سانحہ موٹروے کے اسباق:سوشلزم نہیں تو بربریت!

جمعہ 18 ستمبر 2020

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

چلتے پانیوں میں بھی خس وخاشاک ہوتے ہیں، مگروہ پانیوں کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں۔ چلتا پانی ہر فالتو چیز کو بھی اپنی ڈگر کے مطابق چلاتا ہے اگر وہ ناچلے تو اسکو کنارے سے باہر دھکیل دیتا ہے۔مگر کھڑے پانی میں گندگی ہی پانی کا چہرہ بن جاتی ہے۔ پانی کے اوپر چھائی کائی ہی کھڑے پانی کا تعارف ہوتی ہے،پانی بدبودار اور ناقابل استعمال بنتا جاتا ہے۔

     زندہ سماجوں کے ارتقاء کے فیصلہ کن اور قابل ذکر حصے ‘سماج کی ناقص اور غیر فعال پرتوں کو بھی اپنے بہاؤ میں بہا کر فعال کردیتی ہیں۔ منجمد سماج‘ جن کا بڑاحصہ غیر فعال ہوچکا ہو‘ وہاں کمتر اور فالتو حصے‘ سماجوں کا چہرہ بننے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔سماجوں کے ناکارہ،غلیظ اور فالتوحصوں کی بالادستی سے سماجوں کی مہکتی سانسیں رک جاتی ہیں۔

(جاری ہے)

تعفن اور آلودگی کی باس پورے سماج کو اپنے لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ ہم ایک ٹھہرے ہوئے سماج میں جی رہے ہیں،جس کی شناخت ہی خونریزی،انیائے،ظلم،جبر،قتل وغارتگری اور غیر انسانی ہتھکنڈے بند چکے ہیں۔ اس وقت پورا پاکستان‘ جبر،تشدد اور جرائم کی لپیٹ میں ہے۔ یہ رجحانات سرکاری اور غیر سرکاری دونوں ہی سطحوں پر حاوی ہیں۔ ایک طرف سرکاری اداروں یا سرکاری اہلکاروں کے طرف سے قائم کردہ غیر قانونی عقوبت خانے، سرراہ یا گھروں سے عام لوگوں کا اغوا، غیر قانونی گرفتاریاں اور بلاجواز قتل کے واقعات ہیں۔

جن کاارتکاب وہی لوگ یا ادارے کررہے ہیں جن کو'' قانون نافذ کرنے والے'' قراردیا جاتا ہے۔ عمومی طور پر سرمایہ دارانہ ریاستوں کے حقیقی کردار کو چھپانے کیلئے قانون،ضابطوں،آئینی پابندیوں اور مخصوص طریقوں کے ماسک لگائے جاتے ہیں۔مگر جیسے جیسے سرمایہ داری نحیف اور ناکارہ ہوتی جارہی ہے،اسکی وحشت میں اضافہ ہوتے ہوتے اسکا اصل چہرہ چھپانا مشکل ہوتا جارہا ہے۔

اب وہ تمام افعال‘ جن کو جرائم کہا جاتا ہے انکو قانونی ادارے کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ پورے ملک میں جس قسم کی وحشیانہ کاروائیاں سرکاری ادارے کررہے ہیں ماضی میں ایسے کرتے ہوئے کم سے کم حلیے بدل لئے جاتے تھے اور وردیاں اتارلی جاتی تھیں۔اس انارکی یا طوائف الملوکیت کا دوسرا رخ یا اسی کیفیت کی بازگشت اتنی ہی شدت سے سماج کے غیر سرکاری حصوں میں اپنے اثرات مرتب کررہی ہے۔

    عہد کے تشخص کی ایک کیفیت سرکاری اور غیر سرکاری طاقت وروں کے افعال سے سمجھی جاسکتی ہے۔ چھوٹے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور بعدازاں قتل،محلوں،کھیتوں،فیکٹریوں اور شاہراہوں پرخواتین کی بے حرمتی
 اورآبروریزی،سٹریٹ کرائم،چھینا جھپٹی،چوری ،ڈکیتی اور اغوابرائے تاوان کی وارداتوں کاسلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے۔ عبادت خانوں میں جہاں اعلی اخلاقیات کا درس دیا جاتا ہے ‘تواتر سے طلباء کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کا ارتکاب ہورہا ہے۔

تضاد ات اپنے عروج پر ہیں۔ایک طرف رضامندی سے دوانسانوں کے باہم جنسی عمل کو گناہ اور جرم قراردے کر قابل تعزیر گردانا جاتا ہے تو دوسری طرف جنسی عمل کو زبردستی کرنے کا رجحان بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔    ان دردناک واقعات کے پیچھے'' زورزبردستی'' کا فلسفہ فتح یاب اور حاوی طور پر نظرآتا ہے۔ خاص طور پر کسی بھی عام شخص،خاتون یا بچہ جو سماجی یا طبقاتی طور پر کمزور ہے اسکو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

چھوٹی اور کمزور قوموں، مذہبی اقلیتوں، فرقوں اور گروہوں کے خلاف بھی اکثریت کی دھونس کے مختلف مظاہر نظرآتے ہیں ۔ یہ طاقت جس کے پیچھے سرکاری (جائیز یا ناجائیز)اختیارات، دولت اور وسائل کا اجتماع،مذہبی،جنسی یا قومی برتری کا احساس' پہناں ہوتا ہے، وہ کمزوروں کو دبانے اور کچلنے میں بروئے کار لائی جاتی ہے۔ ''زبردستی'' ،چھینا جھپٹی اور من مرضی کے پیچھے جہاں ایک طرف ہزارسالوں کی سامراجی یلغاروں،قبضوں اورفتوحات کی تاریخ اورثقافت ہے 'جس سے یہ سبق اخذ کیا گیا ہے کہ طاقت ہے تو ہر کسی کو کچل کر من مرضی کرلی جائے ۔

ایک پراپگنڈہ ریاست ہونے کی وجہ سے عمومی نفسیات پربرصغیر کے بٹوارے کے اثرات بھی ہیں ۔جس میں خون ریزی،قبضہ گیریت،اغوا،آبروریزی،سامنے والے کوکچل دینے کی نفرت کوتاریخی ورثہ کے طور پر شعوری یا لاشعوری طور پر اپنا لیا گیا ہے۔یہ سبق اگلی نسلوں کو انسان سے وحشی بنانے میں بہر حال کم یا زیادہ اثرات ضرورمرتب کرتا چلاآرہا ہے۔ جب برصغیر کے دونوں طرف بٹوارے کے فسادات کی کہانیوں میں وحشیانہ مناظر کی تصویر کشی کرکے کسی خاص مذہب یا گروہ کو مظلوم اور دوسرے کو گناہ گار بنا کر پیش کیا جاتا ہے تو ایک انتقامی سوچ کی بنیادیں ضرور رکھ دی جاتی ہیں۔

ذہن کے نہاں خانوں میں چھپا یہ انتقام کہیں نا کہیں ،کسی نا کسی شکل میں اپنا اظہار ضرور کرتا ہے۔ ذاتی ملکیت اور شرح منافع کے نظام کو ہر صورت میں برقراررکھنے کاوشوں میں انسان کاپتھرکے عہد سے تمدن کی طرف مراجعت کاسفرسرمایہ داری کے بعد'منزل کھوچکا ہے۔اس مسافت کی منزل کھوٹی کرنے والے عوامل کو دورکئے بغیر سفر‘ سرابوں کا شکار ہی رہے گا۔

دولت کے ارتکاز اور محرومی کی کھائیوں کے تضادات نے' سماجی ناہمواریوں کے جس سماج کو تشکیل دیا ہے، وہاں انسان' انسان بننے سے عاجز ہوچکا ہے۔پورے پاکستان میں سرکاری اور غیر سرکاری 'طوائف الملوکی ' کا راج اسکا گواہ ہے۔    موٹر وے پر پیش آنے والا حالیہ
 دل ہلادینے والا سانحہ،ایسے ہی دل سوز اور المناک واقعات کا ایک تسلسل ہے ،جو چیخ چیخ کر ریاست ،حکمرانی اور انکے قائم کردہ ضابطوں کے زائد المعیاد ہونے کا اعلان کررہے ہیں۔

ایسے میں تشدد اور جبر کے ایک ریاستی ادارے ’پولیس‘ کے سی سی پی او لاہورکے غیر ذمہ دارانہ بیان پر شوروغوغا کرنے کی بجائے ریاست اورسماج کی حقیقی اقدار اوراخلاقیات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سی سی پی او نے تو صرف اسی موقف کا اظہار کیا ہے جو پاکستانی سماج کے کروڑوں لوگوں کا بھی ہے۔ اس ذہنی پسماندگی کی وجوہات کی جڑیں تلاش کرنے اور ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔

اسی طرح سخت اور سرعام سزاؤں کے مطالبات سطحی ردعمل اور جرائم کی بیخ کنی کے اصولوں سے ناواقفیت کا مظہر ہیں۔سزاؤں کی بجائے جرائم کے اسباب ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی طبقاتی سماج میں ''قانون اور انصاف'' بے معنی اصطلاحیں ہیں 'جن کا مشاہدہ ہر روز دیکھنے میں آتا ہے۔ سزاؤں سے جرائم کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔سزاؤں ،جزاؤں اور انصاف کے نظام کا ایک منظرعبدالمجید اچکزئی کی بریت کا فیصلے میں دیکھا جاسکتاہے۔

ایک اور موقف جو یک سرانتہا پسندی پر مبنی ہے اسکا اظہار اپراور مڈل کلاس خواتین کے مظاہروں میں کیا جاتا ہے ۔ اس موقف میں صرف مردانہ شاونزم کی جگہ پر زنانہ شاونزم کو رائج کرنے کی خواہش پائی جاتی ہے۔ شاونسٹ خواتین کے نعرے اور تقاریر کا لب لباب ہے کہ سماج سے مردوں کو ختم کردیا جائے اور بس عورت راج قائم ہوجائے۔ یہ غیر متوازن موقف‘ جو منڈی کی معیشت اور ذاتی ملکیت کے مضمرات پر بات کرنے کیلئے تیار نہیں ‘اسی نظام میں رہتے ہوئے مڈل کلاس خواتین کا ایک ’صنفی یوٹوپیا‘ بنانے کے مخمصے میں پھنسا ہوا ہے۔

حکمران طبقے کے ’طے شدہ‘ معاشرتی اصولوں کی خلاف ورزی ،ہمہ قسم کے جرائم،استحصال،غیرمنصفانہ برتاؤ، غیر متوازن رویوں اور غیر شائستہ سماجی چلن کے مظاہر پر حیران ہونے، ٹسوے بہانے،مایوسی کا اظہار کرکے پرانے زمانوں کو یاد کرکے خود کودھوکہ دیا جاتا ہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ صنفی،قومی،فرقہ ورانہ،نسلی،لسانی تضادات کے عوامل کیا ہیں اور یہ کیسے دور ہوسکتے ہیں۔

دیکھنے والی بات یہ ہے کہ معاشی ناہمواریوں کے اثرات سماج اور سماجی عاملین پر باہم کیسے اثرانداز ہوتے ہیں اور انکا حل کیا ہے۔
         سماجی بگاڑ کی جڑیں سماج کی ’بُنت‘ میں ہی موجود ہوتی ہیں۔تاریخی اصولوں سے عدم مطابقت رکھنے والے ”مخصوص نظریات“کسی بھی حاکمیت کی اپنی ضروریات ہوسکتے ہیں۔ مگر ان خودساختہ نظریات کی بنیادوں پر کسی سماج کو لمبے عرصے تک(پراپگنڈے اور ریاستی جبر کی بناپر) چلایا تو جاسکتا ہے مگر پیدا ہونے والے تضادات کولاامتاعی طور پر دبا کرنہیں
 رکھا جاسکتا۔

حکمران طبقہ ہر عہد میں عام سوچ کو گمراہ کرنے کیلئے بہت سے ”نظریات “ کوگھڑتا ہے اور اسکو پوری منصوبہ بندی سے عام شعور کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ جب ریاستیں ہی مصنوعی بنیادوں پر استوار کی جائیں تو وہاں کا اقدار،اخلاقیات،نفسیات، روزمرہ کی زندگی اور اسکے اصول،ثقافت اور دیگر مظاہر بھی مصنوعی،جعلی اور بے بنیاد ہوتے ہیں۔اسی نام نہادنظریے کی بنیاد پر پر محنت کش اکثریت طبقے ،عوام، مختلف اقوام ،جنسوں،متفرق نسلوں،متنوع زبانوں،مقبوضہ یا متنازعہ علاقوں کے ”حقوق“ کاتعین حکمران طبقہ از خود ہی کردیتا ہے۔

اور پھر اسی حد کو قانون کے سیاہ حاشیے میں مقید کردیا جاتا ہے۔ جس سے انحراف،بغاوت،سرکشی،جرم اور (حکمرانوں کے نذدیک)قابل تعزیر ردعمل معرض وجود میں آتے ہیں۔     دوسری طرف ذاتی ملکیت، ذاتی تصرف، املاک یا اثاثوں کو ذاتی ملکیت میں رکھنے کی انفرادی سوچوں اورغرض وغائت نے انسان سے سماجی،اشتراکی،اجتماعی خوشی سے حذ اٹھانے کی صلاحیت ہی چھین لی ہے۔

انسان دولت کے انباروں میں بھی رہ کر انفرادی طور پر خوش نہیں رہ سکتا،بلکہ جیسا کہ مارکس نے کہا تھا کہ”اپنی ہی محنت سے حاصل کردہ پیدوار سے مزدورکاتعلق ٹوٹ جاتاہے اور وہ اس سے بیگانہ ہوجاتا ہے۔ وسائل زندگی سے محروم ،غربت،بے بسی اور کسمپرسی کا شکار مزدور جب اپنی محنت ،کوشش سے تخلیق کردہ مصنوعات،اشیاء اور پیداوار سے لاتعلق اور بیگانہ ہوجاتا ہے اور پیداواری عمل میں اسکی محنت ایک غیر دلچسپ بیگار بن جاتی ہے ۔

اسی طرح مسلسل جدوجہد کے بعد بھی اپنی ابتلائیں دورکرنے، معاشی،معاشرتی،خاندانی مسائل حل کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے تو ایک وقت کے بعد وہ تبدیلی کی خواہش بھی کھو بیٹھتا ہے اور ہر چیز سے بے گانہ ہوجاتا ہے۔مزدور کی بیگانگی ذات اسکی سوچ،نفسیات اور جزبات پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔     دوسری طرف دولت کاانبار،طاقت کاارتکا،وسائل اوراختیار‘ لاامتناعی ہوجانے سے جس غیرانسانی رویے استوار ہوتے ہیں، استحصال کی’ آکسی جن ‘اور جبر واستعبداد کے طریقہ کار کے بعد سرمایہ دار طبقہ بھی انسانی حسیات ومظاہر سے بیگانہ ہوجاتا ہے۔

سرمایہ دارانہ ”بیگانگی “کے نتیجے میں ایک ایسی دنیا معرض وجود میں آئی ہے جس میں ضروریات یا مانگ کا خاتمہ کرنے کے قابل پیداواری صلاحیت بھی ہے اور آدھی دنیا غذائی قلت کاشکارہے۔بھوک ،افلاس،بیماریوں، غربت،پسماندگی جہالت کا خاتمہ کیا جاسکتاہے۔ وسائل ضرورت سے کہیں زیادہ موجود ہیں مگرسرمایہ دارانہ بے نیازی اور بے گانگی کی وجہ سے یہ انسانی ضروریات کی تکمیل نہیں کی جارہی ۔

سرمایہ داری نظام اور اسکے منتظمین کی بے گانگی کو محنت کشوں کے مسائل،ابتلاؤں،غربت،فاقہ کشی،بیماریاں اور دیگر مسائل سے کوئی غرض نہیں۔شرح منافع کی حرص میں مبتلا سرمایہ دار بظاہر انسانی جسامت میں ہوتے ہیں مگر انسانی’ مظاہر‘ سے محروم ہوچکے ہوتے ہیں۔        جب گہری طبقاتی تفریق سے سماج میں اونچ نیچ ناصرف معاشی بنیادوں پر آبادیوں میں بہت زیادہ فرق پیدا کردے۔

جہاں ایک طرف وسائل کی بہتات سے زندگی کی ہر ضرورت سے مزین رہائشی علاقے،کروڑوں اربوں روپے کے بیش قیمت محلات،مہنگی مہنگی لمبی چوڑی گاڑیاں، زرق برق ملبوسات، حتہ کہ چہرے اور جسمانی ساخت اور رنگ روپ تک سے وسائل کی سرخی ٹپکتی ہو، رہن سہن اورروزمرہ استعمال کی اشیاء تک بھی قیمت اور معیار کے اعتبار سے مختلف ہوں،مہنگے علاقوں کے رہنے والے امراء کے بچوں کی تعلیم،تعلیمی ادارے اورزبان تک یکسر مختلف ہو۔

دوسری طرف کے انسانوں کے دن کا بیشتر حصہ روزگار کی تلاش میں گزرتا ہو،کام مل جائے تو غیر انسانی حالات کار،اتنی کم اجرت ‘کہ دن کی حقیر قسم کی ضروریات اور معمولات بھی پورے ہونا ‘ممکن نا ہوں۔ناقص،مضرصحت اور ناکافی خوراک،پینے کا پانی بھرنے میں گھنٹوں پر مبنی ذلت آمیز مشقت۔غلاظت،بدبو ،کچے پکے غیر مناسب راستوں والے رہائشی علاقے۔ حالات زندگی اور غیر صحت مندانہ ماحول ،خوراک کی وجہ سے روزمرہ کی بیماریاں ،مہنگا اور غیر معیاری علاج معالجہ۔

شرح اموات کی زیادتی۔یاتو تعلیم یکسر موجود نا ہو اگر ہوتو معمولی درجے کی جس کی بنا پرمختلف جہتوں والے سماج میں یہ تعلیم مضحکہ بن کر رہ جائے۔یہ مختلف سیاروں کی دنیا کاایک ہی جگہ پر ہونا جس (دونوں طبقات میں ) جس ذہنی کیفیات کو پیدا کرتا ہے وہاں امیر اور غریب دونوں ہی انسانی اوصاف وخصائل کھو بیٹھتے ہیں۔ اتنی تفاوت والے سماج میں خوشی،غم،درد،جذبات،احساس،کرب،ایثار‘ غرض کہ انسانی اوصاف ختم ہوجاتے ہیں۔

”بیگانگی ذات“ کے شکار افراد سماج میں”باولے “ کاکردار ادا کرتے ہیں۔ بیگانگی ذات سب سے ابتر کیفیت ہوتی ہے، جب انسان اپنی حسیات ہی کھوبیٹھے توپھر اس سے کچھ بھی سرزد ہوسکتا ہے۔معاشی برتری جس سماجی برتری اور مرتبے کو جنم دیتی ہے ‘وہاں برتروں کے غریبوں،مزدوروں،کسانوں،مزارعوں،کم آمدنی والے یا پھرطبقاتی معاشروں میں چھوٹے اور کمتر سمجھے جانے والے پیشوں،ذاتوں،فرقوں،قوموں اور برادریوں سے منسلک انسانوں کے ساتھ روا رکھا جانے والے رویے ، ظلم وزیادتی ،ہتک،تحقیر وتذیل جیسے مظاہرے اور کھلے عام عزت نفس کو مجروح کیا جانے کا تکرار‘ ایک طرف ظالم اور جبر کرنے طبقے کے غیر معمولی اختیار،برتری اور وحشیانہ خصائل کواسکا ”حق فائق“ بنا کر اسکے کردار کا لازم حصہ بنا دیتا ہے تو دوسری طرف تحقیرزدہ طبقے میں بہت سے متضاد کیفیت کے ردعمل پنپتے رہتے ہیں۔

مگر ظلم کے خلاف جدوجہد‘ سب سے مناسب اور درست ردعمل ہے۔ مگر بدقسمتی سے یہ ردعمل کسی ایک اصول کے تحت پروان نہیں چڑھتا۔اس کا تعین معروضی عوامل کرتے ہیں۔     توہین،تحقیر اور مظالم کے خلاف خود کچھ ناکرسکنے کا بے وسیلہ
پن متعلقہ شخص یا اشخاص کو بعض اوقات جرائم کی دنیا کی طرف لے جاتا ہے جو ’مجروح‘ شخص کو وہ طاقت ،وسائل فراہم کرتی ہے جس سے وہ اپنا ”بدلہ “ لینے کے قابل ہوجائے۔

مگر کہا جاتا ہے کہ جرائم کی دنیا میں آنے کا راستہ ہے مگر واپسی کے راستے مسدود ہوجاتے ہیں۔ ظلم کا بدلا لینے والے بہت جلد خود بہت بڑے ظالم اور جابر بن جاتے ہیں۔پھروہ انہی افعال کے سرزدگی کا باعث بنتے ہیں جنہوں نے انکی عزت نفس کو پامال کرکے ایک معمول کی زندگی سے جرائم کی دنیا میں دھکیل دیا ہوتا ہے۔اسی طرح سماج سے دھتکارے ہوئے افراد اپنی محرومیوں کا بدلہ لینے کیلئے کسی بھی ایسی سرگرمی کا حصہ بن سکتے ہیں جہاں انکو وقتی طور پر ”اپنے ہونے اوراپنی طاقت“ کا احساس ملتا ہو‘ خواہ انکے اس عمل کے کتنے ہی بھیانک نتائج کسی اورمعصوم اور بے گناہ کو بھگتنے پڑرہے ہوں۔

سزائیں اور انصاف کے موجودہ ادارے ایسے عوامل کی بیخ کنی کرنے یا راستہ روکنے میں یکسر ناکام ہوچکے ہیں۔     دوسری طرف ایک منظم صنعتی ادارے کے مظلوم اور استحصال زدہ مزدور ‘جن کا طبقاتی استحصال بھی ہورہا ہوتا ہے اور کام کے دوران بھی انکی تحقیراور تذلیل ہوتی ہو، مزدورظلم
وانیائے کے خلاف ردعمل ذاتی بنیادوں پرظاہر کرنے کی بجائے اپنے دشمن طبقے کی طرح ہی اپنے طبقے کو منظم کرکے نظریاتی،سیاسی اور طبقاتی جدوجہد کے
 ذریعے دیتے ہیں۔

یہ ردعمل جو کبھی ٹریڈ یونین کی جدوجہد سے شروع ہوتا ہے۔دیہی زندگی میں پیداواری رشتوں کی اونچ نیچ کی وجہ سے سے ڈھائے جانے والے مظالم اور استحصال کے خلاف کسان تحریکوں سے ردعمل کا جنم ہوتا ہے یا پھر سماج میں کسی ایک معمولی وجہ بھی اس ردعمل کو مشترکہ نجات کی جدوجہد
 کی طرف گامزن کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ مگریہ ردعمل اشتراکی بنیادوں کے باعث اپنے ارتقاء کی ضروری منازل کو طے کرتے ہوئے سماج اور نظام کی تبدیلی کی جدوجہد کے ساتھ وابستہ ہوجاتا ہے۔

یہ ردعمل کی ایک اعلی شکل ہے اور جس کا نتیجہ ان تمام عوامل کے خاتمے پر منتنج ہوتا ہے جو استحصال اور اونچ نیچ کی بنیادوں کو ہی ختم کردیتا ہے۔یوں طبقات کے مٹتے ہی سماجی اونچ نیچ اپنے نشانات چھوڑے بغیر مٹ جاتی ہے۔ ایک غیر طبقاتی سماج جس کو سوشلزم کے سائنسی نظریات سے مرصع کیا جائے وہاں ظلم،زیادتی،برتری،نیچا دکھانے کی
نفسیات کی پیدائش کی وجوہات ہی ختم ہوجاتی ہیں۔


خواہ مخواہ کے اور خود ساختہ نظریات کی بجائے اکثریت کے مفاد پر مبنی اصولوں کی بنیاد پر نظریات استوارکرنا ازحد ضروری ہے۔ سب سے مقدم سماج کی ضروریات پوری کرنے والے ا کثریتی طبقے کے حقوق ہونے چاہئے ناکہ ایک حقیر استحصالی ٹولے کے مفادات کے گرد سماجوں کو پابند سلاسل کردیا جائے۔اسی طرح ارتکاز دولت واختیار کو توڑکرہی حقیقی انسانی سماج کی بنیادیں رکھی جاسکتی ہیں۔جس کیلئے اس طبقاتی نظام کا خاتمہ ازحد ضروری ہے۔موجودہ انارکی کو اگر سوشلزم کے ذریعے شکست نہ دی گئی تویہ بتدریج بربریت کی تباہی پر پہنچ کر پورے سماج کی تباہی کا باعث بن جائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :