کانوں کی آوازیں، میرا مشاہدہ!

جمعہ 15 اکتوبر 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

   گزشتہ دنوں معروف اخبار میں ایک رپورٹ چھپی جس میں بیان کیا گیا کہ کانوں میں سنسناہٹ، آوازیں آنا، اور بھنبھناہٹ کیا ہے، اور دنیا میں کتنے لوگ اس کا شکار ہیں، رپورٹ میں وجوہات اور علاج کے لیے تحقیق بھی بتائی گئی ہے، رپورٹ کے مطابق تقریبا 2 ارب لوگ اس کا شکار ہیں اور صرف امریکہ کی 15 فیصد ابادی اس مرض یا علامت مرض میں مبتلا ھے، تحقیق کے مطابق ملٹری کے چالیس فیصد نوجوان اس علامت کا شکار ہیں، کان بجنے کی ان علامات میں سب سے بڑا کردار شور، میوزک اور سٹریس ھے، جب یہ علامات ظاہر ہوتی ہیں تو یہ قوت سماعت متاثر ہونے کی بنیادی علامات کی طرف نشاندھی کرتی ہیں، اس مرض کو ٹینائٹس کہا جاتا ہے، جس کا علاج صوتی تھراپی ہی ہوتا ہے، اس کے علاؤہ اس کا کوئی علاج نہیں، تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ موبائل پر گانے سننے اور موبائل کا زیادہ استعمال کرنے والے 57 فیصد لوگ اس بیماری میں مبتلا ہیں، اس مرض کو طنین بھی کہتے ہیں، کان بجنا، سنسناہٹ، بھنبھناہٹ، یا گھنٹی کی آوازیں، کسی بیرونی ذرائع سے نہیں ھوتی بلکہ دماغ میں پہلے سے موجود آوازوں سے ٹکرا کر کان کے باریک پردوں پر اترتی ہیں جس سے یہ آوازیں پیدا ھوتی ھیں، دنیا  میں پانچ کروڑ افراد ہر سال اس مرض کا شکار ہو رہے ہیں، امریکہ کے سابق صدر ریگن، مارٹن لوتھر کنگ، کئی امریکی اداکار، فنکار پہلے امریکی خلا باز ایلن سپرڈ سمیت دنیا کی معروف شخصیات اس کا شکار رہی ہیں، یہ علامات آہستہ آہستہ قوت سماعت یعنی سننے کی قوت سے محروم کر دیتی ہیں، تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ سالانہ ایک کروڑ ساٹھ لاکھ افراد اس کے علاج کے لیے رجوع کرتے ہیں، اس کے محرکات میں تناؤ یعنی سٹریس، ادویات میں تبدیلی، کان سے ٹکرانے والی تیز آوازیں، کان میں انفیکشن، کان میں بیرونی شے داخل ہونے اور ناک کی الرجی بھی ھو سکتی ھے،
   آج دنیا بھر میں ماحولیاتی آلودگی جہاں ایک بڑا مسئلہ ہے، وہاں شور، موبائل کی کثرت، موسیقی کی بلند آوازیں، اور گاڑیوں کا بے ھنگم شور دماغی صحت کے لیے شدید نقصان کا باعث ہے، جو چیزیں انسان خود کنٹرول کر سکتا ہے ان میں موبائل اور موسیقی کے آلات اور آوازوں پر قابو پایا جا سکتا ہے،  ان آوازوں سےنہ صرف قوت سماعت متاثر ہوتی ھے بلکہ اس کے اور بھی کئی نقصانات ہیں، جن میں کام اور محنت سے لگاؤ ختم ہونا شامل ہے۔

(جاری ہے)


کانوں کی ان آوازوں کی تشخیص عموماً ای این ٹی سپشلسٹ سے کروائی جا سکتی ھے، حال ہی میں ایک لئینر ڈیوس بنایا گیا  جس کو ای این ٹی اسپشلسٹ کی ریکمنڈشن کے ساتھ استعمال میں لایا جاتا ہے، یہ تھرمامیٹر کی طرح کا ایک آلہ ہے جو منہ اور گلے کی بافتوں کے ذریعے تھراپی کا کام کرتا ہے، یورپ میں یہ آلہ باآسانی دستیاب ہے جبکہ امریکہ کے اداروں نے ابھی اس کی منظوری نہیں دی،
میرا اپنا مشاہدہ اور میرے ایک کزن ڈاکٹر یاسر خان ای این ٹی اسپشلسٹ سے اس سلسلے میں بات ھوئی، جس سے ایک نفسیاتی اور روحانی حل پر سوچا گیا اس سے اچھے اثرات ھوئے ہیں،  میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ ایک مکمل علاج ھے تاہم بیماری یا علامات میں کمی ضرور واقع ہوتی ہے، کان انتہائی حساس  ہوتے ہیں، ھمارے جیسے ترقی پزیر معاشروں میں ان باتوں پر توجہ کم ہی ہوتی ہے، اور جب تک کوئی بڑی بیماری کھل کر سامنے نہیں آتی، تشخیص اور علاج کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی، اس میں شعور ،وقت کی کمی اور علاج کی سہولت نہ ہونا تینوں عوامل شامل ہیں، مگر جو کام آسانی سے کیے جا سکتے ہیں، ان میں  گانے کی آواز میں کمی لانا، موبائل کے استعمال میں توازن پیدا کرنا اور جسمانی مشق اہم کردار ادا کر سکتی ھے، ایک دوست کا فون آیا کہنے لگا، سردی آ رہی ہے پنکھے بند ہو جائیں گے، اب میں اپنی آوازیں کیسے سنوں گا؟، میں نے کہا جیسے آپ پنکھے کی آواز میں گم تھے ایسے ہی کانوں کی آواز سے توجہ ہٹا کر درمیانی آواز میں سورہ رحمن یا کوئی تلاوت سننا شروع کر دیں، نئید آ جائے گی، اسی طرح کی مشق جاری رکھیں، کہتے ہیں ایسی علامت والے لوگوں کو بارش کی آواز اور پرندوں کی   چہچہاہٹ بہت اچھی لگتی ہے چلیں فطرت کے قریب رہنے کے لیے وہ سن لیا کریں، جتنا اس آواز پر توجہ دیں گے، اتنی مشکل بڑھتی جائے گی، نفسیاتی اور روحانی حل کی طرف جائیں گے تو فوائد ضرور ملیں گے، ویسے اندر کی آواز کون سنتا ہے ؟، سنے تو شعور ہی بیدار ھو جائے گا!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :