آئی جی پنجاب سے چند گزارشات !

جمعہ 1 اکتوبر 2021

Rao Ghulam Mustafa

راؤ غلام مصطفی

سابق دور حکومت میں مسلم لیگ نون نے پانچ سالوں میں تین چیف سیکرڑی اور چار آئی جی تبدیل کئے تھے لیکن اس کے برعکس پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے تین سالہ دور اقتدار میں پانچ چیف سیکرٹری اور سات آئی جی پولیس تبدیل کئے ہیں جو ایک ریکارڈ ہے۔پولیس ریکارڈ کے مطابق نئے تعینات ہونے والے آئی جی پنجاب راؤ سردار علی خان 21فروری1965ء میں ضلع لودھراں میں پیدا ہوئے انہوں نے لاہور کی کنگ ایڈورڈ یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس بھی کیا اور انہوں نے 1990ء میں پولیس سروس جوائن کی آئی جی پنجاب اپنی 31سالہ پولیس سروس میں مختلف اہم عہدوں پر تعینات رہے وہ چاروں صوبوں سمیت وفاق میں بھی اپنی خدمات سر انجام دے چکے ہیں ۔

حکمران جماعت نے جب تین سال قبل زمام اقتدار سنبھالا تو کلیم امام آئی جی پنجاب تھے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے تین ماہ بعد انہیں اس عہدے سے ہٹا کر محمد طاہر کو تعینات کر دیا ایک ماہ بعد انہیں بھی ہٹا دیا گیا اور امجد سلیمی کو یہ عہدہ سونپ دیا گیاتاہم چھ ماہ بعد امجد سلیمی کو بھی عہدے سے ہٹا دیا گیا اور ان کی جگہ عارف نواز تعینات ہو گئے لیکن سات ماہ بعد یہ عہدہ شعیب دستگیر کو سونپ دیا گیانو ماہ بعد یہ بھی تبدیل کر دئیے گئے اور انعام غنی کو یہ ذمہ داری دے دی گئی لیکن انعام غنی کی کارکردگی بھی وزیر اعلی عثمان بزدار کو مرعوب نہ کر سکی اور اب راؤ سردار علی خان کو ساتویں آئی جی کی کمان سونپ کر پولیس کا صوبائی سربراہ مقرر کیا گیا۔

(جاری ہے)

پنجاب کے ترجمان فیض الحسن چوہان کی جانب سے میڈیا کو بتایا گیا تھا کہ میڈیا بھی دیکھ رہا کہ ہائی پروفائل کرائم میں اضافہ ہوا ہے اور اس کی روک تھام کے لئے تبدیلی ناگزیر سمجھی گئی ۔پنجاب میں ساتویں انسپکٹر جنرل پولیس کی تعیناتی نے جہاں حکمران جماعت کی گورننس پر سوالات اٹھائے ہیں وہیں پولیس سروس کے اندر سے بھی اٹھنے والی آوازیں سنائی دیتی ہیں ۔

پنجاب پولیس کی موجودہ صورتحال بہت مایوس کن ہے اگر پولیس کے محکمہ میں حسب سابق سیاسی مداخلت رہی تومحکمہ پولیس کی افادیت مٹاثر ہوتی رہے گی اور پھر اس ادارہ کی خود مختاری کو کون یقینی بنائے گا کسی بھی فورس کے لئے ضروری ہے کہ اس میں بھرتیوں کا عمل شفاف ہو اور میرٹ پر پرموشن اور تبدیلیاں کی جائیں ۔میری اس کالم کے توسط سے آئی جی پنجاب سے چندگزارشات ہیں کسی بھی مہذب معاشرے میں پولیس کا کردار جرائم کو کنٹرول کرنے اور امن عامہ کے قیام کے لئے بہت اہم اور قابل احترام ہوتا ہے کیونکہ پولیس معاشرے میں جرائم کی روک تھام اور امن قائم کرنے کا عہد اٹھاتی ہے لیکن بد قسمتی ہے کہ محکمہ پولیس کی مجموعی کارکردگی اور رویہ ناقابل ستائش ہے ۔

جدید ٹیکنالوجی اور اختیارات سے لیس پولیس فورس کو عوام دوست بنانے میں کون سے محرکات حائل ہیں محکمہ پولیس کی استعداد کار میں مثبت اضافہ ‘فلاح و بہبود‘اصلاحات‘امن عامہ کے قیام اور سائل کو بلا تعطل انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے ہر سال بجٹ میں خطیر رقم مختص کی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود عام آدمی پر عدم تحفظ کی چادر تنی ہے یقین سے کہہ سکتا ہوں اگر پولیس اور عوام کے درمیان قائم خیلیج کو ختم کر دیا جائے اور پولیس اپنے عملی کردار سے اپنے آپ کو عوام دوست ثابت کر دے تو سانحہ ماڈل‘اخروٹ آباد‘نقیب اللہ محسود‘سانحہ موٹر وے‘سانحہ ساہیوال جیسے واقعات سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بن کر کبھی بلیک ڈے کے نام سے یاد نہ کئے جائیں۔

پولیس آرڈر 2002ء کا مقصد پولیس کو جوابدہ‘خود مختار‘پیشہ ور اور سیاسی مداخلت سے پاک بنانا تھا لیکن تاحال یہ پولیس آرڈر عمل سے عاری ہے ۔محکمہ پولیس کو فعال بنانے کے لئے اہلیت کی بنیاد پر نئی بھرتیاں عمل میں لانے کی اشد ضرورت ہے قانون سازی کے ذریعے نا اہل‘کرپٹ پولیس آفیسرز اور اہلکاروں کو محکمہ سے فارغ کیا جانا چاہئیے تاکہ ذیشان کاظمی‘عابد باکسر‘نوید سعید اور راؤ انوار جیسے کردار دوبارہ جنم نہ لے سکیں۔

اکیسویں صدی کے لاء اینڈ آرڈر اور جرائم سے متعلقہ چیلنجز سے احسن اور بھر پور طریقہ سے نمٹنے کے لئے جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال ناگزیر ہے ۔جب تک پولیس کے واچ اینڈ انویسٹی گیشن نظام کو جدید خطوط پر استوار نہیں کیا جاتا تب تک معاشرے میں امن کے خواب کو تعبیر نہیں مل سکتی پولیس کلچر اسی صورت تبدیل ہو سکتا ہے جب تھانے کی چار دیواری تک عام سائل کی بغیر سہارے رسائی ممکن ہو گی محکمہ پولیس سے عام آدمی کے خائف ہونے کی بڑی وجہ یہی ہے کہ پولیس کی تربیت میں عملی طور پر ایسے رویوں کی آبیاری نہیں کی گئی جس سے عوام اور پولیس کے درمیان روابط مضبوط ہوں پنجاب میں پولیس افسران کی ہدایت پر اب تک ہزاروں کی تعداد میں کھلی کچہریوں کا انعقاد ہو چکا ہے لیکن عام سائل آج بھی انصاف کے لئے دربدر ہے اس کی بڑی وجہ محکمہ پولیس کے متضاد عمل و کردار سے پولیس کلچر کا تبدیل نہ ہونا ہے پولیس تھانہ میں تعینات ایس ایچ او کے مواخذہ اور احتساب کا جب تک پیمانہ طے نہیں کیا جائے گا تب تک پولیس رویہ عوام سے دوری کا سبب بنا رہے گا۔

بہر حال موجودہ حکومت کو بھی اداراک کرتے ہوئے ان محرکات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے جن کے باعث محکمہ پولیس کی کارکردگی معاشرے کو اعتماد نہ بخش سکی ایسی اصلاحاتی پالیسیاں لانا ہوں گی جن کی عملداری سے اداروں کی آزادی پر قدغن نہ آئین تین سالوں میں چھ آئی جی تبدیل کرنے کا مطلب ہے کہ کسی کو بھی کام کرنے کا پورا موقع نہیں دیا گیا کسی بھی ادارے کو مضبوط کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اسے خود مختاری کے ساتھ کام کرنے دیا جائے سیاسی قیادت کا کام محکمہ کو پالیسی دینا ہے تا کہ عوام کے مسائل حل اور ان میں کمی واقع ہو سکے سیاسی مداخلت کا دروازہ بند کر دینا چاہئیے اگر حالات کی سمت کا تعین نہ کیا گیا تو یہ یقین کر لینا چاہئیے ’رٹ آف سٹیٹ‘ بحال نہیں ہو سکتی!۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :