ہماری معاشرتی اقدار کا زوال

پیر 18 جنوری 2021

Professor Shahid Ahmad Solehria

پروفیسر شاہد احمد سلہریا

روزمرہ مشاہدے کی بات ہے کہ معاشرتی اقدار کلی زوال کی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔بحیثیت قوم ہم اپنا تشخص بری طرح پامال کر چکے ہیں۔ فرد جو معاشرے کی بنیادی اکائی ہے اپنے ذمہ داریوں سے اس قدر غافل و بے نیاز ہے کہ معاشرتی اقدار کا ڈھانچہ زمین بوس ہو چکا ہے۔ تاریخی تناظر میں تحقیق کی جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ برصغیر پاک وہند میں شمالی پنجاب کا علاقہ بالخصوص اور موجودہ پاکستان کا علاقہ بالعموم ہمیشہ سے غلامانہ سوچ اور عمل کا عملی نمونہ پیش کرتا آیا ہے۔

مذکورہ جغرافیائی اکائی نے ماضی میں ہمیشہ طاقتور حملہ آوروں کو نہ صرف خوش آمدید کہا بلکہ خود غلام بننا قبول کیا اور اپنی قوم سے غداری تک کو اپنا پیشہ اور شیوہ بنایا۔
 دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے ایک ہزار سال  تک اس علاقے پر حکومت کی ۔

(جاری ہے)

جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حکومت بلاشبہ مسلمانوں نے ہی کی تھی مگر وہ مسلمان اس علاقے کی پیداوار نہیں تھے وہ غوری تھے، غزنوی تھے ،ایبک تھے،تغلق،خلجی،لودھی اور مغل تھے۔

ان میں اکثریت (دور و نزدیک سے)
ترکی النسل تھے۔ اس علاقے کی اقوام میں سے  کسی نے بھی اس علاقے میں  اپنی حکومت نہ قائم کی نہ حملہ آور اقوام کی مزاحمت کی، بلکہ غلامانہ اورخوشآمدانہ رویہ اس خطہ زمین کے بسنے والوں کے رگ وریشے میں کچھ اس طرح رچ بس گیا کے کے جرات،مزاحمت، حمیت اور غیرت جیسے اوصاف اور رویے رفتہ رفتہ ماند پڑتے گئے حتیٰ کے معدوم ہوگئے شائد  یہ صدیوں کی ہندوؤں کی شودرانہ غلامی کا اثر تھا یا کوئی اور نامعلوم حقیقت کہ اس خطہ زمین میں کوئی نامور جنگجو فاتح اور سلطان پیدا ہی نہ ہوا شاید اسی غلامانہ ماضی کا تسلسل اور اثر ہے کہ آج اگر ہم وطن عزیز پاکستان کے عوام کی نفسیات پرغور کریں تو ایک واضح تسلسل کے نشان اور چھاپ ابھی بھی دکھائی دیتی ہے۔

وہی غلامانہ،خوشامدانہ سوچ اور رویے آج بھی حکمرانوں اور طاقتوروں کے تلوے چاٹتے دکھائی دیتے ہیں۔
سیاسی حکمرانوں اور رہنماؤں سے نسبت اور تعلق کوئی معیوب بات نہیں مگر ہر رویے میں اگر اعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا جائے تو وہ بے اعتدالی اور انتہا پسندی کا مظہر اتم ہوجاتا ہےآج ہم لوگ اپنے اپنے سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کی پیروی میں اس قدر متشدد اور انتہا پسند ہو گئے ہیں کہ جو حق صرف اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا وہ ہم ان رہنماؤں کو دینا شروع ہوگئے ہیں یہ حق صرف اللہ کے نبی کا ہے کہ اس کی ہر بات درست بھی ہوتی اور اس سے اختلاف کرنا منع بھی اور موجب کفر بھی ہے۔

ہم اپنے اردگرد روز اس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ نواز شریف کے پیروکار اسکو معصوم عن الخطا (ہر خطا سے پاک) ثابت کرتے نظر آتے ہیں اسکی ہر بات کو سچ اور درست سمجھتے ہیں چاہے وہ صریحاً غلط اور جھوٹ ہی کیوں نہ ہو  اسے سچ ثابت کرنے کی سر توڑ کوشش کرتے ہیں یہی حال بلاول و زرداری کے پیروکاروں کا سندھ میں ہے اور یہی حال عمران خان کے پیروکاروں کا پورے ملک میں ہے۔

افسوس اندھی تقلید کی روش نے ہمیں میراثی بنا دیا ہے جو گاؤں کے چوہدری کا بے دام غلام ہوتا ہے۔ ہمیں اپنے نبی کی غلامی قبول نہیں ان نام نہاد رہنماؤں کی غلامی پر فخر ہے ۔ان کی غلامی میں ہمیں اپنی آزادی دکھائی دیتی ہے۔
افسوس۔۔۔۔۔۔بقول اقبال
واۓ ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
 کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
خدارا اپنی اصلاح کیجیے۔

مرد مومن کی پہچان ہے کہ وہ حق بات کہتا ہے حق ہی کو حق کہتا اور سمجھتا ہے۔باطل کی حمایت مومن کر ہی نہیں سکتا۔۔۔
 اے مسلمان کیا ہوا اس غیرت و حمیت کا؟
اس قدر زوال ۔۔۔اس قدر غلامی۔۔۔
اغیار کے افکار و تخیل کی گدائی
کیا تجھ کو نہیں اپنی خودی تک بھی رسائی
حق کا ساتھ دیں شخصیات کا نہیں۔۔۔
 حق کی حمایت کریں رہنماؤں کی نہیں۔

۔۔
رہنما تو ہوتا ہی وہ ہے جو حق بات کرے
راست گو اور راست  عمل ہو ۔۔۔اگر آپ  جسے اپنا رہنما اور شیخ مانتے ہیں وہ غلط بات کرے تو اس کی اندھی تقلید نہ کریں جو حق صرف  اللہ کے نبی ؐ کا ہے وہ غیر نبی کو نہ دیں ورنہ آپ ایمان کی حلاوت سے محروم ہو جائیں گے۔اپنے مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کی اطاعت میں اللہ اور رسول کے احکامات کی نافرمانی نہ کریں ۔

خود کو بدلیں، دوسروں کو نہیں۔
آپ بدل گئے تو آپ کے ان رہنماؤں کو بھی بدلنا پڑے گا
براہ کرم غور فرمائیں کب وہ وقت آئے گاجب ہم اندھی تقلید کی روش کو چھوڑ کر اپنے لیڈروں کے میراثی بننے کی بجائے ایک آزاد وطن کے آزاد اور محب وطن شہری بنیں گے۔اپنے دین و وطن پر ان(نام نہاد) لیڈروں کی محبت کو ترجیح نہیں دیں گے۔تعصب سے پاک آزادانہ اپنا نظریہ بنانے کے قابلِ ہوسکیں گے۔ان اقتدار کے طالب رہنماؤں کی نظر سے ہر چیز کو دیکھنا ترک کریں گے
یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تو۔۔۔
گلہ مجھ کو تو تجھ سے ہے، یورپ سے نہیں ہے۔۔۔
اس سوچ کو پھیلائیں اور اپنی سوچ کے ساتھ اپنے ارد گرد کے لوگوں کی سوچ کو بدلنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :