
بلا عنوان
پیر 20 اپریل 2020

رائے ارشاد بھٹی
میرے خیال میں تو بلاعنون ہی ٹھیک رہے گا بات روٹی کپڑا مکان اور انسان کی دوسری ناگزیر ضرورتوں کی ہو رہی ہے تو ذرا سوچو۔۔! سوچو تو سہی محسوس تو کرو روٹی کتنی مہنگی ہو گئ ہے کہ اس کی خاطر لوگوں کو اپنی آنکھیں گردے بیچنے پڑتے ہیں کپڑا اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ اب تو مجھے لگنے لگا ہے کہ ہمارے مردے بھی بے کفن دفن کیے جایا کریں گے روٹی کپڑے کی بات تو چھوڑو اب تو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں اور ہے بھی تو مہنگا روشنی تک مہنگی ہو چکی ہے اب تو ہمارے اندر اتنا سوکھا پن پایا جاتا ہے کہ آنسو تک مہنگے ہو گئے ہیں
ہم اس تیرہ نصیبی میں مبتلا ہیں کہ اب تو بینائی تک مہنگی ہو گئی ہے میں کہتا ہوں کہ بار بار سوچو احساس کرو ایسا کیوں؟ ہوا ہے ۔
(جاری ہے)
ہزار برس سے ہم نے تاریخ کے دسترخوان پر سوائے حرام خوری کے کچھ نہیں کیا، ہم تو صدیوں سے اس کرہ ارض پر بوجھ ہیں ذرا سوچو کیوں؟ کیونکہ کائنات کی ترقی میں ہمارا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے اس کے پس پردہ بھی ایک المیہ ہے اور وہ المیہ یہ ہے کہ صدیوں سے ہم نے موجد نہیں مجاور اور مجاھد پیدا کیے ہیں ہم اس کرۂ ارض پر inventor بن کر نہیں ابھرے بلکہ consumer بن کر جی رہے ہیں
اور یہ بات اٹل اور قطعی ہے کہ consumerقومیں کبھی ترقی کی منازل طے نہیں کر پاتیں
ہم پچھلی دو صدیوں سے اپنی ایجادات پر نظر دوڑائیں تو ہمیں گھڑا، مُوڑا اور ہماچہ ہی نظر آئیں گی اس کی مربوط اور ٹھوس وجوہات یہ ہیں کہ ہم نے مذہب کی خود ساختہ تفہیم و تشریح کے ذریعے جدید علم ، سائنس ٹیکنالوجی اور ایجادات کے آگے بند باندھ رکھا ہے بات روٹی کپڑے اور مکان کی ہو رہی تھی تو اس وقت جب میں یہ لائینیں لکھ رہا ہوں تقریباً رات کے دو بج رہے ہیں اور اس وقت ملک میں لاکھوں گھروں کے چولہوں میں بجھی ہوئی راکھ کے سوا کچھ نہ ہوگا اور نہ جانے آجکل ملکی حالات کے پیش نظر لگاتار فاقوں کے سبب کتنی ماؤں کی چھاتیاں اپنے دودھ پیتے بچوں کے حق میں سوکھ چکی ہوں گی ایسی مہنگائی ہے ایسا کال ہے کہ ماؤں اور ان کے جایوں کے رشتے سوکھ کر رہ گئے ہیں غریب کیلۓ سادہ روٹی کا نوالہ چلغوزہ بن کر رہ گیا ہے جگہ جگہ گلی گلی فاقوں کے ڈسپلے جاری ہیں آٹا ایٹم بجلی بم انسانوں کے دکھ اور غم بڑھا رہے ہیں
اس ملک میں بہت کم لوگ عیش و آرام یا آسودگی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور باقی تمام لوگوں پر بھیانک نہوت کی وہ افتاد پڑی ہے کہ وہ مرمر کے جی رہے ہیں اور جی جی کے مررہے ہیں
میں سمجھتا ہوں کہ بھوک اور بھوکے ہر ملک اور ہر سماج میں پاۓ جاتے ہیں مگر دوسری قوموں کے بھوکوں اور ہماری قوم کے بھوکوں میں فرق ہے ہماری قوم کے بھوکوں کو ذرا بھی بھوک نہیں لگتی ان کے معدے تاریخ انسانیت کے عجیب و غریب معدے ہیں ذرا سوچو۔! اگر ہماری قوم کے بھوکوں کو بھوک لگتی تو ایسا نہ ہوتا جیسا ہورہا ہے آخر ایسا کیوں ہے۔؟ شائد اس لیے کہ ہم بےحس اور بے حیاء ہوگۓ ہیں ہم اذیت اورعقوبت سہنے کے ہنر میں مشاق طاق اور یکتا ہیں اس ہنر میں ہماری مہارت شہر آفاق ہے کسی کہ قول ہے کہ ہمارا اپنی قبروں کے کتبے لکھنے میں کوئی جواب نہیں
ہم اس بات میں بے مثال اور بےہمال ہیں مگر اب ہمیں اپنے حقوق کی خاطر اپنی آواز بلند کرنی ہوگی اپنے اندر کی بے حسی کو ختم کر کے احساس جگانا ہوگا اپنا وجود قائم رکھنے کیلۓ دنیا کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا پڑے گا مذہب کی خود ساختہ تفہیم کو چھوڑ کر جدید علم اور ٹیکنالوجی کو مشعل راہ بنانا پڑے گا ہمیں موجد قوموں کی لسٹ میں نام لکھوانا ہوگا خدا کی قسم اگر ایسا نہ ہوا تو ایک دن ایسا بھی آۓ گا کہ ہمیں اپنے کفن بھی ایمپورٹ کرنے پڑیں گے اور ہم ماضی کی کئی قوموں کی طرح آثارقدیمہ کی طرح تاریخ کی کتابوں میں پڑھاۓ جائیں گے
ذرا سوچو۔؟ پھر ہمارا عنوان کیا ہوگا یا بلاعنوان۔؟
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
رائے ارشاد بھٹی کے کالمز
-
کامریڈ واحد بخش بھٹی
پیر 7 فروری 2022
-
ماڈل ٹاؤن سے ماڈل ٹاؤن تک
ہفتہ 9 اکتوبر 2021
-
عذاب کے گیارہ سو دن
ہفتہ 2 اکتوبر 2021
-
دستانوں والے ہاتھ
منگل 21 ستمبر 2021
-
لیہ کا دورہ بلاول بھٹو اور بدلتا سیاسی منظر
ہفتہ 18 ستمبر 2021
-
نظریاتی جیالے پھر اگنور
پیر 13 ستمبر 2021
-
افغانی سٹوڈنٹس اور ہماری قوم
بدھ 18 اگست 2021
-
جشن آزادی 14 اگست کو یا 15 اگست کو ؟
منگل 10 اگست 2021
رائے ارشاد بھٹی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.