤلی پاگل عورت کو کہا جاتا ہے، جب کہ انگریزی میں اسے(stepwells) کہتے ہیں، باؤلی دو قسم کی ہیں ایک شمالی، دوسری مغربی باؤلی کی نسبت شمالی باؤلی کی گہرائی اور سیڑیاں کم ہوتی ہیں، جبکہ مغربی باولیوں کی طویل گہرائی تک سیڑیاں اور فن تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہیں، انسان اور جانور خصوصاً ھاتھی اور گھوڑے بھی سیڑھیوں سے اتر کر شفاف پانی پی سکتے تھے، ھندوستان میں ایسی کئی باولیاں بنائی گئی تھیں، جہاں ساتھ دو کمرے ، بادشاہوں کے آرام اور مہمانوں کی تواضع کے لیے ہوتے تھے، جو بہت ٹھنڈے ہوتے، شمالی باؤلی کے نمونے پاکستان، کشمیر، ھزارہ اور کئی جگہوں پر موجود ہیں جن میں آج بھی شفاف اور ٹھنڈا پانی موجود ہے، ہندوستان میں دہلی، لکھنؤ، حیدرآباد اور گرد و نواح میں بے شمار بڑی باولیاں موجود تھیں جن کے آثار باقی ہیں، نظام الدین اولیاء کے مزار پر ایسے کنویں آج بھی پینے کے شفاف پانی اور وضو کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، برصغیر میں  16 ویں صدی میں راجپوتوں اور شیر شاہ سوری کے زمانے میں اس طرح کی سیکنڑوں باولیاں تعمیر کی گئیں، جہلم اور قلعہ روہتاس کے نزدیک باؤلی آج بھی اپنے آثار رکھتی ہے، اسی طرح کی باؤلی واں بھچراں میانوالی میں بھی موجود ہے، یہ شیر شاہ سوری نے 16 ویں صدی عیسوی میں بنوائی آج بھی لوگ ا سے دیکھنے جاتے ہیں، جہاں پانی، وہاں زندگی،کے اصول کے تحت کئی قبائل وہاں آباد ہوئے،  ایسی ہی باؤلی لوسر باؤلی کے نام سے خیبرپختونخوا پاکستان کے گاؤں ھری پور میں  موجود ہے، جبکہ دارلحکومت اسلام کے نواحی علاقے شاہ اللہ دتہ میں ایسی باؤلیاں اور غار نما اثرات  ہیں، یہاں صوفی بزرگ شاہ اللہ دتہ کا مزار ہے، جہاں زائرین زیارت کے لئے جاتے ہیں، تاریخ کہتی ہے کہ ہری پور کی باؤلی مغلیہ دور میں تعمیر ہوئی، اسلام آباد کے نواحی علاقے ٹیکسلا میں بھی باولیوں کے نشانات موجود ہیں جہاں گندھارا کی قدیم تہذیب کے اثرات دنیا کی توجہ کا مرکز ہیں، ٹیکسلا میں موجود باؤلی کی تاریخ بتاتی ہے کہ ٹیکسلا کے راجہ انبی نے یہاں سکندر اعظم کا استقبال کیا تھا،
باؤلی کی شمالی قسم کے بے شمار نمونے ڈوگرہ راج کے دوران کشمیر میں بھی تعمیر کیے گئے، جن کا مقصد شفاف پانی کا ذخیرہ ، مسافروں کی سہولت اور آباد افراد کے پینے کے پانی کی ضرورت پوری کرنا تھا، راقم نے ضلع پونچھ میں  خوبصورت طرزِ تعمیر ، نقش و نگار اور کم گہرائی والی سیکنڑوں باؤلیاں دیکھی ہیں، جن میں سے کئ مسمار ھو چکیں اور درجنوں کے حساب سے اب بھی میرے گاؤں جنڈالی، اور اس کے گرد و نواح میں موجود ہیں، ھمارے آباؤاجداد میں سردار فضل حسین خان مرحوم باؤلی بنانے کے ماہر کاریگر تصور کیے جاتے تھے، گزشتہ دنوں راقم نے  یہ نادار تعمیر کی گئی باؤلی دیکھیں جو آج بھی منہ کی پیاس کے ساتھ، روح کی پیاس بھی مٹاتی ہیں، پانی زندگی ھے اور اس کی حفاظت جس طرح کی جاتی تھی آج نہیں ہے، نئی نسل کو پانی کی حفاظت اور مستقبل کے خطرات سے آگاہ رہنا ھوگا، اب کوئی شیر شاہ سوری، یا لومینٹ مین اور گندھارا تہذیب کے ماہرین نہیں آئیں گے۔

(جاری ہے)

جو پانی کی حفاظت اور استعمال کا بہترین طریقہ بتائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :