ہم ہجوم ہیں کہ قوم؟

بدھ 12 جنوری 2022

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

ایک دوست نے بات کی کہ ھم 75 سال میں قوم نہیں بن سکے بلکہ ھجوم بنے ہیں، یہ سوال کسی سانحے اور حادثے کے بعد اکثر ابھر کر سامنے آ جاتا ہے، سب کی انگلیاں حکمرانوں کی طرف اٹھتی ہیں، حالانکہ یہ ایک بڑا سماجی مسئلہ ہے، جس میں حکمرانوں کا قصور ،ضرور ھے مگر اس دلیل پہ مکمل انحصار نہیں کیا جا سکتا، سرسید احمد خان نے "اپنی مدد آپ" کے مقالے میں لکھا تھا کہ ھم مشرقی لوگ سب بیماریوں کی جڑ حکومت کو سمجھتے ہیں، جبکہ مغرب اس کو سماج سے تعبیر کرتا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ حکومت جتنی بھی بری ھو، سماج اچھا ھو تو وہ حکومت کو کھینچ کر اچھا بنا دیتا ہے، انہوں نے لکھا کہ قومی ترقی، شخصی کردار، چال چلن اور عادت و اطوار کے مجموعے کا نام ہے، اسی طرح ایک اچھی سے اچھی حکومت کو خراب معاشرہ کھینچ تان کر خراب بنا دیتا ہے، ظاہر یہ کوئی ایک دن کا کام نہیں ھوتا سال ہا سال لگتے ہیں۔

(جاری ہے)

اس کی تشخیص ہو تو، اگلا مرحلہ علاج کا ھوتا ھے،
بدقسمتی سے برصغیر میں طویل برطانوی راج رہا ہے جس نے حکومت کرنے کے لیے معاشی ، اور معاشرتی زندگی میں طبقات بنا دئیے، ایک طبقے کو بااثر اور طاقتور بنا کر خوب نوازا جس سے معاشی تفاوت، ناانصافی اور پسماندگی نے جنم لیا، جو بڑھتا بڑھتا ظالم اشرافیہ کا روپ دھار گیا، اسی معاشی ناانصافی نے زندگی کے توازن کو بری طرح متاثر کیا ھے، جو قوم نہیں  بلکہ ایک ھجوم بن کر انصاف کے لئے لڑتا رہا اور یہ جنگ ابھی تک جاری ھے۔


جو اقوام دنیا میں۔موجود ہیں ان سب کی بنیاد معاشی انصاف اور معاشرتی مساوات پر ھے، یورپ سے لیکر امریکہ تک دیکھ لیں، یا قدیم یونان، روم اور فارس کی تہذیب و تمدن کا مطالعہ کر لیں، معاشی انصاف ہی بنیاد نظر آئے گا، ھمارے ھاں تخلیق اور تحقیق تک سب کچھ ایک خاص مزاحمت کے ساتھ چلتا ہے، جس سے جاندار علم اور بے لاگ تاریخ ھمیشہ اوجھل رہتی ہے، یونانیوں نے علم و دانش میں منفرد حیثیت قائم کی، جس کے لیے انہوں نے تخلیق کاروں کو ایک جگہ جمع کیا، ان کو مکمل معاشی اور معاشرتی تحفظ فراہم کیا، تاکہ جاندار علم تخلیق ھو سکے، ھماری دوسری بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ قومی روایات کی تربیت کے لیے تعلیم اور شعور کی ضرورت ہوتی ہے یہ دونوں اختیار بھی اسی اشرافیہ کے پاس رہے، نوزائیدہ مملکت پاکستان کے بے شمار مسائل تھے، سب سے بڑا مسئلہ مہاجرین جو پاکستان کو جنت سمجھ کر آئے تھے، ان کی ابادی کاری، وسائل اور اثاثوں کی تقسیم کا مسئلہ اور کئی انتظامی اور دفاعی مسائل ورثے میں ملے تھے، یہاں تک کہ پہلی کابینہ میں وزیر تعلیم برائے نام تھے، قائد اعظم محمد علی جناح کی مصروفیات، اور بعد میں انتقال نوزائیدہ مملکت کے لیے بڑا جھٹکا تھا، جس کی وجہ سے بنیادی اور ترجیح مقاصد پر توجہ نہیں دی جا سکی، جب یہاں تعلیم کی وزارت محدود تھی تو بھارت میں ابوالکلام آزاد جیسی شخصیت وزیر تعلیم کے منصب پر فائز تھی، پاکستان میں بعد آنے والے حکمرانوں نے تعلیم اور شعور پر توجہ نہیں دی، جس سے جہالت اور بے شعوری نے اشرافیہ کو اور زیادہ طاقت دی، اشرافیہ نے اپنا اقتدار اور اختیار برقرار رکھنے کے لیے لوگوں کو علاقائی تعصبات اور گروہی مسائل میں تقسیم کر دیا، مختلف تہذیب و ثقافت کے لوگ ایک جگہ جمع نہیں ھو سکے، معاشی انصاف ھوتا تو ایک جاہل معاشرہ بھی کسی قانون کا پابند ھوتا مگر انصاف دے کر" ٹوڈی" قسم کے لوگ اپنی طاقت کھونا نہیں چاہتے تھے، جو کہ سلسلہ در سلسلہ آج بھی برقرار ہیں، کسی قومی تصور کو اجاگر نہیں ہونے دیا گیا، جس کی وجہ سے آج ھم وہی ھجوم ہیں معاشی تفاوت نے غریب عوام کو آگے نہیں بڑھنے دیا، وہ انتقام کی صورت میں دوڑتے اور ٹکرا کے واپس آجاتے ہیں، کوئی امید اور خوشخبری ملتی ہے تو دوڑ پڑتے ہیں، ذرا سی بات پر چونک جاتے ہیں، ایک ھجوم میں کوئی پھنس جاتا ہے کوئی دھنس جاتا ہے، بس یہی ھماری قوم ھے جس کے اندر حادثے کے بعد اٹھنے کی جدوجہد یا مزاحمتی گروپ تو موجود ھیں ، قوم نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :