بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا رسوائی ہے !

جمعہ 17 اپریل 2020

Ruqia Gazal

رقیہ غزل

 چینی آٹا سکینڈل نے تبدیلی سرکار ٹیم کی کار کردگی اور ماہیت کھول دی ہے ہر سمت ساتھیوں کی بد نیتی بارے ایک شور بپا ہے سچ ہے کہ جو شاخ ِ نازک پہ آشیاں بنے گا نا پائیدار ہوگا اور جب باڑ ہی کھیت کھائے تو رکھوالی کون کرے گا ؟ اس ا سکینڈل میں ان مبینہ شخصیات کے نام ہیں جنھوں نے تحریک انصاف کو کامیاب بنانے اور عمران خان کو اقتدار کے ایوانوں میں بطور وزیراعظم پہنچانے کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دئیے تھے بدیں وجہ حکومت میں انھیں خاص مقام حاصل رہا ہے اور وہ سیاہ و سفید کے مالک بنے بیٹھے تھے جس کی وجہ سے بعض ابتدائی رفقاء حسد میں بھی مبتلا تھے ایسے میں اس گونج نے کہ مبینہ سکینڈل رپورٹ ارباب اختیار کی طرف سے لیک ہوئی ہے ایک سوالیہ نشان بنا دیا ہے ۔

ایسی افراتفری ہے کہ اس سکینڈل کی فرانزک رپورٹ 25 اپریل کو آئے گی مگر اس سے پہلے ہی کابینہ میں اہم تبدیلیاں کی جا چکی ہیں حالانکہ نامزد شخصیات نے تحقیقاتی رپورٹ کو سازش اور ذات پر حملہ قرار دیا ہے یعنی فرانزک رپورٹ آنے سے قبل کچھ بھی کہنا نامناسب ہے لیکن ہر سطح کے مخالفین کی خوشی دیدنی ہے اور عوام انگشت بد انداں ہیں کہ ریاست مدینہ کا وعدہ کیا ہوا !
حیرت کی بات ہے کہ اتنے بڑے سکینڈل پر ہماری سرکار صرف وزارتوں اور عہدوں کی تبدیلیوں میں سمٹ کر رہ گئی اورجن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔

(جاری ہے)

یہ بازگشت بھی عام ہے کہ اس رپورٹ کی بنیاد پر مزید بڑے نام بے نقاب ہونگے جس سے کابینہ میں مزید تبدیلیاں ہونگی کیونکہ کرپشن پر سمجھوتا ناممکن ہو گا ۔یہ وہ بیانیہ ہے جو ڈیڑھ برس سے پوری دنیا سن رہی ہے بلکہ قسم کھا کر سخت احتساب کا اعلان کیا جاتا رہا جبکہ آج ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ ملک و قوم کے سبھی مبینہ ملزم جن پر سنگین مبینہ الزامات تھے اور انھیں سزائیں سنائیں گئیں تھی یک بعد دیگرے ضمانتوں پر رہا ہوتے گئے اور وہ آج آزاد گھوم رہے ہیں حتہ کہ سزا یافتہ مجرمان کو بھی جیلوں سے رہا کر دیا گیا۔

لہذا ”کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے ،یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہوگا “ویسے بھی اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ برسر اقتدار اور اپوزیشن جماعتوں کا دوہرا معیار ہمیں دیمک کی طرح چاٹ چکا ہے اور ہم اصلاح ملک و ملت کا عزم بھی بھول چکے ہیں قانون کی عملداری صرف کمزور عام آدمی کی حد تک ہے اسی لیے خلیل جبران کہتا ہے کہ ”اُس نے کہا ،میں نے مان لیا ، اُس نے زور دے کر کہا ، مجھے شک ہوا ، اس نے قسم اٹھائی مجھے یقین ہو گیا یہ جھوٹ بول رہا ہے “۔

قارئین کرام ! جب میاں نواز شریف اور خان صاحب نے تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہوئے کرپشن کے خاتمے کا دعوی کیا تھا تو ہم نے لکھ دیا تھا کہ کرپشن ذاتی مفادات کے حصول کا نام ہے اس لیے دیکھا دیکھی ہر با اختیار اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کرپشن کرنے پر تلا ہوا ہے اور یہ کبھی بھی ختم نہیں ہو سکتی مگر ایک طریقہ تھا کہ نوجوان قیادت کو موقع دیا جاتا اور ماضی کے پیشہ ور سیاسی شعبدہ بازوں کو دور رکھا جاتا تو یہ نظام بہتر ہوسکتا ہے مگر یوتھ کو ساتھ لیکر چلنے کا عزم کرسی کی مضبوطی کی بھینٹ چڑھ گیا اور نوجوانوں کی جماعت ماضی کے سیاسی کاروباری سیانوں کے گٹھ جوڑ سے اپنا تشخص کھو بیٹھی اور ہر دور کی طرح آج بھی ہر طرف سے انگلیاں اٹھ رہی ہیں کہ اکثریت نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں جورسوائی ہے جس سے بدنامی مل رہی ہے کیونکہ کوئلوں کی دلالی سے منہ تو کالا ہوتا ہی ہے ویسے ایک نیا طریقہ بھی ایجاد ہوا ہے کہ اشرافیہ پر الزامات شفافیت کا سرٹیفکیٹ دینے کے لیے کیسز لگائے جاتے ہیں تو اول تو ایسی کوئی صورت نظر نہیں آرہی جس سے یہ اسکینڈل بہت بڑی سبق آموز مثال قائم کرے گا باالفرض ایسا ہو بھی گیا تو ممکن ہے کہ پی ٹی آئی کے مقابل ایک ایسا مخالف گروپ تیار ہو جائے کہ جو تاریخ دہرا دے یعنی وہ سب جو حزب اختلاف کے خلاف مبینہ الزامات کی آڑ میں کیا گیا ہے کہ دوبارہ پھر کلین چٹ دیکھنے کو مل جائے۔

فی الحال تو حفظ ما تقدم کے طور پر وزارتوں کو تبدیل کر دیا گیا ہے یہ بھی دلچسپ امر ہے کہ مہذب اقوام میں کرپشن اور نا ہلی ثابت ہونے پر سزائیں دی جاتی ہیں جبکہ ہمارے ہاں وزارتیں تبدیل کر دی جاتی ہیں پھر بھی سب کی نگاہیں بنی گالہ کی طرف لگی ہیں کہ چینی آٹا اور گندم سکینڈل کا انجام اور فیصلہ کیا ہوتا ہے ؟
بہرحال ایک طرف کرونا کا خوف اور دوسری طرف کرپشن کا شور ہے کہ سیاسی میدان میں بھی کھلبلی مچی ہے بظاہرگھروں میں محصور ہونے کی وجہ سے کوئی خاص ردعمل سامنے نہیں آرہا بس بیانیوں پر اکتفا کیا جا رہا ہے مگر معاملہ گھمبیر ہے کیونکہ ڈیڑھ برس سے عام آدمی کو کوئی ریلیف نہیں ملا تھا اب بھی کوئی ایسا ریلیف نہیں دیا گیا تھا جو تبدیلی سرکار کی مسیحائی کے دعوی کو درست ثابت کرتا بلکہ امدادی پیکج سے بھی صاف لگتا ہے کہ آنکھوں میں دھول جھونکی جا رہی ہے مگر ہوائیں مستقبل میں تشویشناک حالات کا مژدہ سنا رہی ہیں کیونکہ جیسے لاک ڈاؤن کا دورانیہ بڑھ رہا ہے ویسے مفلوک الحالی بھی بڑھ رہی ہے جس سے جرائم بڑھیں گے یہ بھی زیادتی ہے کہ بیرون ممالک اور مخیر حضرات سے امدادی پیکج اور امدادی سامان ملنے کے ساتھ ساتھ عوام الناس سے لائیو نشریات میں بھی امداد کی اپیل جاری ہے حالانکہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں دو گنا اضافہ ہو چکا ہے جس سے عام آدمی سخت نالاں ہے کیونکہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی5 کروڑ ڈالر کی منظوری دے دی ہے جو اقوام اپنی راکھ سے اٹھ کر دنیا پر چھا گئیں انھوں نے اپنی افرادی قوت اور موجودہ وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے دنیا میں اپنا لوہا منوایا لہذا اب مزید امداد کی نہیں بلکہ کسی باکردار اور با صلاحیت لیڈر شپ کی ضرورت ہے ورنہ کاسہ لیسوں کے حالات کبھی نہیں بدلتے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :