بلا عنوان

پیر 20 اپریل 2020

Rai Irshad Bhati

رائے ارشاد بھٹی

بھلا میں اپنی اس تحریر کو کیا عنوان دوں روٹی،کپڑا اور مکان نہیں نہیں یہ بات تو جس نے بھی کی اسے نشان عبرت بنا دیا گیا، “بلا عنوان ،، ہاں یہ ٹھیک رہے گا یاپھر آپ جو چاہیں عنوان دے سکتے ہیں
میرے خیال میں تو بلاعنون ہی ٹھیک رہے گا بات روٹی کپڑا مکان اور انسان کی دوسری ناگزیر ضرورتوں کی ہو رہی ہے تو ذرا سوچو۔۔! سوچو تو سہی محسوس تو کرو روٹی کتنی مہنگی ہو گئ ہے کہ اس کی خاطر لوگوں کو اپنی آنکھیں گردے بیچنے پڑتے ہیں کپڑا اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ اب تو مجھے لگنے لگا ہے کہ ہمارے مردے بھی بے کفن دفن کیے جایا کریں گے روٹی کپڑے کی بات تو چھوڑو اب تو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں اور ہے بھی تو مہنگا روشنی تک مہنگی ہو چکی ہے اب تو ہمارے اندر اتنا سوکھا پن پایا جاتا ہے کہ آنسو تک مہنگے ہو گئے ہیں
ہم اس تیرہ نصیبی میں مبتلا ہیں کہ اب تو بینائی تک مہنگی ہو گئی ہے میں کہتا ہوں کہ بار بار سوچو احساس کرو ایسا کیوں؟ ہوا ہے ۔

(جاری ہے)

میرے خیال مطابق ایسا یوں ہے کہ ہم بے حس ہوگئے ہیں اتنے بے حس کہ اپنی معمولی سے معمولی حق کی بات بھی پوری دل گیری کے ساتھ ہمارے لبوں تک نہیں آتی ہماری روداد بڑی بری روداد ہے تاریخ کی بدترین حرکتیں ہم سے ظہور ہو رہی ہیں اور ہم خامشی کا زہر پئے سب کچھ دیکھ رہے ہیں نا جانے ہمارا وجود کیوں؟ ہے ہم آخر دنیا کی کس کمی کو پورا کررہے ہیں  کبھی سوچو۔

۔! ہم نے اس دنیا میں اپنا کتنا حصہ ڈالا ہے آخر ہم سماج کے کس پھٹے ہوئے گریباں کی بخیہ گری کرنے میں لگے ہوئے ہیں
ہزار برس سے ہم نے تاریخ کے دسترخوان پر سوائے حرام خوری کے کچھ نہیں کیا، ہم تو صدیوں سے اس کرہ ارض پر بوجھ ہیں ذرا سوچو کیوں؟  کیونکہ کائنات کی ترقی میں ہمارا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے  اس کے پس پردہ بھی ایک المیہ ہے اور وہ المیہ یہ ہے کہ صدیوں سے ہم نے موجد نہیں مجاور اور مجاھد پیدا کیے ہیں ہم اس کرۂ ارض پر inventor بن کر نہیں ابھرے بلکہ consumer بن کر جی رہے ہیں
اور یہ بات اٹل اور قطعی ہے کہ consumerقومیں کبھی ترقی کی منازل طے نہیں کر پاتیں
ہم پچھلی دو صدیوں سے اپنی ایجادات پر نظر دوڑائیں تو ہمیں گھڑا، مُوڑا  اور ہماچہ ہی نظر آئیں گی اس کی مربوط اور ٹھوس وجوہات یہ ہیں کہ ہم نے مذہب کی خود ساختہ تفہیم و تشریح کے ذریعے  جدید علم ، سائنس ٹیکنالوجی اور ایجادات کے آگے بند باندھ رکھا ہے بات روٹی کپڑے اور مکان کی ہو رہی تھی تو اس وقت جب میں یہ لائینیں لکھ رہا ہوں تقریباً رات کے دو بج رہے ہیں اور اس وقت ملک میں لاکھوں گھروں کے چولہوں میں بجھی ہوئی راکھ کے سوا کچھ نہ ہوگا اور نہ جانے آجکل ملکی حالات کے پیش نظر لگاتار فاقوں کے سبب کتنی ماؤں کی چھاتیاں اپنے دودھ پیتے بچوں کے حق میں سوکھ چکی ہوں گی ایسی مہنگائی ہے ایسا کال ہے کہ ماؤں اور ان کے جایوں کے رشتے سوکھ کر رہ گئے ہیں غریب کیلۓ سادہ روٹی کا نوالہ چلغوزہ بن کر رہ گیا ہے جگہ جگہ گلی گلی فاقوں کے ڈسپلے جاری ہیں آٹا ایٹم بجلی بم انسانوں کے دکھ اور غم بڑھا رہے ہیں
اس ملک میں بہت کم لوگ عیش و آرام یا آسودگی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور باقی تمام لوگوں پر بھیانک نہوت کی وہ افتاد پڑی ہے کہ وہ مرمر کے جی رہے ہیں اور جی جی کے مررہے ہیں
میں سمجھتا ہوں کہ بھوک اور بھوکے ہر ملک اور ہر سماج میں پاۓ جاتے ہیں مگر دوسری قوموں کے بھوکوں اور ہماری قوم کے بھوکوں میں فرق ہے ہماری قوم کے بھوکوں کو ذرا بھی بھوک نہیں لگتی ان کے معدے تاریخ انسانیت کے عجیب و غریب معدے ہیں ذرا سوچو۔

! اگر ہماری قوم کے بھوکوں کو بھوک لگتی تو ایسا نہ ہوتا جیسا ہورہا ہے آخر ایسا کیوں ہے۔؟ شائد اس لیے کہ ہم بےحس اور بے حیاء ہوگۓ ہیں ہم اذیت اورعقوبت سہنے کے ہنر میں مشاق طاق اور یکتا ہیں اس ہنر میں ہماری مہارت شہر آفاق ہے کسی کہ قول ہے کہ ہمارا اپنی قبروں کے کتبے لکھنے میں کوئی جواب نہیں
ہم اس بات میں بے مثال اور بےہمال ہیں مگر اب ہمیں اپنے حقوق کی خاطر اپنی آواز بلند کرنی ہوگی اپنے اندر کی بے حسی کو ختم کر کے احساس جگانا ہوگا اپنا وجود قائم رکھنے کیلۓ دنیا کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا پڑے گا مذہب کی خود ساختہ تفہیم کو چھوڑ کر جدید علم اور ٹیکنالوجی کو مشعل راہ بنانا پڑے گا ہمیں موجد قوموں کی لسٹ میں نام لکھوانا ہوگا خدا کی قسم اگر ایسا نہ ہوا تو ایک دن ایسا بھی آۓ گا کہ ہمیں اپنے کفن بھی ایمپورٹ کرنے پڑیں گے اور ہم ماضی کی کئی قوموں کی طرح آثارقدیمہ کی طرح تاریخ کی کتابوں میں پڑھاۓ جائیں گے
ذرا سوچو۔

؟ پھر ہمارا عنوان کیا ہوگا یا بلاعنوان۔؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :