آٹا نایاب، زندگی عذاب

پیر 27 جنوری 2020

Rana Zahid Iqbal

رانا زاہد اقبال

حالیہ دنوں میں پورے ملک میں آٹے کا بحران ہے، لوگوں کو سخت مشکلات کے بعد مہنگے داموں آٹا مل رہا ہے۔ گندم کے بحران کی موجودہ صورتحال بہت بڑے سیاسی اور انتظامی چیلنج کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔کسی بھی ریاست کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو برابری کی سطح پر اشیائے خوردنی بہم پہنچائے۔ ہمارا ملک بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اگر ہم اپنے شہریوں کی زندگی کے لئے ضروری جزوِ اعظم آٹا وافر اور سستے داموں مہیا نہیں کر پا رہے تو اس سے بڑی ستم ظریفی کوئی اور نہیں ہے۔

بفضلِ خد اہمارے ملک میں ہر چیز موجود ہے مگر جس چیز کا فقدان ہے وہ قانون کی عملداری کا قحط ہے۔ در اصل یہی چیز ہمارے معاشرے میں بے چینی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ آج اگر ذخیرہ اندوزوں، سٹہ بازوں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف وقتی و عارضی طور پر نہیں بلکہ پائیدار بنیادوں پر احتساب شروع کر دیا جائے تو یقین جانئے کہ نہ صرف آٹا بلکہ تمام ضروریاتِ زندگی با آسانی سستے داموں ہمیں میسر ہوں گی۔

(جاری ہے)

 
گزشتہ کئی سالوں سے گندم کی ریکارڈ پیداوار کی وجہ سے حکومتی گوداموں میں سرپلس گندم ہونے کے باوجود گندم کا بحران بڑی عجیب بات ہے۔ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ 3 لاکھ ٹن گندم درآمد کی جائے گی، 3 لاکھ ٹن گندم کی آمد کی فروری کے وسط تک توقع کی جا رہی ہے۔ اس دوران گراں فروش اور ذخیرہ اندوز عوام کی چمڑی ادھیڑنے میں مصروف رہیں گے اس لئے یہ ضروری ہے کہ گندم کی درآمد تک معروضی حالات کا سنجیدگی سے ادراک کرتے ہوئے حکومت عام آدمی کی مشکلات کا احساس کرے اور ان کے ازالے کے لئے مارکیٹ میکنزم کو بہتر بنانے، طلب و رسد کے توازن کو درہم برہم کرنے والوں کا کڑا محاسبہ کرنے اور ضلعی پرائس کنٹرول کمیٹیوں اور مجسٹریٹی نظام کی کارکردگی پر گہری نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی مانیٹرنگ کا بھی مٴوثر انتظام کیا جائے۔

 
کچھ عرصہ پہلے تک متوسط طبقہ کم قیمتوں کی وجہ سے سے آٹے کو اپنے ماہانہ بجٹ میں شمار ہی نہیں کرتا تھا لیکن آج اسی طبقہ کے ماہوار بجٹ میں آٹا بلحاظ قیمت سرِ فہرست ہے۔ غریب کی پیٹ بھرنے کی اہم جنس آٹے کو ہماری ذاتی مفاد پرستی کھا گئی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آٹا آج 70 سے 80 روپے کلو تک جا پہنچا۔ عوام کو مختلف جگہوں پر مختلف طرح کی صورتحال کا سامان ہے کہیں تو آٹا دستیاب نہیں ہے لیکن کہیں آٹا تو دستیاب ہے لیکن اس کی بیش بہا قیمتوں کی وجہ سے ایک غریب آدمی سے اپنی کمزور تر قوتِ خرید کی بناء پر مہنگے داموں آٹا خرید نہیں پا رہا ہے جس سے ایک غریب آدمی کا چولہا ٹھنڈا پڑ گیا ہے۔

گندم کے بحران کی وجہ گندم کی کمی نہیں بلکہ لگ رہا ہے کہ کچھ ذخیرہ اندوزوں کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے۔ کہا یہی جا رہا ہے کہ فلورملز کے گوداموں میں بڑی مقدار میں گندم پڑی ہوئی ہے مگر وہ اس کی پسائی کرنے سے گریزاں ہیں۔ اس سے تو یہی لگتا ہے کہ آٹے کی مصنوعی قلت پیدا کی جا رہی ہے تا کہ حکومت آٹے کی سرکاری قیمت بڑھا دے اور فلور ملز مالکان غیر معمولی منافع حاصل کر سکیں۔

آٹے کی مصنوعی قلت پیدا کر کے قیمتوں میں اضافے کے لئے دباوٴ بڑھانا غیر اخلاقی حرکت ہے کیونکہ آٹا غریب انسان کے پیٹ بھرنے کی بنیادی چیز ہے۔ 
عوام کو اشیائے ضرورت بروقت اور وافر مقدار میں فراہم ہونی چاہئیں۔ اگر ضروری اشیاء کی قلت پیدا ہو رہی ہے اور لوگوں کو گرانی کا سامنا ہے تو یہ بحث لا حاصل ہے کہ کس سطح پر کیا کام کیا جانا چاہئے تھا۔

عام آدمی صرف یہ جاننا چاہتا ہے کہ سب سے اوپر کے مقام پر فائز لوگوں کو اس کے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہئے۔ انہیں خود دیکھنا چاہئے کہ کس سے کیا کام لینا ہے۔ لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ وفاقی حکومت کو ان کی ضروریات پوری کرنے کے لئے مستعد رہنا چاہئے اور اگر کوئی کام صوبائی یا ضلعی حکومت کے کرنے کا ہے تو اس کی مٴوثر نگرانی کی جانی چاہئے۔ ۔

۔
اس ضمن میں وزیرِ اعظم عمران خان نے گزشتہ روز گندم کے بحران کا نوٹس لیا ہے اور صوبائی حکومتوں کو یہ ہدایات جاری کی ہیں کہ مصنوعی بحران پیدا کرنے والے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کریں۔ انہوں نے تمام صوبوں کے چیف سیکریٹریوں سے کہا ہے کہ وہ صورتحال پر مسلسل نظر رکھیں، مسائل کا شکار عوام بھی چاہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم نے جو ہدایات دی ہیں ان پر عمل درآمد ہوتا ہوانظر آئے اور بازار میں آٹے سمیت تمام ضروری اشیاء کی قیمتیں تسلی بخش سطح تک نیچے آ جائیں۔

ذخیرہ اندوز اور ناجائز منافع کمانے والے جتنے ہی با اثر کیوں نہ ہوں، حکومت اگر سیاسی عزم کے ساتھ ان سے نمٹنے کے اقدامات کرے تو یقینی طور پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ آٹے کا بحران جہاں ایک طرف انفرادی زندگی کے لئے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے وہاں ہمیں خدا نخواستہ کسی قومی المئے سے بھی دوچار کر سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :