
پی ڈی ایم کا پاور شو
پیر 19 اکتوبر 2020

پروفیسر رفعت مظہر
(جاری ہے)
قارئین! ہم نے پچھلے ہی کالم میں وعدہ کیا تھا کہ اب سیاسی کالم بند لیکن ”ٹُٹ پینے“گجرانوالے کے جلسے نے ہمیں مجبور کر دیا جس پر ہمیں کوئی ندامت نہیں کیونکہ اگر ہمارے وزیرِاعظم ایک ہزار یوٹرن لے سکتے ہیں تو ہمیں بہرحال ایک یوٹرن لینے کی رعایت تو ملنی چاہیے۔ گجرانوالے کا پاورشو کامیاب تھا یا ناکام، اِس پر بعد میں بات ہوگی پہلے ہم آپ کو اپنی ایک خوشی میں شریک کرنا چاہتے ہیں جو یہ کہ ہمارے 2 سال سے مفقود الخبر پرویزخٹک اچانک جلوہ افروز ہوئے حالانکہ ہم تو سمجھ بیٹھے تھے کہ ہماری وزارتِ دفاع وزیرِ دفاع کے بغیر ہی روبہ عمل ہے۔ اُنہوں نے نوشہرہ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ پی ڈی ایم کا پہلا جلسہ ہی ناکام ہوگیا۔ جس وقت پرویزخٹک یہ فرما رہے تھے، اُس وقت واقعی پی ڈی ایم کا جلسہ ناکام بلکہ ناکام ترین تھا کیونکہ جلسہ تو ابھی شروع ہی نہیں ہوا تھا۔ اِسی طرح کی ”حرکت“ ہمارے پنجاب کے وزیرِاطلاعات ونشریات فیاض چوہان نے بھی فرمائی۔ اُس نے جلسہ شروع ہونے سے بہت پہلے کی تصاویر میڈیا پر شیئر کردیں۔ اِن تصاویر میں خالی خالی کرسیاں اور ”ٹانواں ٹانوں“ بندے نظر آرہے تھے۔ ہمارا شرارتی الیکٹرانک میڈیا واقعی اِس قابل ہے کہ اِس کو رگڑے پہ رَگڑا دیا جائے کیونکہ یہ شرارتوں سے باز نہیں آتا۔ ایک طرف وہ فیاض چوہان کی شیئر کی ہوئی تصاویر دکھا رہا تھا اور دوسری طرف جناح سٹیڈیم گجرانوالہ کے اندر اور باہر لوگوں کا جمِ غفیر۔ پچاس ہزار کی گنجائش والا سٹیڈیم لبالب اور بقول حامد میر سٹیڈیم کے اندر سے کہیں زیادہ لوگ باہر موجود۔ جب حامد میر یہ بتا رہے تھے اُس وقت شام کے 7بجے تھے اور مریم نواز، بلاول زرداری، مولانا فضل الرحمٰن کی ریلیاں ابھی سٹیڈیم سے کوسوں دور تھیں۔ غیرجانبدار ذرائع کے مطابق جب مریم نواز گجرانوالہ پہنچیں تو اُن کی ریلی میں 10 سے 12 ہزار افراد تھے، بلاول کی ریلی میں 8 ہزار اور مولانا فضل الرحمٰن کی ریلی میں بھی لگ بھگ 8 ہزار لوگ تھے جن کی سٹیڈیم میں گنجائش نہیں تھی اِس لیے اُنہیں سٹیڈیم کے باہر ہی کھڑا ہونا پڑا۔ اگر حماداظہر یہ کہتے ہیں کہ 15 سے 20 ہزار لوگ تھے تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔
ہم فیاض چوہان کو مخلصانہ مشورہ دیں گے کہ وہ اپنی عینک کے شیشوں کے نمبر تبدیل کروالیں کیونکہ اِن شیشوں میں اُنہیں دھندلا نظر آتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ کیسے کہہ سکتے تھے کہ مریم نواز، بلاول زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کی 50,50 گاڑیوں کی ریلیوں کوروکنے کی پنجاب حکومت کو کوئی ضرورت نہیں۔ انتہائی غیرجانبدار ذرائع کے مطابق صرف مریم نواز کی ریلی میں 1018 گاڑیاں تھیں اور الیکٹرانک میڈیا بھی اِس کی تصدیق کر رہاتھا۔ یہ تینوں ریلیاں اتنی طویل تھیں کہ ایک گھنٹے کا سفر آٹھ سے دَس گھنٹوں میں طے ہوا جس پر فوادچودھری نے طنز کیا کہ مریم، بلاول اور فضل الرحمٰن نے گاڑیوں کو گھوڑاگاڑی بنا لیا ہے اور چونکہ جلسہ گاہ ابھی تک نہیں بھر سکی اِس لیے ریلیاں سُست روی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔ حقیقت مگر اِس سے یکسر مختلف کہ میڈیا کے مطابق شام سات بجے تک جلسہ گاہ لبالب تھی اور سٹیڈیم کے باہر عوام کا جمِ غفیر۔ اگر یہ ریلیاں بَروقت پہنچ جاتیں تو پورا گجرانوالہ جلسہ گاہ میں ڈھل جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب یہ ریلیاں جلسہ گاہ پہنچیں تو بہت سے لوگ تھک ہار کر واپس جا چکے تھے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ مجمع کتنا بڑا تھا لیکن انتہائی پُرجوش ضرور تھا۔
شبلی فرازنے کہا ”میں چیلنج کرتا ہوں کہ پی ڈی ایم جناح سٹیڈیم گجرانوالہ کو نہیں بھر سکتی“ لیکن عوام کا رجحان دیکھ کر اُنہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ جلسہ گاہ کو بھرا ہوا دکھانے کے لیے سٹیج سٹیڈیم کے درمیان میں بنا دی گئی ہے۔ یہی بات فودچودھری نے بھی کہی لیکن وہاں پر موجود میڈیا نے بھانڈا پھوڑ دیا اور حامد میر نے کہا کہ جس جگہ سٹیج بنایا گیا ہے عین اُسی جگہ عمران خاں کے آخری جلسے کی سٹیج تھی لیکن جلسہ گاہ بھر نہیں سکی۔ کیمرے کی آنکھ نے یہ بھی دکھا دیا کہ جہاں سٹیج بنایا گیاتھا، اُس سے پیچھے بن ہی نہیں سکتاتھا۔ بہتر ہوتا کہ میڈیا کو جلسے کی لائیو کوریج سے روک دیا جاتا تاکہ حکومت کے وزیروں شزیروں کے جھوٹ پر پردہ پڑا رہتا۔ اِن اصحاب سے عرض ہے کہ جھوٹ اتنا بولیں جو ہضم ہو سکے۔
پی ڈی ایم کے اِس جلسے کا جو فائدہ ہمیں نظر آتاہے وہ یہ ہے کہ اب شاید محوِ استراحت حکمران جاگ جائیں اور ”نہیں چھوڑوں گا“ کی رَٹ لگانے کی بجائے کچھ کر کے دکھائیں۔ خود حکومتی حلقے بھی بَرملا کہہ رہے ہیں کہ پچھلے 2 سالوں میں حکومتی کارکردگی صفر ہے۔ چور چور، ڈاکوڈاکو اور این آراو نہیں دوں گا جیسے نعرے اب پِٹ چکے۔ تحریکِ انصاف کی حکومت اگر اپنی بقیہ مدت پوری کرنا چاہتی ہے تو اُسے اب کچھ نہ کچھ کرکے دکھانا ہوگا۔ پی ڈی ایم تو حکومت کو اِس دسمبر تک کا وقت دینے کو بھی تیار نہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ جلسے جلوسوں اور ریلیوں سے حکومتیں تبدیل نہیں ہوا کرتیں البتہ اُن میں ”ڈَنٹ“ ضرور پڑ جاتے ہیں اور عام انتخابات میں وہ مُنہ کے بَل جاگرتی ہیں۔ موجودہ حکومت تو ویسے ہی ”بھان مَتی“ کا کنبہ ہے جس کی کوئی کَل سیدھی نہیں۔ اِس لیے اب اگر یہ قائم رہ سکتی ہے تو صرف اپنی کارکردگی کے بَل پر بصورتِ دیگر بہتر یہی ہے کہ حکمران خود ہی مستعفی ہوکر عوام سے نیا مینڈیٹ حاصل کر لیں لیکن ایسا ہونا ممکن نہیں کیونکہ اِس میں کپتان کی ضِد، انا اور نرگسیت آڑے آجاتی ہے۔ ویسے بھی پاکستان کی تاریخ ہے کہ کوئی حکمران خود نہیں جاتا، بھیجا جاتاہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.