مولانا فضل الرحمن کا وعدہ، معاہدہ اور ڈیڈ لائن

پیر 11 نومبر 2019

Rana Zahid Iqbal

رانا زاہد اقبال

 آج کل ہمارے ہاں کی سیاست میں معاہدوں، وعدوں اور ڈیڈ لائنوں کا بہت چرچا ہے۔ مولانا نے معاہدہ، وعدہ توڑ کر ڈیڈ لائن دے دی۔ معاہدہ کسی اصول پر عمل پیرا رہنے کے لئے کیا جاتا ہے جب کہ پہلا جلسہ کرتے ہی مولانا فضل الرحمن نے معاہدہ توڑ دیا لگتا ہے معاہدہ صرف اسلام آباد میں گھسنے کا اجازت نامہ تھا۔ جمعیت علمائے اسلام نے اس سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ اقتدار میں بھی جمہوریت کو بہت نقصان پہنچایا تھا اور ایسا ہی اب موجودہ دور میں کر رہے ہیں۔

مولانا کے سیاسی کیرئیر کے پس منظر میں تمام مارشل لاء حکومتوں سمیت پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ق)، مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اقتدار میں رہنا شامل ہے۔ ایک شخص کی مختلف پارٹیوں اور اشخاص سے نظریاتی ہم آہنگی بڑی معنی خیز ہے۔ 
ہمارے عوام میں شخصیت پرستی ہے جو غلامانہ انداز اختیار کئے ہوئے ہے۔

(جاری ہے)

یہاں قانون اور آئین شکنی کو آزادی سمجھا جا تا ہے، اربابِ اختیار کی لاقانونیت اور لوٹ مار پر بھی دم نہیں یا ان کی معمولی غلطی پر بھی شور مچاتے ہیں۔

اعتدال جو فرد اور معاشرے کو ارتقائی عمل کا حصہ بناتا ہے وہ دھندلانے لگتا ہے۔ فرد اور معاشرہ دونوں کا ہر ردِ عمل غیر معمولی ہوتا ۔ آج بھی ہم جمہوریت کی بحالی کے دعوے کرتے ہیں لیکن ہم میں سے کسی کو بھی جمہوری معاشرے میں رہنے کے طور طریقے نہیں آئے۔ بد قسمتی سے ہم جمہوریت کی بیشتر خصوصیات اور خوبیوں سے بے بہرہ ہے۔ ہم یہاں کوئی بھی کام اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر نہیں کرتے۔

کسی کے منصب کو خطرہ ہو تو وہ صوبائی کارڈ استعمال کرنے کا کہتا ہے، دوسرا پاکستان ٹوٹ جانے کا خطرہ دکھاتا ہے، تیسرا ملک سے علیحدہ ہونے کی دھمکی دیتا ہے اور چوتھا اسلحہ اٹھانے کی بات کرتا ہے۔ سیاست دانوں نے کبھی سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ نہیں کیا جس کی وجہ سے یہاں جمہوری نظام ناکام ثابت ہوتا رہا ہے۔ پھر اس حقیقت سے کون انکار کرے گا کہ خود سیاست دان اور سیاسی جماعتیں ہی جمہوری طور پر منتخب حکومتوں کی ٹانگیں کھینچ کر یہاں آمریت کے قیام کی راہیں استوار کرتی ہیں۔

خود فوجی حکمران یہ دعویٰ کرتے رہے کہ وہ اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینا نہیں چاہتے تھے لیکن سیاست دانوں کی حرکات نے انہیں مجبور کیا۔ اس حوالے سے یہ معاملہ سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے لئے طعنہ بن چکا ہے جس سے جان چھڑانے کی بجائے حالیہ دنوں میں ایک بار پھر سیاسی جماعتیں اسی طرزِ عمل کا مظاہرہ کر رہی ہیں اور بے بنیاد الزامات پر دھرنا دئے ہوئے ہیں۔

دھاندلی جس کا موجودہ اپوزیشن شور مچا رہی ہے کیا ماضی میں کوئی بھی حکومت گزری ہے جس کو اس الزام کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو۔ اس معاملے میں سیاسی سطح پر مثبت تبدیلی آنی چاہئے تھی اور اس امر کا ادراک کرنا چاہئے تھا کہ کہ سیاسی بقاء اسی میں ہے کہ جمہوری نظام کو چلنے دیا جائے۔ جمہوریت کو مستحکم اور جمہوری روایات کو فروغ دینے کی کوشش کی جانی چاہئے اسی میں جمہوریت کی فلاح ہے۔

 وقت تیزی سے گزر رہا ہے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی زیادہ ذمہ داری ہے وہ گزشتہ 40 سالوں سے کسی نہ کسی طرح اقتدار میں ہیں ان کی اعلیٰ قیادت کو حالات کی نزاکت کا احساس کرنا چاہئے۔ کنٹینر پر لسانی، مذہبی، نسلی تصادم کی باتیں کی جا رہی ہیں، اداروں کے بارے میں جس طرح باتیں کی جا رہی ہیں یہی باتیں تو بیرونی دنیا کروانا چاہتی ہے کیونکہ انہیں ان مضبوط اداروں سے ہی تو مسئلہ ہے۔

بیرونی دنیا کے لیڈرز اور اپوزیشن اختلافات کے باوجود قومی مفادت کے معاملے میں انتہائی محتاط ہوتے ہیں۔ دیگر ترقی یافتہ جمہوریتوں کی طرح بھارتی سیاستدان بھی حساس پہلووٴں پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے بنیادی پالیسیوں کو اس طرح پیش کرتے ہیں جیسے کہ حکومت اور اگر حکومت اور قومی اداروں پر تنقید ہوتی ہے تو وہ بھی قومی مفادت کو سامنے رکھ کر کی جاتی ہے۔

ترقی یافتہ ملکوں میں جمہوریت انتہائی اعلیٰ معاشرتی رجحانات اور عادات میں ظاہر ہوتی ہے۔ 2 فروی 2018ء کو مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے کراچی میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب بھی جمہوریت جڑ پکڑنے لگتی ہے تو اسے سبو تاژ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آج وہ ایک چھوٹی جماعت کے ساتھ مل کر وہی کچھ کر رہے ہیں جس کے بارے میں وہ خود ناپسندیدگی کا اظہار کر چکے ہیں۔

 
 پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں دسیوں سیاسی اتحاد بنے ہوں گے موجودہ اپوزیشن کا اکٹھ بھی ابھی تک انہیں میں سے ایک ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ گزرے وقت سے ہمارے سیاست دانوں نے کیا سیکھا ہے؟ پاکستان کی سیاست کے مزاج میں مثبت تبدیلی اسی وقت رونما ہو گی جب ذاتی، گروہی اور جماعتی مفادات کے بجائے ملکی اور عوامی مسائل سیاسی جد و جہد کی بنیاد بنیں گے۔

اپنے مفادات پر زد پڑنے کو پورے سسٹم پر زد پڑنے سے تعبیر کرنا قطعاً مناسب نہیں۔ درحقیقت ہمارے سیاست دانوں کی اداروں سے ٹکراوٴ والی پالیسی کے باعث حالات خراب ہوتے ہیں۔ آج ایک بار پھر جمہوریت کی گاڑی کو ٹریک پر رکھنے کی ذمہ داری قومی سیاسی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی پر عائد ہوتی ہے۔ موجودہ حکومت کو پانچ سال مکمل کرنے کا آئینی حق ملنا چاہئے۔ اقتدار حاصل کرنے کا سب سے بہترین طریقہ انتخابات ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کو حکومت گرانے کے بجائے انتخابات کا آئینی راستہ اپنانا چاہئے کیونکہ ووٹ کی طاقت اور عوامی حمایت سے برسرِ اقتدار آنے والی جماعت ہی ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :