آنکھیں، سب بتا دیتی ہیں!

ہفتہ 12 جون 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

امریکی جریدے نے انکشاف کیا ہے کہ بڑی پتلیوں والی آنکھیں رکھنے والے زیادہ ذھین، فطین، وسعت خیال، اور مضبوط یاداشت کے مالک ہوتے ہیں، آپ نے محاورہ پڑھا ہوگا"آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل" سب کو کچھ  اس آنکھ کا ہی کمال ھے اس سے چھپ گیا تو کچھ نہیں رہا، آنکھیں انسانی جسم کا وہ اہم حصہ ہیں جو ایک دوسرے کو منفرد بھی رکھتی ہیں، شاعر، صوفی اور عام انسان اس کی اہمیت اور روشنی کے اس گلوب کو سب سے بڑا انعام سمجھتا ہے، سب سے زیادہ گناہ اور نیکیاں بھی دیکھنے سے ہی شروع ہوتی ہیں، آج ذرا اس کو ایک اور طرح سے دیکھتے ہیں"اکھ نہیں تے کھکھ نہیں" یہ نہ ہو تو ایک اندھیرا ہی انسان کا ساتھی ہے، یہ حقیقت کو، جمال یوسف سے، کمال مصطفیٰ تک، اور رب کائنات کو بھی دیکھنا چاہتی ہیں، اقبال تو یہاں تک کہہ بیٹھے تھے کہ"
اے حقیقت منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں
ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں جبین نیاز میں
لیکن موسیٰ علیہ السلام کو تجلی دکھائی جس کو شاعر نے یہ کہہ کر حقیقت بیان کر دی،کہ
۔

(جاری ہے)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔، موسیٰ تم نے،
نہ دیکھا، نہ دیکھا، نہ دیکھا، نہ دیکھا
اس کی تجلی کو یہ آنکھ نہیں دیکھ سکی، کیونکہ اس میں دنیا کے جلوؤں کو دیکھنے کی صلاحیت رکھی گئی ہے، آج جدید دنیا میں آنکھ جو دیکھتی ہے، ،زبان کچھ بھی بولے آنکھ بتا دیتی ہے کہ کیا کہنا چاہ رہا ہے، خبروں کی دنیا میں باڈی لینگویج اب عام تجزیے اور مشاہدے میں آتی ہے، آنکھیں بھی اس کا حصہ ہیں کھجور کے تنے، اس سے بنے گودے کے کاغذ، چمڑے پہ لکھے فرمان کا بھی ایک زمانہ تھا ایک وقت تھا مصر میں سب سے بڑی لائبریری تھی، اسکندریہ میں، جہاں ڈیڑھ لاکھ سے زائد ایسی تحریریں محفوظ تھیں کاغذ ترقی کا سفر طے کرتے کرتے، کتابوں، رسالوں اور اخبارات تک آیا، جہاں اچھی، بری، سچی جھوٹی ہر طرح کی خبریں چھپنے لگیں، ذرائع ابلاغ نے اتنی ترقی کی کہ باڈی لینگویج،   سوچنے کے انداز کو بھی خبر کا ذریعہ بنا دیا گیا، 2002ء میں مشاہد حسین سید میں نے پوچھا تھا کہ،"دی مسلم سے، مسلم لیگ" تک کا سفر کیسا رہا، بولے صحافت بہت تھکا دینے والا سفر تھا، لیکن کبھی ٹیبل اسٹوریاں بھی بہت بنائی جاتی تھیں، ھم ایف ایٹ کے ایک آفس میں موجود تھے میاں نواز شریف کا دور حکومت تھا، ایم کیو ایم ان کی حلیف جماعت تھی، میں نے ایک اسٹوری بنائی کہ"لندن میں، اپوزیشن لیڈر کی الطاف حسین سے ملاقات ہونے والی ہے اور ایم کیو ایم حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ کر نے جا رہی ہے،خبر این این آئی میں فیکس کی دوسرے دن تمام اخبارات کے صحفہ اول پر خبر لگی تھی، پھر کیا تھا میاں صاحب راتوں رات چارٹر طیارے سے لندن روانہ ہوگئے، مجھے آج تک افسوس ھے، اخبارات، حکومت اور اپنے آپ پر،! ایک یہ زمانہ ھے کہ خبر اڑتی پھرتی ہے پھر بھی اصل خبر تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے لوگ موقف ہی بدل دیتے ہیں، اب ویڈیوز کا تیز رفتار زمانہ ہے بلکہ اس سے بھی آگے سفر جاری ھے، اضطراب پھر بھی کئی گنا زیادہ ہے، دنیا  آنکھ میں سمٹ گئی اور اب اشاروں  اور باڈی لینگویج سے سب عیاں ہے، اس میں مشاہدہ کرنے والے کی آنکھ مختلف ہونی چاہئے تاکہ مشاہدہ کو تجربے میں بدل کر اصل خبر یا بات کو جان سکے۔

سٹیفن ہاکنز سالوں معذور رہا مگر اس کے اشارے سائنس میں تجربات کی شکل اختیار کر کے قوانین بن گئے۔ شاعر ی جب تخیل کی وسعتوں سے گزرتی ہے تو کئی ماوراء عقل تصورات سامنے آتے ہیں جس کے عمومآ لوگ اصل معنی نہیں پاتے ، ھم کور ذوق معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں، آپ بھارت، امریکہ، برطانیہ اور۔ علمی میدان میں ترقی پانے والے ممالک کو دیکھیں ایک اچھا ڈاکٹر، انجنیئر، تاجر اور سائنس دان باذوق بھی ہوتا ہے کئی شاعری بھی کرتے ہیں کم از کم ادب سے واقف ضرور ہیں، اس کو پڑھتے ہیں، لیکن یہاں بالکل اس سے عاری لوگ ملیں گے، ایک ڈاکٹر باذوق ہو تو وہ اچھا علاج کر سکتا ہے بانسبت اس ڈاکٹر کے جو ادب کے قریب سے نہ گزرا ھو، شاعر جب آنکھ کو جھیل سے تشبیہہ دیتا ہے تو جدید علوم اس کی گہرائی، ویژن کا اندازہ۔

لگا لیتی ہے، فلسفہ اس سے منطق اور دلیل کا اندازہ لگا لے گا۔اس آنکھ نے سب کچھ بگاڑا بھی اور بنایا بھی ہے، آج بڑی پتلیوں والے ذھین نکلے تو، چھوٹی والے بھی کم نہیں نکلیں گے، چونکہ آنکھیں سب بتا دیتی ہیں، آئیں "کھلی" آنکھ سے دنیا کو دیکھتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :