
ہم ڈرتے ورتے کسی سے نہیں
منگل 5 اکتوبر 2021

پروفیسر رفعت مظہر
(جاری ہے)
ہمارے کپتان بھی ڈرتے ورتے کسی سے نہیں۔ اُنہوں نے جب سے کاروبارِ حکومت سنبھالا ہے، اُن کی دبنگ آواز سے اپوزیشن تو ہراساں ہے ہی، امریکہ میں بھی ”تھرتھلی“ مچی ہوئی ہے۔ایک انٹرویو کے دوران اُن سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ امریکہ کو فوجی اڈوں کے لیے اپنی سرزمین استعمال کرنے دیں گے؟۔ اُن کا جواب تھا” Absolutely not“۔ دراصل وزیرِاعظم صاحب کو امریکی صدر جوبائیڈن پر غصہ ہی بہت ہے جس نے ابھی تک خان صاحب سے ٹیلی فون پر بھی بات تک کرنا گوارا نہیں کیا۔ ایسے مغرورومتکبر شخص کے لیے جواب تو یہی بنتا تھا جو خاں صاحب نے دیا،سوال مگر یہ کہ کیا ان حالات میں جب پاکستان پوری دنیا میں تقریباََ تنہا ہو چکا، یہ جواب مناسب تھا؟۔ دوسری بات یہ کہ اُس وقت تو امریکہ نے اڈے مانگے ہی نہیں تھے البتہ اب وہ افغانستان میں القاعدہ کے ٹھکانوں پر حملوں کے لیے پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت مانگ رہاہے۔ وزیرِخارجہ شاہ محمود قریشی نے تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کو پاکستانی فضائی حدود کی اجازت کا فیصلہ کابینہ کرے گی۔ حالانکہ اُن کا جواب یہ ہونا چاہیے تھا کہ اِس کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی۔ اگر سب کچھ کابینہ نے ہی کرنا ہے اور اپوزیشن کی رائے مقصود نہیں تو پھر پارلیمنٹ کو تالے لگا دیئے جائیں۔
کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد وزیرِاعظم نے فرمایا کہ ذہنی غلامی کی زنجیریں توڑنا مشکل مگر افغانستان نے توڑ دیں۔ پہلے Absolutely not اور اب یہ بیان جس سے صاف نظر آتا ہے کہ امریکی اور نیٹو افواج کو افغانستان میں شکست ہوئی، امریکہ کو یہ بیانات ہضم نہیں ہورہے۔ اِسی لیے اب امریکہ میں طالبان اور پاکستان کو سبق سکھانے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔ امریکہ میں مضبوط بھارتی لابی کے علاوہ بھارت نژاد امریکی نائب صدر کملا ہیرس بھی پاکستان کے خلاف منصوبہ بندی میں شریک ہے۔ امریکی سینٹ میں ری پبلکن سینیٹرز نے ایک بل پیش کیا ہے جس میں افغانستان میں طالبان کی حکومت کو کسی صورت تسلیم نہ کرنے اور طالبان پر اقتصادی پابندیاں لگانے کی تجویز دی گئی ہے۔ اِسی بِل میں پاکستان کے طالبان سے متعلق کردار کا جائزہ لے کر اُس پر بھی پابندیاں لگانے کی تجویز ہے۔ بِل میں یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ امریکی حکومت پاکستان، چین اور طالبان کے مقابلے میں ہندوستان کی معیشت اور دفاع کو مضبوط کرے۔
مانا کہ خان صاحب ڈرتے ورتے کسی سے نہیں لیکن ہماری حکومت تو تاحال FATF کو بھی سنبھالنے سے قاصر ہے۔ اِس کے علاوہ خودکشی کرنے کی بجائے ہم خود آئی ایم ایف کے پاس جا کر اپنی گردن امریکی شکنجے میں کسوا چکے۔ ایسے میں ہم امریکہ کا کیا خاک مقابلہ کریں گے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ امریکہ کی دوستی اچھی نہ دشمنی۔ یہ وہ جنگجو قوم ہے جو اپنی 240 سالہ تاریخ میں صرف 16 سال سکون سے گھر بیٹھی، باقی تمام عرصہ کسی نہ کسی ”پنگے“ میں مصروف ہی رہی۔ اِس لیے اُس سے حذر ہی بہتر کیونکہ ہم نے دینِ مبیں کے مطابق کبھی اپنے گھوڑے تیار رکھنے کی سعی نہیں کی۔اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہمیں امریکہ سے ڈر کر یا دَب کر رہنا چاہیے بلکہ ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ایسے بیانات سے گریز کرنا چاہیے جو امریکہ کو مشتعل کرنے کا باعث بنیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ پاکستانی معیشت کی حالت اتنی دگرگوں کہ مہنگائی کا سونامی سب کچھ بہا کر لے جانے کے درپے۔ ڈالر جب 121 روپے کی سطح پر پہنچا تو ماہرین نے خبردار کر دیا تھا کہ دسمبر 2021ء تک ڈالر 200 روپے کی سطح عبور کر جائے گا۔ اب ڈالر 172 روپے سے بھی آگے نکل رہا ہے جس نے اشیائے ضروریہ اور خورونوش کی قیمتوں کو پَر لگا دیئے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ 2018ء میں جب تحریکِ انصاف نے اقتدار سنبھالا تو اُس وقت پٹرول کی قیمت 95 روپے فی لِٹر تھی جبکہ آج وہی پٹرول 127.80 روپے فی لٹر فروخت ہو رہا ہے۔ وفاقی وزیرِتوانائی حماد اظہر کہتے ہیں کہ آج بھی اکثر ممالک سے پاکستان میں تیل کی قیمت کم ہے۔ بجا ارشاد لیکن کیا باقی ممالک میں بھی مہنگائی کا یہی طوفان ہے؟۔ کیا وہاں بھی گندم، چینی، دالیں اور دیگر اشیائے خورونوش دَرآمد کی جارہی ہیں؟۔ کیا وہاں کی حکومتوں نے بھی ایک کروڑ نوکریوں کا جھانسا دے کر بیروزگاری کا طوفان کھڑا کیا؟۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی کو بتایا کہ پاکستان میں پڑھے لکھے بیروزگار افراد کی شرح 24 فیصد اور پڑھی لکھی خواتین کی بیروزگاری کی شرح 40 فیصد تک پہنچ چکی ہے جبکہ حکمرانوں کے نزدیک بیروزگاری کی یہ شرح صرف 6 فیصد ہے۔ پہلے حکمران کٹے، وَچھے، انڈے اور مرغیاں پال کر معیشت کی بحالی کے منصوبے باندھ رہے تھے، اب بھنگ کی کاشت سے اربوں ڈالر کمانے کا منصوبہ سامنے آگیا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر شبلی فراز نے بھنگ کی کاشت کے منصوبے کا باقاعدہ افتتاح بھی کر دیا اور کلیام کے علاقے میں ایک ایکڑ پر بھنگ کاشت بھی کردی گئی۔ بہتر یہی ہے کہ بھنگ کو برآمد کرنے کی بجائے پوری قوم کو ”بھنگ گھوٹنے“ پر لگا دیا جائے تاکہ قوم بھنگ پی کر سوئی رہے اور حکمران مَن مرضی کرتے رہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.