
ہم ہجوم ہیں کہ قوم؟
بدھ 12 جنوری 2022

پروفیسرخورشید اختر
(جاری ہے)
بدقسمتی سے برصغیر میں طویل برطانوی راج رہا ہے جس نے حکومت کرنے کے لیے معاشی ، اور معاشرتی زندگی میں طبقات بنا دئیے، ایک طبقے کو بااثر اور طاقتور بنا کر خوب نوازا جس سے معاشی تفاوت، ناانصافی اور پسماندگی نے جنم لیا، جو بڑھتا بڑھتا ظالم اشرافیہ کا روپ دھار گیا، اسی معاشی ناانصافی نے زندگی کے توازن کو بری طرح متاثر کیا ھے، جو قوم نہیں بلکہ ایک ھجوم بن کر انصاف کے لئے لڑتا رہا اور یہ جنگ ابھی تک جاری ھے۔
جو اقوام دنیا میں۔موجود ہیں ان سب کی بنیاد معاشی انصاف اور معاشرتی مساوات پر ھے، یورپ سے لیکر امریکہ تک دیکھ لیں، یا قدیم یونان، روم اور فارس کی تہذیب و تمدن کا مطالعہ کر لیں، معاشی انصاف ہی بنیاد نظر آئے گا، ھمارے ھاں تخلیق اور تحقیق تک سب کچھ ایک خاص مزاحمت کے ساتھ چلتا ہے، جس سے جاندار علم اور بے لاگ تاریخ ھمیشہ اوجھل رہتی ہے، یونانیوں نے علم و دانش میں منفرد حیثیت قائم کی، جس کے لیے انہوں نے تخلیق کاروں کو ایک جگہ جمع کیا، ان کو مکمل معاشی اور معاشرتی تحفظ فراہم کیا، تاکہ جاندار علم تخلیق ھو سکے، ھماری دوسری بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ قومی روایات کی تربیت کے لیے تعلیم اور شعور کی ضرورت ہوتی ہے یہ دونوں اختیار بھی اسی اشرافیہ کے پاس رہے، نوزائیدہ مملکت پاکستان کے بے شمار مسائل تھے، سب سے بڑا مسئلہ مہاجرین جو پاکستان کو جنت سمجھ کر آئے تھے، ان کی ابادی کاری، وسائل اور اثاثوں کی تقسیم کا مسئلہ اور کئی انتظامی اور دفاعی مسائل ورثے میں ملے تھے، یہاں تک کہ پہلی کابینہ میں وزیر تعلیم برائے نام تھے، قائد اعظم محمد علی جناح کی مصروفیات، اور بعد میں انتقال نوزائیدہ مملکت کے لیے بڑا جھٹکا تھا، جس کی وجہ سے بنیادی اور ترجیح مقاصد پر توجہ نہیں دی جا سکی، جب یہاں تعلیم کی وزارت محدود تھی تو بھارت میں ابوالکلام آزاد جیسی شخصیت وزیر تعلیم کے منصب پر فائز تھی، پاکستان میں بعد آنے والے حکمرانوں نے تعلیم اور شعور پر توجہ نہیں دی، جس سے جہالت اور بے شعوری نے اشرافیہ کو اور زیادہ طاقت دی، اشرافیہ نے اپنا اقتدار اور اختیار برقرار رکھنے کے لیے لوگوں کو علاقائی تعصبات اور گروہی مسائل میں تقسیم کر دیا، مختلف تہذیب و ثقافت کے لوگ ایک جگہ جمع نہیں ھو سکے، معاشی انصاف ھوتا تو ایک جاہل معاشرہ بھی کسی قانون کا پابند ھوتا مگر انصاف دے کر" ٹوڈی" قسم کے لوگ اپنی طاقت کھونا نہیں چاہتے تھے، جو کہ سلسلہ در سلسلہ آج بھی برقرار ہیں، کسی قومی تصور کو اجاگر نہیں ہونے دیا گیا، جس کی وجہ سے آج ھم وہی ھجوم ہیں معاشی تفاوت نے غریب عوام کو آگے نہیں بڑھنے دیا، وہ انتقام کی صورت میں دوڑتے اور ٹکرا کے واپس آجاتے ہیں، کوئی امید اور خوشخبری ملتی ہے تو دوڑ پڑتے ہیں، ذرا سی بات پر چونک جاتے ہیں، ایک ھجوم میں کوئی پھنس جاتا ہے کوئی دھنس جاتا ہے، بس یہی ھماری قوم ھے جس کے اندر حادثے کے بعد اٹھنے کی جدوجہد یا مزاحمتی گروپ تو موجود ھیں ، قوم نہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسرخورشید اختر کے کالمز
-
مہنگائی کس کا ، کیا قصور ہے؟
جمعرات 17 فروری 2022
-
تحریک عدم اعتماد۔۔۔سیاست یا مزاحمت!
منگل 15 فروری 2022
-
لتا۔۔۔سات دہائیوں اور سات سروں کا سفر!!
منگل 8 فروری 2022
-
نیٹو ، نان نیٹو اتحادی اور اب قطر!!!
بدھ 2 فروری 2022
-
نظام بدلنے والے کہاں ہیں؟
ہفتہ 29 جنوری 2022
-
یوکرین، یورپ میں بڑھتی سرد اور گرم جنگ!!
جمعہ 28 جنوری 2022
-
بھارت کی مسلم دشمنی اور نسل پرستی
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
کیا عثمان بزدار نے حیران نہیں کیا؟
جمعہ 21 جنوری 2022
پروفیسرخورشید اختر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.