بھارت کی جارحیت اور مسئلہ کشمیر!

ہفتہ 31 اگست 2019

Rao Ghulam Mustafa

راؤ غلام مصطفی

لائن آف کنٹرول پر بھارت کی جانب سے پاکستان کے شہریوں کو شہید کرنے اور جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیوں کے پیش نظر ملک میں موجود غیر ملکی صحافیوں کو ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری کا وزٹ کروایا گیا جہاں پاک فوج کے تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے غیر ملکی صحافیوں کو بھارت کی جانب سے سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزیوں پر بریفنگ دی ۔

ایل او سی پر امن معاہدے کو سبو تاژ کرتے ہوئے بھارتی فوج آئے روز بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری کرتے ہوئے پاکستان کے بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔پاکستان کی جانب سے متعدد بار احتجاج کے باوجود کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت کے باعث صورتحال کشیدہ ہوتی جا رہی ہے۔پاکستان اور بھارت کے مابین ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری پر فائر بندی کا معاہدہ نومبر 2003ء میں اس وقت طے پایا تھا جب پاکستان کے سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ جمالی نے اپنے خطاب میں بھارت کو غیر مشروط جنگ بندی کی پیشکش کی تھی۔

(جاری ہے)

دونوں ممالک کے مابین جب جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تو دونوں ممالک نے اس معاہدے کی روح کے مطابق عمل کرنے پر اتفاق کیا تھا۔دونوں ممالک کے ڈی جی ملٹری آپریشنز نے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری کا جائزہ لے کر اس کی مزید بہتری کے لئے سنجیدہ اقدامات اٹھانے‘امن کو یقینی بنانے اور سرحد کے قریب بسنے والے شہریوں کی مشکلات کو کم کرنے پر بھی اتفاق کیا ۔

2016ء میں جب کشمیر میں واقع اوڑی کے مقام پر بھارت کے فوجی کیمپ پر دہشتگردانہ حملہ کے نتیجہ میں بھارت کے سترہ جوان ہلاک ہوئے تو بھارت نے بلا سوچے سمجھے اس واقعہ کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دے دیا جبکہ پاکستان نے بھارت کے اس بے بنیاد الزام کو یکسر مسترد کر دیا ۔اوڑی حملے کے بعد سہولت کاری کے الزام میں غلطی سے سرحد پار کرنے والے دو پاکستانی نوجوانوں فیصل حسین اعوان اور احسن خورشید کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور پھر بھارت کے اس بے بنیاد الزام کی قلعی اس وقت کھل گئی جب بھارت کی تحقیقاتی ایجنسی(این آئی اے)نے پاکستان کے ان دو نوجوانوں سے اپنی تفتیش کے بعد بیان جاری کیا کہ یہ دونوں نوجوان دہشت گردی کے اس واقعہ میں ملوث نہیں پائے گئے اور بھارت نے فیصل اور احسن کو پاکستانی حکام کے حوالے کردیا۔

اوڑی واقعہ کے بعد لائن آف کنٹرول پر بد ستور صورتحال کشیدہ ہے اور بھارت اس وقت سے اب تک ایل او سی پر بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری کر کے بے گناہ شہریوں کو شہید کر کے بین الاقوامی قوانین اور سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزیاں کرتا چلا ٓارہا ہے جبکہ پاکستان کی جانب سے شدید احتجاج کے باوجود بھارت اس معاہدے کی پاسداری نہ کر کے اشتعال انگیزی کو ہوا دے رہا ہے۔

لائن آف کنٹرول پر بھارت کی جانب سے سرحدی خلاف ورزیوں کے محرکات بڑے واضح ہیں اب تو پوری دنیا جان چکی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی میں تیزی کے باعث کے جہاں مودی سرکار نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے خطے کے امن کو داؤ پر لگا دیا وہیں کشمیر میں بھارتی انسانیت سوز مظالم نے اس کا مکروہ چہرے سے جمہوریت کی علبرداری کا نقاب اتار کر رکھ دیا ۔

کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے ہٹلر مودی کے اس انتہائی اقدام سے پوری دنیا میں تشویش کی لہر پائی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود عالمی قوتیں اور اقوام متحدہ جیسے انسانی حقوق کے علبردارادارے بھی بھارت کے اس اقدام کے پیش نظر خطے میں سر ابھارتی چنگاری کو دبا کر کشمیر کا کوئی مستقل حل ڈھونڈنے کے لئے کوئی کردار ادا کرتی نظر نہیں آرہی ہیں جبکہ پاکستان نے برملا اس بات کا اظہار کیا کہ عالمی دنیا اور اقوام متحدہ کو اس کا حل ڈھونڈنا چاہیے ایسا نہ ہو کہ دو جوہری طاقتوں کے ٹکرانے سے اگر جنگ ہوئی تو پوری دنیا کا امن خاکستر ہو جائے گا ۔

بھارت شا ئدسمجھتا ہے کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بدلنے اور گولی لاٹھی کے کالے قانون کے ذریعے کشمیری مسلمانوں کی تحریک آزادی کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائے گا لیکن وہ شائد یہ نہیں جانتا کہ برہان وانی جیسے جذبات کو شکست دینا بہت مشکل ہے جس کی شہادت نے ہزاروں‘لاکھوں کی تعداد میں برہان وانی بھارت کی نو لاکھ غاصب فوج کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنا کر کھڑے کر دئیے ہیں۔

کشمیر کی تحریک آزادی نے بھارت کے اندر دراڑیں ڈال دی ہیں مودی اس وقت شدید ذہنی تناؤ کا شکار ہے اسے علم ہے اگر کشمیر نے تحریک کے بل بوتے پر حق خودارایت حاصل کر لی تو بھارت میں اٹھنے والی شورشوں کو دبانا اس کے لئے مشکل ہو جائے گا اسی خوف نے مودی کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے جیسے اقدام اٹھانے پر مجبور کیا میں سمجھتا ہوں کہ کشمیر میں اٹھنے والی یہ تحریک آزادی بھارت کی تقسیم کا نقطہ آغاز ہے بہت جلد دنیا دیکھے گی کہ بھارت ٹوٹ کر ریاستوں میں تقسیم ہو جائے گا۔

فاشسٹ مودی کے غیر موزوں اقدامات کے باعث بھارت میں بسنے والی اقلیتوں سمیت سنجیدہ دانشور بھی مودی کی جنونی ذہنیت کے باعث خود بھارت کے لئے اسے بہت بڑا خطرہ سمجھتے ہیں اور مودی کو کشمیر میں اٹھائے جانے والے انتہائی اقدام کے پیش نظر اس اپنے ہی ملک میں سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔پاکستان کی بہترین سفارت کاری نے ایشین ہٹلر مودی کے کشمیر میں انسانیت سوز مظالم کا پردہ چاک کر کے رکھ دیا اقوام متحدہ کی نیوز ویب سائٹ پر کشمیر کو عالمی مسئلہ قرار دے کر اس کے حل کے لئے اقوام متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدر آمد کے لئے جو اشارہ دیا ہے وہ پاکستان کی کامیاب سفارت کاری اور کشمیر کے مسئلہ کو عالمی تنازع تسلیم کرانا ہے۔

پاکستان کا شروع دن سے یہ مئوقف رہا ہے کہ کشمیر ایک حل طلب مسئلہ ہے لیکن بھارت اسے اپنا اٹوٹ انگ سمجھتا ہے اپنی ہٹ دھرمی کی بنا پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں سمیت کسی بھی طاقتور ملک کی ثالثی کے لئے بھی تیار نہیں بھارت میں یہ کیسی جمہوریت ہے جہاں جمہوریت کی آڑ میں کشمیری مسلمانوں پر بدترین مظالم ڈھاتے ہوئے مودی ان نہتے مسلمانوں کی نسل کشی کرنے پر تیار ہے۔

اگر بھارت کی یہ ہٹ دھرمی قائم رہی تو پاکستان دنیا پر پہلے ہی واضح کر چکا ہے کہ اب بھارت کو سبق سکھانے کا وقت آگیا ہے اگر جنگ ہوئی تو اس کی ذمہ دار امن کی خواہاں عالمی دنیا اور اقوام متحدہ ہو گی۔پاکستان کی افواج‘حکومت‘اپوزیشن اور عوام مسئلہ کشمیر کے لئے دنیا اور انسانی حقوق کے علبردار ادارے اقوام متحدہ کی جانب دیکھ رہی ہے اگر مسئلہ کا حل دنیا ڈھونڈنے میں ناکام رہی تو پھر افواج پاکستان‘حکومت اور عوام غزؤہ بدر جیسے جذبہ ایمانی کیساتھ میدان میں اتر کر بھارت کو ہمیشہ کے لئے دنیا کے لئے عبرت کا رزق بنا دیگی لیکن اس قبل کے دیر ہو جائے دنیا کے طاقتوروں کو اس مسئلہ کا حل ڈھونڈنا چاہیے بھارت کی ہٹ دھرمی کی پالیسی خطے اور دنیا کی امن و سلامتی کے لئے شدید خطرہ بنتی جارہی ہے دونوں ممالک کے درمیان اس مسئلہ کشمیر پر تین جنگیں ہو چکی ہیں ایسا نہ کہ دو جوہری ممالک کے درمیان ممکنہ جنگ دنیا کو کسی بڑی تباہی سے دوچار کر دے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :