سیاسی دنگل
جمعہ 10 اگست 2018
(جاری ہے)
اگلے چند روز میں پاکستان کی پارلیمانی جمہوری تاریخ کے سب سے ”بوڑھے“ رَہنما، عمران خاں مسندِ اقتدار سنبھالنے جا رہے ہیں۔ سچّی بات ہے کہ ہمیں تو علم ہی نہیں تھا کہ کپتان اتنے بوڑھے ہو چکے لیکن جب ہم نے محترم محمود شام کا کالم پڑھا تو ہمارے چودہ کیا، اٹھائیس طبق روشن ہو گئے۔ اُنہوں نے لکھا کہ ذوالفقار علی بھٹو 43 سال کی عمر میں مسندِ اقتدار پر براجمان ہوئے، ضیاء الحق اور محمد خاں جونیجو ،دونوں نے 53 سال کی عمر میں ہی اقتدار سنبھالا۔ جب محترمہ بینظیر نے وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا تو اُس وقت اُن کی عمر 35 سال تھی۔ نوازشریف 41 سال اور میر ظفر اللہ جمالی 58 سال کی عمر میں وزارتِ عظمیٰ پر فائز ہوئے جبکہ عمران خاں 65 سال کی عمر میں یہ منصب سنبھالنے جا رہے ہیں۔ قوم کپتان کی اِس طویل العمری سے فیض یاب تو ہو سکتی ہے کہ اُنہوں نے اپنی عمرِ عزیز کے 22 سال اِسی دشت کی سیاحی میں گزارے ہیں۔ وہ تاریخِ پاکستان کے واحد شخص ہیں جن کا سیاسی سفر قومی اسمبلی کی ایک نشست سے 115 نشستوں تک پہنچا۔ اِس لیے اُن سے زیادہ سیاسی تجربہ اور کِس کو ہو سکتا ہے؟ مگر ۔۔۔۔۔ مگر مسٴلہ یہ آن پڑا کہ اُن کا سارا سیاسی تجربہ دھرنوں، احتجاجی تحریکوں، سول نافرمانی ،جلاوٴ گھیراوٴ اور غیرپارلیمانی زبان پر مشتمل ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ اُن کے مشیر بھی شیخ رشید جیسے جو پچھلے پورے دورِحکومت میں مارو، مَرجاوٴ جیسی بڑھکیں لگا کر سونامیوں کو اُکساتے رہے۔ اُنہوں نے تو کپتان کو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ احتجاجی تحریک کے لیے ”لاشوں“ کی ضرورت ہوتی ہے، اگر کوئی لاش دستیاب نہ ہو تو اُسے گولی مار کر اُس کی لاش کندھے پر اُٹھا لو۔
جب ایسے صلاح کار ہوں تو پھر مثبت سیاست کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن اب اُس بوڑھے ”نوجوان“ کو مثبت سیاست کا ڈول ڈالنا ہوگا کیونکہ اب وہ اپوزیشن بنچوں پر نہیں، حکومتی بنچوں پر براجمان ہوں گے۔ اُن کا سامنا تاریخِ پاکستان کی سب سے مضبوط اپوزیشن سے ہوگا جو گِن گِن کے بدلے لینے کے لیے تیار بیٹھی ہے۔ اپوزیشن رَہنما بیانات کی حد تک خواہ جتنا جی چاہے مثبت سیاست کا ڈھنڈورا پیٹیں، وہ ایسا کریں گے نہیں۔ یہ مکافاتِ عمل ہے، کپتان نے جو بویا، وہی کاٹنا پڑے گا کیونکہ اُن کی ساری سیاست میر تقی میر کے اِس شعر کی مانند رہی
اتنی بھی بَد مزاجی ہر لحظہ میر تُم کو
اُلجھاوٴ ہے زمیں سے ، جھگڑا ہے آسماں سے
کپتان نے ہمیشہ اپنے ہر سیاسی مخالف رہنماء کے خلاف غیرپارلیمانی الفاظ کا بے محابہ استعمال کیا۔ اُنہوں نے ہر جھوٹا سچا الزام لگانے سے پہلے سوچا تک نہیں کہ کل کلاں اُن کی باری بھی آسکتی ہے۔ نجم سیٹھی کے خلاف 35 پنکچروں کا الزام لگایا اور بعد میں کہہ دیا کہ یہ تو سیاسی بیان تھا۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو مخاطب کرکے کہا ”آپ کتنے میں بِکے؟“۔ آصف زرداری پر الزامات کی بارش کرتے رہے۔ ایک موٴقر روزنامے کے مالک کو متواتر” بکاوٴ مال“ کہتے رہے۔ میاں شہباز شریف پر رشوت پیش کرنے کا الزام دھرا لیکن طُرفہ تماشہ یہ کہ جب یہ لوگ ہتک عزت کا کیس لے کر عدالتوں میں گئے تو کسی ایک کیس میں بھی پیش ہونے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اب اپوزیشن کی گِن گِن کے بدلے لینے کی باری ہے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ وہ لوگ اتنے ”اللہ والے“ ہوں گے کہ سب کچھ بھول جائیں۔ رانا ثنااللہ نے تو صاف کہہ دیا ” ووٹ کو عزت دینے کی بجائے بے توقیر کیا گیا، اِس بے توقیری کو ختم کرنے کے لیے ہر طریقہ استعمال کیا جائے گا۔ نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کسی انتہائی قدم کے حق میں نہیں لیکن دیگر جماعتیں جن اقدامات کی بات کر رہی ہیں، آگے چل کر اُن پر بھی عمل کیا جا سکتا ہے“۔ رانا ثنااللہ کے اِس بیان سے صاف ظاہر ہے کی اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں حصولِ مقصد کی خاطر کسی بھی انتہائی قدم سے گریز نہیں کریں گی۔ اِس لیے قوم کو نئی پارلیمنٹ میں”دُھوم دَھڑکے“ اور ”جوتم پیزار“ کی نوید ہو۔
الیکشن کمیشن نے کامیاب ارکانِ اسمبلی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ عمران خاں نے قومی اسمبلی کے 5 حلقوں سے انتخاب میں حصّہ لیا اور پانچوں ہی سے کامیابی نے اُن کے قدم چومے لیکن الیکشن کمیشن نے لاہور کے حلقہ 131 اور راولپنڈی کے حلقہ 53 کے نتائج روک کر باقی تین حلقوں میں بھی مشروط کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔ حلقہ 53 میں عمران خاں نے انتخابی ضابطہٴ اخلاق کی صریحاََ خلاف ورزی کرتے ہوئے خفیہ ووٹنگ کے تقدس کو پامال کیا اور سرِعام اپنے انتخابی نشان ” بَلّے“ پر مہر لگائی جو جرم ہے اور اِس جرم کی سزا 6 ماہ قید ہے۔ کپتان غالباََ 15 اگست کو وزارتِ عظمیٰ کا حلف اُٹھانے جا رہے ہیں اور الیکشن کمیشن 16 اگست کو اِس ضابطہٴ اخلاق کی خلاف ورزی پر فیصلہ سنانے والاہے۔ اگر یہی جرم میاں شہباز شریف نے کیا ہوتا تو الیکشن کمیشن اُن کو اب تک ”پھڑکا“ بھی چکا ہوتالیکن یہ فیصلہ کپتان کے بارے میں ہے، جن کی راہ میں اگر سَدّ ِ سکندری بھی حائل ہو تو ”مہربان“ اُسے ٹھوکروں سے ہٹا دیں گے۔
تازہ ترین خبر یہ کہ سپریم کورٹ نے لاہور کے حلقہ 131 میں دوبارہ گنتی کا ہائی کورٹ کا حکم معطل کر دیا ہے۔ خواجہ سعد رفیق کے وکیل نے کہا کہ عمران خاں نے خود کہا تھا کہ سارے حلقے کھلوا لیں، انہیں کوئی اعتراض نہیں۔ اِس کے علاوہ جہاں جیت کا مارجن 5 فیصد سے کم ہو، وہاں دوبارہ گنتی کرائی جا سکتی ہے لیکن سپریم کورٹ نے عمران خاں کی درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے ہائیکورٹ کا حکم معطل کر دیا۔ اب دیکھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا ”حسنِ کرشمہ ساز“ کیا فیصلہ صادر فرماتا ہے لیکن کپتان کے سپریم کورٹ جانے سے کم از کم یہ تو طے ہو گیا کہ ”وارث شاہ نہ عادتاں جاندیاں نیں“ کے مصداق یوٹرن کپتان کی نَس نَس میں سما چکا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.