ٹیکس کی ادائیگی کیوں ضروری

پیر 6 جنوری 2020

Rana Zahid Iqbal

رانا زاہد اقبال

حکومت کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ محصولات ہیں جو بلا واسطہ اور بالواسطہ ٹیکسوں کی شکل میں عوام سے وصول کئے جاتے ہیں۔ بلاواسطہ ٹیکس میں انکم ٹیکس اور بالواسطہ ٹیکسوں میں کسٹم ڈیوٹی، ایکسائز ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس وغیرہ شامل ہیں۔ ملک میں محصولات اکٹھا کرنے کا نظام نہایت فرسودہ ہے۔ محصولات اکٹھا کرنے کا ایک بنیادی اصول جو دنیا میں صدیوں سے رائج ہے وہ یہ ہے کہ ٹیکس جمع کرنے والی مشینری کودیانت دار، ایماندار اور ہر قسم کے دباوٴ سے آزاد ہونا چاہئے۔

اگر محصولات اکٹھا کرنے والا عملہ ہی جمع شدہ رقومات میں خوربرد کرے گا تو قومی خزانے میں کیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکس قوانین نہایت ہی سخت بنائے جاتے ہیں۔ ایک عام شہری سے لے کر صدر تک کوئی بھی ٹیکس سے مستثنیٰ نہیں ہے اور ٹیکس چوری کرنے کو ایک سنگین جرم تصور کیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

جب کہ پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔

ٹیکس چوری ایک وباء کی طرح پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے۔ عام تاجر، صنعتکاروں کے علاوہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے جاگیر دار، وڈیرے اور مل مالکان سب ہی ٹیکس دینے سے گریزاں رہتے ہیں۔ ایف بی آر کے میمبر پالیسی آئی آر ڈاکٹر حامد عتیق سرور نے ایف بی آر ہیڈ کوارٹر میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ 31 دسمبر تک 21 لاکھ 50 ہزار ٹیکس دہند گان نے ٹیکس گوشوارے جمع کرائے ہیں جو کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں 6 لاکھ زائد ہیں۔

مزید 6 لاکھ افراد نے ٹیکس گوشوارے جمع کرانے ہیں اس لئے ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی تاریخ میں ایک ماہ کی توسیع کی گئی ہے۔یعنی 22 کروڑ آبادی والے ملک میں اس وقت صرف 27 لاکھ 50 ہزار افراد ایکٹو ٹیکس پےئر لسٹ پر ہیں۔ ان میں سے بھی زیادہ تعداد سرکاری ملازمین کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستاب میں سالانہ بجٹ بناتے وقت محصولات کا جو اندازہ لگایا جاتا ہے وہ کبھی درست ثابت نہیں ہوتا ہے۔

ٹیکسوں کی وصولی کے جو اہداف مقرر کئے جاتے ہیں وہ کبھی پورے نہیں ہوتے۔ جب کہ ملک میں ایسے لاکھوں افراد ہیں جو بڑے شہروں میں پر تعیش زندگی گزار رہے ہیں لیکن ٹیکس کے دائرے میں نہیں آتے اور نہ ہی ان افراد نے نیشنل ٹیکس نمبر حاصل کئے ہیں۔
پاکستان ٹیکسوں کے ذریعے اپنا ریونیو بڑھائے بغیر اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری نہیں کر سکتا ہے، پاکستان کا مستقبل داوٴ پر لگا ہوا ہے۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے مطابق پاکستان میں ٹیکس ادا کرنے والوں کی شرح 4 فیصد سے بھی کم ہے جب کہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح نوے فیصد سے بھی زیادہ ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں عوام کے لئے تمام سہولتوں کی ارزانی ہے۔ پاکستان کے جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکس دینے والوں کی شرح تقریباً 9 فیصد بنتی ہے جب کہ پاکستان کے مساوی جی ڈی پی والے دیگر ممالک میں یہ شرح 14 فیصد سے کم نہیں جب تک پاکستان اپنے ذرائع آمدنی میں اضافہ نہیں کرتا اسے بدستور قرضوں پر ہی گزر بسر کرنی پڑے گی جن کے سود کی قسطیں ادا کرنے کے لئے وہ مزید سود در سود لیتا رہے گا یا پھر بیرونی ممالک سے جھولی پھیلا کر امداد کی التجا کرنا پڑے گا۔

اس وقت پاکستان پر بیرونی قرضوں کا بوجھ تقریباً 100 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے جس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی آمدنی کا 60 فیصد تو قرضوں کی اقساط اور ان کے سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ اگر پاکستان کو اس قدر بھاری رقم قرضوں کی ادائیگی پر نہ صرف کرنی پڑے تو یہی کثیر رقم تعلیم، صحت پر بطریقِ احسن خرچ کی جا سکتی ہے نیز ملک کا انفراسٹرکچر بھی جدید خطوط پر استوار کیا جا سکتا ہے اور اور لوگوں کی آمدنیاں بڑھنے سے ان کی زندگی میں راحت میسر آ سکتی ہے۔


پاکستان کے طاقتور اور متمول طبقے اگر خود دیانتداری سے ٹیکس ادا کریں تو وہ تمام نیچے والوں کے لئے مثال قائم کر سکتے ہیں۔ ان لوگوں کے ٹیکس دینے سے ٹیکس جمع کرنے والوں کی بد عنوانیاں بھی ختم ہو سکتی ہیں جو پورا ٹیکس وصول کرنا کی بجائے ٹیکس دھندگان کے ساتھ مک مکا کر لیتے ہیں۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ جن لوگوں کو دوسرے کے لئے رول ماڈل ہونا چاہئے وہ خود ہی کرپشن میں لتھڑے ہوئے ہیں۔

پی ٹی آئی کی حکومت کو بخوبی احساس ہے کہ ملک میں ٹیکس وصولیاں بہت کم ہیں یہی وجہ ہے کہ اپنے انتخابی دعووٴں میں اس نے ٹیکس وصولیوں کو جی ڈی پی کے 15 فیصد تک بڑھانے کا اعلان کیا تھا۔ حکومت کی معاشی ٹیم اس کے لئے کوشش بھی بہت کر رہی ہے لیکن پاکستان کے عوام ٹیکس کی ادائیگی سے بچنے کے بہانے تراشتے ہیں اور حکومت کے لئے مشکلات کھڑی کر رہے ہیں اس بات کا تذکرہ گزشتہ دنوں وزیرِ اعظم عمران خان نے پشاور میں بھی کیا ہے کہ وہ جو اصلاحات کرنا چاہتے ہیں طاقتور عناصر ان کے لئے مشکلات کھڑی کر دیتے ہیں۔


عوام کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ جب تک ٹیکس وصولیوں میں مطلوبہ اضافہ نہیں ہو گا عوام کی حالت بہتر نہیں بنائی جا سکے گی۔ پاکستان کی اشرافیہ نہایت پر تعیش زندگی گزارتی ہے لیکن یا تو ٹیکس دیتی ہی نہیں ہے یا پھر پھر بہت کم ٹیکس دیتی ہے۔ بعض صورتوں میں تو وہ کاروباری مراکز سے مہنگی اشیاء خریدتے ہیں لیکن انہوں نے این ٹی این نہیں لے رکھا ہے۔

اسی لئے حکومت نے 50000 سے زائد کی خریداری پر شناختی کارڈ لینے کی شرط عائد کی ہے جس پر ابھی تک عملدرآمد نہیں ہونے دیا گیا ہے۔ حکومت کو ٹیکسوں کی وصولی میں شدید کمی کا سامنا ہے۔ پاکستان اس وقت جس قسم کی صورتحال کا شکار ہے عوام کے ایمانداری سے ٹیکس دینے کے بغیر نہیں نکلا جا سکتا ہے۔اس کے لئے ٹیکس ادائیگی کو قومی فریضہ سمجھنا پڑے گا۔ عوام کے پاس پیسہ بھی ہے مگر وہ ٹیکس نظام سے بچنے کے لئے آگے نہیں بڑھتے۔

ٹیکس کے نظام میں بہتری کے لئے عوام کے اعتماد میں اضافہ کرنا پڑے گاجب تک عوام کا اعتماد حکومت پر بحال نہیں ہو گا لوگ ٹیکس نہیں دیں گے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ حکومت ٹیکس کے نظام کو آسان اور شفاف بنائے تاکہ عوام کو پتہ چل سکے کہ وہ جو ٹیکس ادا کر رہے ہیں وہ قومی ترقی کے منصوبوں پر صرف ہو رہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :