حکومت، اپوزیشن اور عوام

پیر 21 ستمبر 2020

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

امورِ مملکت میں حکومت اور اپوزیشن گاڑی کے دو متوازن پہیوں کی مانند ہوتے ہیں۔ جہاں کہیں حکمران غلطی کرتے ہیں، اپوزیشن اُسے سدھارنے کے لیے حکومت کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کرتی ہے۔ حکومت ہو یا اپوزیشن قومی مفاد میں دونوں ایک صفحے پر ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں معاملہ یکسر مختلف۔ یہاں جسے اقتدار ملتا ہے وہ اُسے دوام بخشنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتا ہے۔

ہمارے ہاں جنگ صرف اقتدار کی اور ہوس ”شیروانی“ کے حصول کی ہوتی ہے۔ سُنا تو یہی تھا کہ جنگ اور محبت میں سب جائزہے لیکن ہمارے ہاں حصولِ اقتدار کے لیے زورآوروں کے دَر پر سجدہ ریزی جائز، جھوٹ بھی جائز، یوٹرن بھی جائز، سہانے سپنے دکھانا بھی جائز اور قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا بھی جائز، قومی مفاد جائے بھاڑ میں۔

(جاری ہے)

یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ کے آدھے سال آمریت کھا گئی اور باقی آدھے جمہوری آمر۔


پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ہمارے جمہوری آمروں نے ہمیشہ اپوزیشن کی ”طبیعت“ صاف کرنے کے لیے احتساب اور انصاف نامی دو حربوں کا استعمال کیا۔ احتساب صرف اپوزیشن کااور حکومتی نمائندے پاک صاف، آسمان سے اُترے ہوئے فرشتے۔ پیپلزپارٹی کا دَورِحکومت ہو یا نون لیگ کا یا پھر دَورِآمریت، ہمیشہ احتساب اور انصاف کے ڈنڈے سے ہی کام لیاگیا۔

ضیاء الحق نے انصاف میں مذہب کا تڑکہ لگایااور نوازلیگ نے سڑکوں پر گھسیٹنے کی بات کی۔ غضب کرپشن کی عجب کہانیاں گلی گلی میں مشہور ہوئیں لیکن قوم کا بھلا نہ ہوسکا۔ کسی کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا نہ چوراہوں پہ لٹکایا گیا۔ پھر تحریکِ انصاف نامی تیسری قوت اُبھر کر سامنے آئی۔ نعرہ اُس کا بھی احتساب ہی تھا۔ آجکل اُسی کی حکومت ہے لیکن احتساب مذاق بن کے رہ گیاہے۔

نیب نامی ادارہ جس کا بانی آمر پرویزمشرف ہے، آجکل تحریکِ انصاف کی جیب میں۔ سارے ”انصافیے“ پاک صاف، دودھ کے دھلے ہوئے اور ساری اپوزیشن کرپٹ۔ ملکی مفاد پر کسی کی نظر نہ کسی کو پرواہ۔ نیب کے بارے میں اعلیٰ عدلیہ کے ریمارکس سب کے سامنے لیکن اُس کے کان تک جوں تک نہیں رینگتی۔ حکومتی وزراء کے کنڈکٹ پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے فرمایا ”کنڈکٹ پر استعفے کی بات ہو تو سبھی وزراء کو استعفیٰ دینا پڑے گا۔

استعفیٰ اخلاقی بنیادوں پر دینا ہوتا ہے لیکن پاکستان ابھی اخلاقیات کے اُس معیار تک نہیں پہنچا“۔
جس وقت سب سے زیادہ ضرورت قومی وملّی یکجہتی کی ہے، ہمارے ہاں چورچور اور کرپٹ کرپٹ کھیلا جا رہاہے۔ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر یہ بحث جاری کہ میاں نوازشریف بیمارہیں یا نہیں۔ حکومتی ”بونے“ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ میاں نوازشریف بالکل تندرست وتوانا ہیں اور لندن میں ”ہوٹلنگ“ کرتے پائے گئے ہیں۔

ہمیں نہیں معلوم کہ میاں صاحب واقعی بیمار ہیں یا نہیں لیکن حیرت تو اِن حکومتی بونوں پر ہوتی ہے جنہوں نے خود میاں نوازشریف کو علاج کی غرض سے باہر بھیجا۔ خود وزیرِاعظم نے اعلانیہ طور پر کہا کہ میاں نوازشریف واقعی بیمار ہیں لیکن آج وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اُن کے ساتھ دھوکہ ہوا۔ سوال مگر یہ کہ دھوکہ دینے والے ہاتھ کون سے ہیں؟۔ میاں صاحب بیمار ہوئے تو اُنہیں نیب کی جیل سے سروسزہسپتال منتقل کیا گیا۔

پھر میڈیکل بورڈ بنا جس کا انتخاب خود حکومت نے کیا۔ حکومتی لیبارٹریز سے میاں صاحب کے میڈیکل ٹیسٹ کروائے گئے۔ پنجاب کی وزیرِصحت ڈاکٹر یاسمین راشد ہر روز تین تین دفعہ میاں صاحب کی مخدوش حالت پر بریفنگ دیتی رہیں۔ یہ ڈاکٹر یاسمین راشد کا ہی بیان تھا کہ میاں صاحب کے پلیٹ لیٹس دوہزار تک گِر چکے ہیں۔ کراچی سے معروف معالج ڈاکٹر طاہرشمسی کو بلایا گیا جس نے میاں صاحب کی مخدوش حالت کی تصدیق کی۔

شوکت خانم کینسر ہسپتال کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر فیصل سلطان نے بھی میڈیکل رپورٹس دیکھ کر وزیرِاعظم کو میاں صاحب کی مخدوش حالت کے بارے میں بتایا۔ پھر وفاقی کابینہ کے اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا کہ میاں صاحب کو علاج کی غرض سے باہر جانے کی اجازت دی جائے۔ اب کہا جا رہاہے کہ دھوکہ ہوگیا۔ اگر واقعی ایسا ہے تو دھوکے باز سب کے سامنے، اُن کا کڑا احتساب کیوں نہیں ہورہا؟۔

ڈاکٹر یاسمین راشد ابھی تک پنجاب کی وزیرِصحت کیوں ہیں؟۔ حال ہی میں ڈاکٹر ظفرمرزا کی جگہ ڈاکٹر فیصل سلطان کا انتخاب کیوں کیاگیا؟۔ میڈیکل بورڈ کا احتساب کیوں نہیں ہورہا؟۔جو لیبارٹریز اِس دھوکہ دہی میں ملوث تھیں، اُنہیں نشانِ عبرت کیوں نہیں بنایاگیا؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جس وزیرِاعظم کو اتنی آسانی سے دھوکہ دیا جا سکتاہے، وہ ایٹمی پاکستان کا سربراہ کیوں؟۔

کسی بھی عقیل وفہیم کو یہ ہضم نہیں ہورہا جو حکومتی حلقوں کی طرف سے کہا جا رہاہے۔ ہمیں یاد ہے کہ یہی سیاسی بونے پھُدک پھُدک کر کہتے رہے کہ بیگم کلثوم نواز بیمار نہیں ہیں، بیماری کا محض بہانہ ہے۔ میاں نوازشریف اور مریم نواز کو پاکستان میں قید کی سزا سنائی گئی تو وہ بیگم کلثوم نوازکو بسترِمرگ پر چھوڑ کر سزا بھگتنے پاکستان چلے آئے۔ کلثوم نواز لندن میں انتقال کر گئیں تو یہی سیاسی بونے کونوں کھدروں میں مُنہ چھپانے لگے۔

خواجہ آصف نے کہا تھا ”کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے“ لیکن شرم وحیا کو گھول کر پینے والے یہی سیاسی بونے پھر پھُدک رہے ہیں۔ شاید وہ کسی اور سانحے کے انتظار میں ہیں۔ کہے دیتے ہیں کہ لندن میں بیٹھے بیمار نوازشریف سے کہیں خطرناک پاکستان واپس آنے والا نوازشریف ہوگا۔ میاں شہبازشریف تو آج بھی مصلحتوں کی ”بُکل“ مارے بیٹھے ہیں جس کی وجہ سے نون لیگ کا ورکر پریشان اور مایوس ہے۔

اگر میاں نوازشریف وطن لوٹنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو نوازلیگ کے تنِ مردہ میں جان پڑ جائے گی جسے سنبھالنا تحریکِ انصاف کے لیے اگر ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہوجائے گا۔ اِس لیے بہتر یہی ہے کہ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ نہ ہی ڈالا جائے۔ میاں صاحب بیمار سہی لیکن جب وہ مریم نواز کی سرپرستی کرنے پاکستان آجائیں گے تو قیدوبند کی صعوبتوں کے باوجود نہ جھکنے والی مریم نواز دھاڑتی ہوئی باہر نکلیں گی۔

ابھی تو وہ صرف ٹویٹ سے ایوانِ وزیرِاعظم کو لرزہ بَراندام کرتی ہیں لیکن جب وہ میدانِ عمل میں ہوں گی تو کیا اندونی خلفشار کا شکار تحریکِ انصاف اُنہیں سنبھال پائے گی؟۔
خطرات کی اندرونی وبیرونی آندھیوں میں گھری دھرتی ماں کا تقاضہ ہے کہ کم ازکم ہم اندرونی طور پر یک جان ہوجائیں۔ بھارتی ریشہ دوانیاں روزبروز بڑھتی جا رہی ہیں۔ اُسے اقتصادی راہداری کسی صورت قبول نہیں۔

اُدھر امریکہ بھی چین جیسی اقوامِ عالم پہ چھاتی طاقت سے خوفزدہ ہے۔ وہ بھی کسی صورت میں اقتصادی راہداری کی تکمیل نہیں چاہتا۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی کوئی کَل سیدھی نہیں۔ عالمِ اسلام کے ہمارے قریب ترین دوست بھی ہم سے نالاں۔ اندرونی طور پر مہنگائی کے عفریت کے ہاتھوں مجبورومقہور عوام پریشان۔ حیرت مگر یہ کہ اربابِ اختیار آنکھیں موندھے بیٹھے ہیں۔ کسی کو یہ ادراک ہی نہیں کہ پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ وزیرِاعظم صاحب کا ٹارگٹ محض ایک ، اپوزیشن۔ ”نہیں چھوڑوں گا“ اور ”این آراو نہیں دوں گا“ اُن کا تکیہ کلام بن چکا۔ حالانکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ این آراو دینا یا نہ دینا اُن کے دائرہٴ اختیار میں ہے ہی نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :