کپاس کی فصل کو نقصان

بدھ 12 فروری 2020

Rana Zahid Iqbal

رانا زاہد اقبال

 اس سال ملک کی ایک تہائی کپاس کی فصل موسمی حالات کی وجہ سے خراب ہو گئی ہے جو انتہائی تشویشناک بات ہے۔ کپاس ملکی زرعی پیداوار میں اہم نقد آور جنس ہے جس سے نہ صرف ہزاروں خاندان وابستہ ہیں بلکہ معیشت کا اس پر بڑا انحصار ہے۔ یہ بہت بڑا نقصان ہے جس کا قومی معیشت ہی نہیں کاٹن کی صنعت اور خصوصاً اس کے کاشتکاروں پر بھی پڑے گا۔
 ملک میں وفاق سے لے کر صوبائی سطح تک زراعت کے تحقیقی ادارے اور محکمے مکمل انفرااسٹرکچر سے لیس ہیں جن میں انتہائی قابل افراد اور سائنسدان کام کرتے ہیں۔

ملک میں قائم زرعی جامعات اس سلسلے کی اہم کڑی ہیں۔ کاشتکاروں کو قرضہ جات اور مشینری کی فراہمی کے لئے زرعی ترقیاتی بینک کام کر رہا ہے۔ متذکرہ فصل کی خرابی کی بڑی وجہ تحقیق کی کمی اور گرمی برداشت کرنے والے بیجوں کے فقدان کی شکل میں سامنے آئی ہے۔

(جاری ہے)

کپاس پاکستان کی زرعی اجناس میں سب سے زیادہ منافع بخش اور گرانقدر زرعی جنس ہے۔ کپاس کی برآمد کے حوالے سے پاکستان دنیا کاچوتھا بڑا ملک ہے۔

پاکستان میں کپاس کی بوائی کا آغاز وسط مارچ سے لے کر مئی کے آخر تک جاری رہتا ہے کپاس کا پودا انتہائی نازک ہوتا ہے جس کی بوائی سے لے کر برداشت تک سخت حفاظت کی جاتی ہے۔ تبھی تو ہر ایکڑ اخراجات کا خرچہ دیگر زرعی اجناس سے دو گنا آتا ہے۔
 اچھی پیداوار کے لئے مندرجہ ذیل انتظامات ضروری ہوتے ہیں۔ زمین اچھی طرح ہموار اور اور بھر بھری کرنے کا تقریباً پانچ سے سات ہزار روپے فی ایکڑ خرچہ آتا ہے۔

کھاد سپرے اور پانی پر فی ایکڑ خرچہ 30 سے 40 ہزار کے درمیان آتا ہے۔ اس کے علاوہ کاشت کار کی 6 ماہ کی سخت جان لیوا محنت بھی ساتھ ہے۔ جب کپاس کے پودے پر پھل اور ٹینڈے بننے کا عمل آتا ہے تو موسمی حالات اور گرمی کی شدت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ حکومت کا اس اہم فصل کے لئے حکمتِ عملی تیار نہ کرنا اور باہر سے روئی درآمد کرنا بھی کاشت کاروں کے نقصان کا باعث ہے۔

 
دنیا بھر میں کپاس پیدا کرنے والے ممالک میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں پچھلے کئی سالوں سے کپاس کی فی ایکڑ پیداوار بڑھنے کی بجائے کم ہو رہی ہے۔ پاکستان کے برعکس کپاس کی پیداوار کے دیگر ممالک خصوصاً بھارت، امریکا، ترکی، برازیل اور آسٹریلیا میں بی ٹی کاٹن کی کاشت کی وجہ سے فی ایکڑ پیداوار کم از کم 100 فیصد تک بڑھ چکی ہے۔ ملک بھر میں خصوصاً پنجاب میں کپاس کی فصل پر پتہ مروڑ وائرس کے حملے کو ناکام بنانے کے لئے ضروری ہے کہ کپاس کی کاشت کے علاقوں میں گنا کاشت کرنے اور یہاں نئی شوگر ملیں لگانے پر پابندی عائد کی جائے۔

اس کے علاوہ پاکستان کی کپاس کی اوسط پیداوار اور دوسرے ممالک کی نسبت کم ہے جس کی بڑی وجہ فصل میں جڑی بوٹیوں کی بہتات ہے۔ 
ایک تحقیق کے مطابق جڑی بوٹیاں کپاس کی پیداوار کا تقریباً 13 سے 42 فیصد تک نقصان کرتی ہیں۔ کپاس کی فصل کی منافع بخش کاشت کو درپیش خطرات میں سب سے زیادہ خطرہ جڑی بوٹیوں سے ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق کیڑے مکوڑے 30 فیصد، بیماریاں 20 فیصد، متفرق 5 فیصد اور اکیلی جڑی بوٹیاں فصلوں کی فی ایکڑ پیداوار میں 45 فیصد تک کمی کا باعث بنتی ہیں۔

اس کے علاوہ پیداوار کا معیار بھی خراب کرتی ہیں جس سے منڈی میں کپاس کی قیمت کم ملتی ہے۔ کپاس کی جڑی بوٹیاں قیمتی زرعی وسائل کے لئے بہت بڑا خطرہ ہیں۔ وہ وسائل جو کپاس کی منافع بخش کاشت کے لئے انتہائی ضروری ہیں وہ جڑی بوٹیوں کی نذر ہو جاتے ہیں جس سے فصل کی بڑھوتری اور نشو نما بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ وہ زرعی وسائل جن کو جڑی بوٹیاں زیادہ نقصان پہنچا رہی ہیں ان میں پانی، خوراک، روشنی اور جگہ اہم ہیں۔

جڑی بوٹیاں عناصر صغیرہ اور کبیرہ کے نقصان کے علاوہ کپاس کی فصل کو آبپاشی کے لئے دئیے جانے والا قیمتی پانی اپنی نشونما کے لئے استعمال کر کے ضائع کر دیتی ہیں۔
 کپاس کی فصل میں جڑی بوٹیوں کی وجہ سے فصل کی پیداوار میں کمی کے علاوہ ایک بڑا نقصان کھاد کی شکل میں ہوتا ہے کیونکہ جڑی بوٹیاں فصل کے حصے کے خوراکی اجزاء تیزی کے ساتھ زمین سے حاصل کر کے فصل کو کمزور کر دیتی ہیں۔

تحقیق سے ثابت ہے کہ کپاس کی فصل کی نسبت جڑی بوٹیاں تین سے چار گنا زیادہ نائٹروجن، فاسفورس، پوٹاش اور میگنیشیم استعمال کرتی ہیں۔ کھاد اور پانی کے علاوہ جڑی بوٹیاں کپاس کے پودوں کو ملنے والی روشنی کا بھی نقصان کرتے ہیں کیونکہ کپاس کے پودے ابھی سطح زمین سے باہر نہیں نکلتے کہ جڑی بوٹیاں اگ کر کھیت پر قبضہ جما لیتی ہیں۔ اس طرح فصل کے پودوں سے مقابلہ شروع ہو جاتا ہے۔

جڑی بوٹیاں فصل کی نسبت زیادہ تیزی سے پھلتی پھولتی ہیں اور فصل کے پتوں میں خوراک بننے کے عمل میں رکاوٹ ڈال کر فصل کو کمزور کر دیتی ہیں۔ جڑی بوٹیاں تیزی کے ساتھ بڑی ہو کر خالی جگہوں پر قبضہ کر لیتی ہیں جس سے فصل کا اگاوٴ متاثر ہوتا ہے۔ 
جدید تحقیق کے مطابق کپاس کا پودا 13ہفتوں میں 95 سے 100 فیصد جگہ کو ڈھانپ لیتا ہے جب کہ اہم جڑی بوٹیاں 5 سے 9 ہفتوں کے دوران تمام سطح زمین ڈھانپ لیتی ہیں۔

کپاس کی فصل میں موجود جڑی بوٹیاں کیڑے مکوڑوں اور بیماریوں کے لئے متبادل پناہ گاہ فراہم کر کے فصل کا نقصان کر دیتی ہیں۔ کیڑے مکوڑے جڑی بوٹیوں میں چھپ کر فصل کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس کے علاوہ جڑی بوٹیاں پیداوار میں کمی کے علاوہ کاشتی امور میں رکاوٹ ڈالتی ہیں اور پتہ مروڑ وائرس اور ملی بگ کے پھیلاوٴ کا باعث بنتی ہیں۔ غیر کیمیائی طریقہ میں بہت سے عوامل کاشت کے وقت ہی کر لئے جاتے ہیں مثلاً داب کا طریقہ، فصلوں کا ادل بدل یا ہیر پھیر، کاشت کے وقت زمین کی بہترین تیاری، لائنوں میں کھیلیوں پر کاشت، کھاد اور پانی کا منصفانہ استعمال اور بعد از کاشت گوڈی وغیرہ۔

 
ہماری روئی کا معیار بھی بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں ہے۔ ہماری روئی میں 9 فیصد ٹریش ہوتا ہے۔ نمی کی مقدار بھی 9 فیصد ہوتی ہے جب کہ عالمی معیار کے مطابق ٹریش یعنی گند صرف 2 فیصد جب کہ نمی 6 فیصد تک ہوتی ہے۔ یہاں ایک یہ بھی بڑا مسئلہ ہے کہ اگر کسی سال میں روئی کی پیداوار کم ہوتی ہے تو ہمارے زمیندار ٹریش 12 فیصد تک کر دیتے ہیں اور نمی بھی اسی حساب سے بڑھا دی جاتی ہے۔

اگر ہم اس کا موازنہ افغانستان سے کریں تو وہ بھی عالمی معیار کی روئی برآمد کرتا ہے یعنی ٹریش 2 فیصد تک اور 6 فیصد تک نمی کیونکہ اس کی خریدار ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں جو کوالٹی پر سمجھوتہ نہیں کرتی ہیں۔
کپاس کی اس صورتحال کی وجہ سے گزشتہ کئی سالوں سے ہمارا اہم شعبہ ٹیکسٹائل کی صنعت بحران کا شکار ہے اور اسی وجہ سے ہماری برآمدات میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔

ملکی معیشت میں ٹیکسٹائل کے شعبے کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں۔ اس شعبے کا ملکی برآمدات، ملازمتوں کی فراہمی، ملکی سطح پر معاشی سرگرمیوں اور ریونیو میں نمایاں حصہ ہے۔ اس شعبے کے فروغ سے مراد برآمدات، ملازمتوں، معاشی سرگرمیوں اور ریونیو میں اضافہ کرنا ہے جب کہ اس شعبے کی شرح نمو میں کمی ملکی معیشت کی کمزوری سے تعبیر کی جا سکتی ہے۔

ملکی ٹیکسٹائل صنعت کے معاشی کردار کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ حکومت نے نئی ملازمتوں کے مواقع اور برآمدات میں اضافے کے لئے جو اہداف مقرر کر رکھے ہیں ٹیکسٹائل سیکٹر کی بہتری کے بغیران کا حصول مشکل نظر آتا ہے۔ ایسا ممکن ہے اگر پانی، بجلی اور گیس کی قابلِ برداشت نرخوں پر بلا تعطل فراہمی، بینکوں کے مارک اپ میں کمی، امریکہ اور یورپی یونین کی ڈیوٹی فری مارکیٹ تک رسائی، کاٹن کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کرنا اور انفرا سٹرکچر بہتر بنانے سے ہماری برآمدات میں یقیناً خاطر خواہ اضافہ ہو سکتا ہے۔

اسی طرح صنعتکاروں اور ایکسپورٹرز کو اپنی مصنوعات میں تنوع، کوالٹی اور پیداواریت میں اضافہ اور ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ وغیرہ کر کے اپنی برآمدات میں اضافہ کرنا ہو گا۔
 اس قدر زیادہ تحقیقاتی اداروں اور تحقیق کے لئے مہیا کئے جانے والے فنڈز کی موجودگی میں اس طرح کی صورتحال یقیناً بڑی افسوسناک ہے۔ سننے میں یہی آتا ہے کہ اس مقصد کے لئے قائم ایوب تحقیقاتی ادارے میں جو بیرونی دنیا سے پراجیکٹ ملتے ہیں اکثر زرعی سائنسدان نئی تحقیق کر کے زیادہ پیداوار والے بیجوں کی دریافت کے لئے محنت نہیں کرتے بلکہ اکثر صورتوں میں پہلے سے ہی کی گئی ریسرچ کی بنیاد پر پرانی ورائٹیاں ہی پیش کر دیتے ہیں جو کہ ایک زرعی ملک کی بڑی بد قسمتی ہے۔

بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ فیصل آباد شہر کی قیمتی زمینوں پر زرعی تحقیق کے لئے بڑی بڑی لیبارٹریاں بنائی گئی ہیں لیکن اس کے نتائج اس حد تک نہیں آ رہے ہیں۔ ہمارے زرعی سائنس دانوں نے اس حد تک زرعی ترقی کے لئے کوششیں نہیں کیں جتنی کہ انہیں کرنی چاہئیں تھیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ زراعت کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کرے اور چھوٹے کاشت کاروں کے لئے خصوصی ریلیف قائم کرے۔

ملکی اقتصادیات میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے شعبے ٹیکسٹائل کی صنعت کو جدید اور مزید فعال بنانے کے لئے حکومت حسب وسائل تمام ممکنہ اقدامات کرے تا کہ کپاس کی کوالٹی اور مقدار میں بہتری لانے کے لئے بین الاقوامی سطح پر ٹیکسٹائل صنعت کی مقابلاتی سکت کو بڑھایا جا سکے۔ اس کے ساتھ بہتر صنعتی انفراسٹرکچر، پیداواریت میں تنوع اور انسٹی ٹیوشنل فریم ورک بھی انتہائی ضروری ہے تا کہ اس سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر برآمدات کی اعلیٰ کوالٹی کی طلب کو پورا کیا جا سکے۔

ٹیکسٹائل کے شعبے کی مقامی اور بین الاقوامی سطح پر استعداد میں اضافہ، جدید انفراسٹرکچر کی ترویج کے لئے سہولیات، فعال ہیومن ریسورس کی فراہمی کے لئے جامع اسکل ڈویلپمنٹ فریم ورک، کوالٹی کے حوالے سے بین الاقوامی اسٹینڈرڈز سے مطابقت کے علاوہ پیداواریت اور کوالٹی میں بہتری لانے سے ہمارا ٹیکسٹائل کا شعبہ ملکی معیشت کو مستحکم بنانے میں معاون ہو گا۔

 
اس کے علاوہ یہ بھی بہت ضروری ہے کہ ملک کی بیمار صنعتوں کی بحالی کے لئے بھی کوششیں کی جائیں۔ تمام بیمار صنعتوں کا آپس میں انضمام کر کے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت ان میں نئے پلانٹ و مشینری لگا کر انکی وسعت بڑھا کے ان بیمار یونٹس کو دوبارہ بحال کرنا چاہئے۔ اس طرح ہمارا ٹیکسٹائل سیکٹر جو کافی عرصہ سے مشکلات کا شکار ہے بحال ہو کر ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :