درست سمت کا تعین ضروری!

منگل 9 مارچ 2021

Rao Ghulam Mustafa

راؤ غلام مصطفی

 کورونا وبا کی شدت میں واضح کمی کے باعث ملک میں معمولات زندگی پر لگی گرہ کھلنے لگی ہے کورونا نے جہاں کرہ ارض پر آباد طاقتور معاشی ممالک کی معشیتوں کو پچھاڑ کر رکھ دیا وہیں ترقی پذیر اور غریب ممالک اس ان دیکھے خطرناک وائرس کے لگے گھاؤ سے سسک رہے ہیں۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے لئے ایک طرف ملکی معشیت کو استحکام دینا بڑا چیلنج ہے تو دوسری جانب اپوزیشن بے وقت کی احتجاجی سیاست کے ذریعے ملک کو سیاسی عدم استحکام سے دوچار کر تے ہوئے انار کی طرف دھکیل رہی ہے۔

ملک عزیز اس وقت نازک ترین مشکل اور صبر آزما حالات میں مستقبل کی جانب پیش قدمی کر رہا ہے ۔اپوزیشن یک نکاتی ایجنڈا پر عمل پیرا ہے کہ عمران خان کی حکومت کے تخت کو کیسے تاراج کیا جائے سرمایہ دارانہ سوچ کی کوکھ سے جنم لینے والے بکاؤ دانشور طبقہ نے تندہی کے ساتھ اپنے مورچے سنبھال لئے ہیں اور وہ اپنی بھر پور صلاحیتوں کے ذریعے حکومت کے خلاف محاذ کھول کر اپنی نپی تلی تنخواہ کے عوض اپنے فرایض منصبی سے مفر اختیار کرتے ہوئے ترجمانی میں مگن ہیں۔

(جاری ہے)

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک میں اس وقت مہنگائی‘بے روزگاری اور غربت جیسے مہلک مسائل عام آدمی کے ساتھ نتھی ہو کر اس کی زندگی کے معمولات کو تلپٹ کر چکے ہیں ان مسائل کے کربناک سائے تلے متوسط طبقہ کی بھی چیخیں نکل رہی ہیں اب یہ حالات کورونا کے باعث پیدا ہوئے یا حکومت کی بیڈ گورننس کی بدولت لیکن عام آدمی حالات کا سزوار حکومت کو گردانتا ہے ۔

عوام کو انسانی بنیادی ضروریات زندگی کی سہولتوں سے آراستہ کرناریاست کی ذمہ داری میں شامل ہے درست سمت کا تعین نہ ہونا ہی حالات کے بگاڑ کا سبب ہے حکومت اپنے تین سال مکمل کرنے جا رہی ہے عمران خان کے لئے یہ حالات فکرمند اشارہ ہیں کہ آج احتساب کی چکی میں پستی اپوزیشن کو آکسیجن کیسے فراہم ہوئی اور حکومت مخالف میڈیا عوام میں تبدیلی مخالف تاثر ابھارنے میں کامیاب ہوا ۔

سینیٹ انتخابات گذر گئے حفیظ شیخ کو شکست ہوئی وزیر اعظم نے قومی اسمبلی کے ممبران سے اعتماد کا ووٹ بھی حاصل کر لیالیکن سینیٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے جوتماشا لگا ”ایک زرداری سب پر بھاری“ کے نعرے نے پی ڈی ایم کے تن مردہ میں جو جان ڈالی اس صورتحال نے حکومت کو جہاں پریشان کیا وہیں سیاسی و جمہوری روایات و اقدار کا بھی جنازہ نکل گیا سیاسی نجاست سے اٹھنے والے تعفن نے ملک کی سیاسی فضا کو مکدر کر کے رکھ دیا۔

مہنگائی‘بیروزگاری اور غربت جیسے مسائل ماضی کی حکومتوں کی گرہ سے بھی بندھے رہے لیکن موجودہ حکومت ان مسائل کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی ان حالات کو کشید کرنے میں بیوروکریسی اور کابینہ کی کارکردگی کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ حکومتی گورننس میں رخنہ ڈالنے والوں کے کردار کا بھی تعین ہو سکے۔عمران خان کو اس وقت ایک ڈویلپر کابینہ کی ضرورت ہے جو اہلیت و قابلیت کے پیمانہ پر پورا اترے جو درست سمت میں کئے گئے فیصلوں پر عملداری کو یقینی بنائے وقت کم اور مقابلہ سخت ہے پارٹی میں ہی عمران خان کو ایسے افراد مل جائیں گے جو کپتان کے ساتھ اپنی اہلیت و قابلیت کے بل بوتے پر تبدیلی کے نعرے کو آئیڈیل عملی تصویر دینے کے لئے دست و بازو بننے کو تیار ہیں اگر عمران خان واقعی حقیقی تبدیلی کے خواہاں ہیں تو پھر میجر(ر)خرم روکھڑی جیسے افراد کو حکومتی سیٹ اپ میں جگہ دینی چاہئیے جو عمران خان کے ساتھ نمل کالج سے اب تک کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں ایسے تعلیم یافتہ اہل اور قابل ورکر پارٹی اثاثہ ہیں ۔

ضلع میانوالی کے حوالے سے ان کی عوامی خدمات ‘اہلیت و قابلیت سے وزیراعظم عمران خان بخوبی واقف ہیں ۔المیہ ہے کہ کئی ایسے سیاسی فہم و فراست کے مالک اہل اور قابل گوہر نایاب پارٹی کا اثاثہ ہیں جنہیں ان کی اہلیت و قابلیت کے مطابق جگہ نہ دے کر تبدیلی کے ہمالیہ کو سر کرنے کی بے سود کوشش کی جا رہی ہے یہ معاملہ الگ سے مفصل تحریر کا متقاضی ہے جس کی وجہ سے تحریک انصاف کے نظریاتی کارکنوں میں مایوسی پائی جاتی ہے۔

بہر حال عمران خان کی حکومت کو کئی محاذوں پر چیلنجز درپیش ہیں اس وقت ملک کو نہ صرف سیاسی و معاشی عدم استحکام کا سامنا ہے بلکہ ملک دشمن قوتوں کی جانب سے داخلی اور خارجی سطح پر بھی چیلنجز کا سامنا ہے ملک دشمن قوتوں نے جو ملک کے ذرائع ابلاغ اور سیاسی جماعتوں میں بیج بو کر آبیاری کی ہے یہ اسی فصل کے مضر اثرات ہیں کہ ملک اس وقت سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے اگر اس فصل کو نہ کاٹا گیا تو پھر اس ملک میں نہ بے لاگ احتساب ہو سکے گا اور نہ ہی ملک و ملت کی ابتر حالت میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔

اس وقت مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیاء تبدیلی کے دوراہے پر کھڑے ہیں دنیا وقت اور حالات کے تقاضوں کے تحت تبدیلی کے مراحل سے گذر رہی ہے ۔شائد یہی وہ معروضی حالات ہیں جس کے باعث حالات کی دستک کو تقویت مل رہی ہے کہ پاکستان کا موجودہ سیاسی و جمہوری نظام اس قابل نہیں کہ یہ ملک ترقی و خوشحالی کی جانب سفر کا آغاز کر سکے ۔پارلیمانی نظام ہو یا صدارتی نظام ملک کی بائیس کروڑ عوام نے تحریک انصاف کو اس لئے مسند اقتدار سونپا کہ ملک سے کرپشن‘بد عنوانی‘سٹیٹس کو کا خاتمہ کر کے انصاف کا میزان قائم کرتے ہوئے ایسے مہذب معاشرے کی بنیاد رکھے جہاں وسائل کی تقسیم منصفانہ طریقے کے ساتھ مساوی ہو تا کہ ملک کے تمام افراد ملکی ترقی و خوشحالی کے قومی دھارے میں شامل ہو سکیں۔

روٹی‘کپڑا‘مکان‘تعلیم اور صحت کی سہولیات بہم پہنچانا ریاست کی ذمہ داری ہے جس کا تعین اقوام متحدہ کا چارٹر آئین پاکستان کرتا ہے لیکن حالات یہ ہیں کہ کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں عوام کے مسائل کم ہونے کی بجائے بتدریج بڑھتے جا رہے ہیں حالات کی سنگین کروٹیں ملک کے مخدوش مستقبل کی گواہ بنتی جا رہی ہیں موجودہ حکمرانوں کواب اداراک ہو جانا چاہیے کہ یہ وقت حالات کے تقاضوں کے ساتھ چلنے کی دعوت دے رہا ہے۔

عمران خان ملک کے اندرونی و بیرونی حالات کا خوب اداراک رکھتے ہیں ملک کے معروضی حالات کے پیش نظر عمران خان کیا فیصلے کرتے ہیں یہ موجودہ حکومت کی آنیوالے دنوں میں عملی پیش قدمی سے اندازہ ہو جائے گا لیکن اب عوام کو ریلیف دینے ‘سیاسی و معاشی استحکام کے لئے بولڈ اسٹپ لینے کی اشد ضرورت ہے ۔ماضی کے حکمرانوں اور آج کی اپوزیشن کو بھی چاہیے کہ حالات کی نزاکت کے پیش نظر اس فرسودہ نظام کی تبدیلی‘سیاسی و معاشی استحکام کے لئے حکومت کے مثبت فیصلوں کی تائید کرتے ہوئے حکومت کا ساتھ دے موجودہ حکومت کو موقع دے کیونکہ جمہوریت سے بڑا کوئی انتقام نہیں حکومت کو موقع دینے سے جمہوریت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو گا بلکہ جمہوریت مضبوط ہو گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :