معاشی بحران‘عملی اقدامات کی ضرورت!

بدھ 18 ستمبر 2019

Rao Ghulam Mustafa

راؤ غلام مصطفی

پا کستان تحریک انصاف کی حکومت اپنے اقتدار کا ایک سال مکمل کر چکی ہے وزیر اعظم عمران خان اور ان کی معاشی ٹیم تا حال ملک کی بہتر معاشی سمت کا تعین نہیں کر سکی جس کے باعث وطن عزیز میں بسنے والا عام آدمی بیمار معشیت کے سائے میں بمشکل زندگی کے روز و شب گزارنے پر مجبور ہے حالات اس نہج پر پہنچ چکے کہ اشیائے ضروریہ متوسط طبقے کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں ایک اندازے کے مطابق عام آدمی کے ماہانہ اخراجات کے بجٹ میں 17فیصد سے زائد اضافہ ہو چکا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے ابتدائی دنوں میں جو اکنامک ایڈوائزری کونسل بنائی تھی یہ اکنامک ایڈوائزری کونسل ملکی معشیت کو بہتری کی جانب گامزن کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے اور حکومت عام آدمی کو یہ اعتماد نہیں دلا سکی کہ معشیت کی بحالی کے لئے کتنا وقت لگے گا جس کے باعث تحریک انصاف کی حکومت کا ایک سال مکمل ہونے کے باوجود ملک میں لاغر معشیت نے بے یقینی کی صورتحال کو جنم دیا ہے۔

(جاری ہے)

ملک میں جاری احتساب کے تناظر میں دیکھا جائے تو حکومت کے قیام سے لے کر ابتک اس احتساب کے ثمرات ابھی تک واضح نہیں ہو سکے جس سے عوام کو اس بات کی تسلی ہو سکے کہ کرپٹ افراد سے احتساب کے ذریعے ملک و ملت کی لوٹی گئی دولت کی واپسی شروع ہو چکی ہے اس جاری احتساب سے یہ ضرور ہوا کہ ملک میں پیدا ہونے والے سیاسی عدم استحکام اور کمزور معشیت پاکستان کے بہتر مستقبل کے سامنے سوالیہ نشان بن کر کھڑی ہے ان حالات میں بھی حکومت ایک سال گزرنے کے باوجود اس بیانیے کیساتھ اقتدار میں ہے کہ اچھے دن زیادہ دور نہیں جلد ملکی معاشی صورتحال بہتر ہو جائے گیمشیر خزانہ حفیظ شیخ نے عوام کو امید دلائی کہ معشیت بحرانی کیفیت سے نکل آئی ہے اور اب مہنگائی کو کنٹرول کریں گے ۔

وزیراعظم عمران خان کا حکومت میں آنے سے قبل یہ دعویٰ تھا کہ اوورسیز پاکستانی ملک میں اتنی سرمایہ کاری اور پیسہ لائیں گے کہ یہ ملک جلد ترقی و خوشحالی کی منازل طے کرتے ہوئے دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا ہو گا حکومت کے ایک سال مکمل ہونے کے باوجود اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے ملک میں سرمایہ کاری کے حوالے سے حوصلہ افزاء نتائج سامنے نہیں آئے ۔

عمران خان نے حکومت بنانے سے قبل اپنی تقریروں کے دوران جو وعدے کئے اور عوام کی آنکھوں میں ترقی و خوشحالی کے سپنے چنے وہ کسی جنت کے وعدوں کے مترادف تھے ۔ملک کی خراب معشیت کی بنیاد دہائیوں پرانی ہے اس ملک کو لوٹنے والوں کی ایک لمبی فہرست اس کمزور معشیت کے ساتھ نتھی ہے عمران خان اور اس کی ٹیم نے حکومت میں آنے سے قبل معاشی چیلنجز سے نمٹنے‘ملک کو ترقی کی جانب گامزن کرنے اور عام آدمی کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لئے کوئی حکمت عملی وضع نہیں جس کے باعث معشیت کمزور ہوتی چلی گئی عمران خان اور اس کی معاشی ٹیم کے حوالے سے عوام کو جو توقعات تھیں وہ در حقیقت اتنی درست نہیں تھی عمران خان کی ایمانداری اور نیت پر شک نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ عمران خان اور اس کی معاشی ٹیم کو حکومت میں آنے کے بعد اس بات کا ادراک ہوا کہ حالات ان کی توقعات سے کہیں زیادہ خراب ہیں کیونکہ متعلقہ محکموں میں جس نوعیت کے انسانی وسائل اور مہارتوں کی ضرورت ہوتی ہے موجودہ حکومت کو اس کمی کا سامنا تھانا تجربہ کاری اور حکومتی رموز سے نا آشنائی کے باعث ملک بہتری کی بجائے ابتر حالات سے دوچار ہو گیا۔

حکومت نے آئی ایم ایف کیساتھ جو معاہدہ کیا ہے مالی سال 20-2019ء کا ٹارگٹ پچپن سو ارب حکومت کے لئے ایک مشکل ٹارگٹ ہے کیونکہ اس وقت ملک کساد بازاری‘برآمدات کا نہ بڑھنا‘لارج سکیل صنعتوں کی منفی گروتھ‘بڑھتی بے روزگاری اور دس فیصد سے زائد شرح مہنگائی کے ساتھ نازک ترین دور سے گذر رہا ہے ۔اس سال جی ڈی پی کی شرح نمو 3.25فیصد رہی جو بہت تشویشناک امر ہے ماہرین کے مطابق جہاں شرح نمو میں اضافہ سے عام لوگوں کو روزگار ملتا ہے وہیں غربت کی شرح میں کمی اور معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا ہے ۔

سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ کے مطابق ترقی کی رفتار میں حالیہ کمی کے باعث چالیس لاکھ سے زائد افراد خط غربت کی لکیرکے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور اور دس لاکھ افراد بے روزگار ہو چکے ہیں۔سال18-2017میں معاشی حجم 313ارب ڈالر تھا جو سال 19-2018میں گر کر 205ارب ڈالر پر آگیا ہے اس تنزلی کی وجہ سے روپے کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں چونتیس فیصد کمی واقع ہوئی ہے ۔

المیہ یہ ہے کہ زراعت‘صنعت‘تجارت‘معدنیات‘سیاحت تعلیم‘سائنس و ٹیکنالوجی اور دنیا کی بہتریں نوجوان افرادی قوت رکھنے والے ملک کی معاشی ابتری کے باوجود حکومت کے ترقیاتی اخراجات کم ہونے کی بجائے اس کے غیر ترقیاتی اخراجات سات ارب روپے سے زائد ہو چکے ہیں۔گذشتہ سال بجٹ خسارے کا جو تخمینہ 2175ارب روپے تھا جو بڑھ کر 3444ارب روپے ہو گیا یعنی قومی پیداوار کا 8.9فیصد ہو گیا جو گذشتہ سال کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔

وزارت خزانی کی فسکل آپریشنز رپورٹ کے مطابق حکومت نے ایک بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لئے 3028ارب روپے ملکی اور 416.7ارب روپے کا غیر ملکی قرض لیا حکومت نے مجموعی طور پر ایک سال کے دوران 1390ہزار روپے غیر ملکی قرض لیا ملکی معاشی عدم استحکام کے باعث ایک اندازے کے مطابق کاروباری افراد نے سات سو ارب سے زائد روپے بنکوں سے نکلوا لئے شدید کساد بازاری کے باعث ملک میں کاروباری سرگرمیاں ماند پڑتی جا رہی ہیں عوام پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ‘بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافہ‘اشیائے خوردونوش کی خریداری پر پندرہ فیصد ٹیکس‘بے روزگاری‘اور مہنگائی نے عوام کی زندگی کو مشکل بنا دیا ہے۔

اسٹیٹ بنک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک کا مجموعی حکومتی قرض 31.8ٹریلین روپے ہو چکا ہے ۔ورلڈ بنک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا قومی قرضہ سال 2018ء کے آخر تک مجموعی ملکی پیداوار کا 73.2فیصد بن چکا تھا جو سال 2019ء کے آخر تک 82.3فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے۔اگر صورتحال میں بہتری لانے کے لئے اقدامات نہ کئے گئے تو پاکستان کو بے تحاشہ قرض اتارنے کے لئے مزید قرض لینا پڑیں گے اگر موجودہ صورتحال کے پیش نظر عام آدمی کا معیار زندگی بلند کرنے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات نہ اٹھائے گئے تو جہاں حکومت عوامی غیض و غضب کا شکار ہو گی وہیں یہ ملک مزید قرضوں کی دلدل میں دھنس جائے گا اور یہ صورتحال صرف اور صرف بے روزگاری اور غربت کو جنم دے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :