بے شک انسان خسارے میں ہے !

پیر 8 جون 2020

Ruqia Gazal

رقیہ غزل

آج کا انسان سماجی ومعاشرتی ادب و احترام سے بہت دور دکھائی دیتا ہے جس طرف بھی نگاہ اٹھاؤ ! اکثریتی طور پر نفسا نفسی ، خود غرضی ،بے سکونی ،لاپرواہی اور بد اخلاقی کے ڈیرے ہیں ۔ کرخت ،چیختے چلاتے لہجے اور سخت گیر رو یے معاشرتی اقدار کی دھجیاں اڑا رہے ہیں ۔ایسابے ہنگم سا اور پریشان خیال معاشرہ دو قومی نظریے کی بھی بیخ کنی کر رہا ہے اور دشمنان وطن پاکستانیوں کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھا رہے ہیں مگر غفلت کے پردے فہم و ادراک پر ایسے پڑے ہیں کہ دکھائی اور سنائی کچھ نہیں دیتا ۔

۔حالا نکہ حضور اکرم نے مسلمان کی تعریف ان الفاظ میں ارشاد فرمائی:”مسلمان وہ ہے ،جس کی زبان اور ہاتھ سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں “۔ ایک اور جگہ فرمایا کہ” زبان درازی سے زیادہ بری خصلت آدمی کیلیے اور کوئی نہیں“ ۔

(جاری ہے)

حضور نے منافق کی تین علامات ارشاد فرمائیں : ”پہلی یہ کہ بات کرے تو جھوٹ بولے ،دوسری یہ کہ کسی سے بات کرے تو بد کلامی کرے ،تیسری یہ کہ کسی سے وعدہ کرے تو پورا نہ کرے “جبکہ معاشرے کی خوبصورتی میانہ روی ،تحمل مزاجی ،رواداری اور عدل و انصاف میں ہے اگر ان کا فقدان ہو تو جارحیت ، شدت پسندی ،بے راہ روی ، اضطراب ، پریشانی ،نا شکری اور لاقانونیت جیسے رویے جنم لیتے ہیں ۔

عدم برداشت نے ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے ۔۔ہم پتھر کا جواب اینٹ سے دینا ،کمزور کو دبانا اور طاقت کے زور پر جھکانا اپنی بڑائی سمجھتے ہیں ۔معمولی بچوں کے جھگڑے پر بھی مرنے مارنے پراتر آتے ہیں حالانکہ ہم ایک ایسے عظیم ترین نبی کی امت ہیں جس نے طائف کی گلیوں میں سنگ ریزوں سے لہولہان ہو کر بھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تھے اور کوڑا پھنکنے والی عورت کے ساتھ ایسے حسن سلوک کا مظاہرہ کیا کہ وہ حلقہ بگوش اسلام ہو گئی مگر ہم ایسے لوگ بن چکے ہیں جو صبر و تحمل ، خندہ پیشانی ،خوش اخلاقی اور رواداری جیسے اوصاف اور اقوال ہر روز دوسروں کے لیے ضرور شئیر کرتے ہیں مگر خود عمل نہیں کرتے
سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ ان جارحانہ اور غیر مہذبانہ رویوں کی وجہ کیا ہے ؟ وہ کونسے عوامل ہیں جو ہماری معاشرتی اساس کو کمزور کر رہے ہیں تو واضح ہے کہ جب کسی انسان کے بنیادی حقوق سلب کر لیے جائیں ، حقدار کو حق نہ ملے ، طبقاتی نا ہمواری کا ماحول ہو ، عدل میں تاخیر ہو اور بلا امتیاز انصاف کی فراہمی نہ ہوجبکہ اشرافیہ ہر قسم کے قانون سے بالاتر نظر آئے ، معاشی حالات بس سے باہر ہو جائیں ، خواہشات اور ضروریات خواب و خیال بن جائیں تو عدم برداشت اور عدم رواداری کا پیدا ہونا قدرتی عمل ہوتا ہے ان حالات میں وہی شخص نرم گفتار اور بردبار رہتا ہے جس کا اللہ پر کامل ایمان ہوتا ہے ورنہ تو ان حالات میں انسان اپنا دشمن ہوجاتا ہے چہ جائیکہ وہ دوسروں سے اچھا برتاؤ کرے ۔

جبکہ خوش اخلاقی اور شیریں کلام کی اہمیت مسلمہ ہے کہ پرانے وقتوں میں بادشاہ عوام کے لیے اتنا سوچتے تھے کہ بسا اوقات عوام الناس پر اور ان کے ساتھ ہونے والے حادثات بارے بادشاہوں کو خوابوں میں اشارے مل جاتے تھے اور اس کے مطابق اقدامات کی کوشش کی جاتی تھی مگر آج کے حکمران اپنے مفادات کے سوا کچھ بھی نہیں دیکھتے ۔ایسا ہی ایک بادشاہ تھا جو خوابوں پر یقین رکھتا تھا اوراس کے خواب ممکنہ حادثات و واقعات کی نشاندہی بھی کرتے تھے ۔

ایک دفعہ بادشاہ نے خواب دیکھا کہ اس کے تمام دانت گر چکے ہیں ۔بادشاہ نے نجومی بلوایا اور اس سے خواب بیان کیا ۔نجومی نے خواب سنا تو اس کا رنگ فق ہوگیا اور اعوذ باللہ اعوذباللہ کہنے لگے ۔بادشاہ نے گھبرا کر دریافت کیا : ”کیا تعبیر ہے اس خواب کی ؟“نجومی نے ڈرتے ڈرتے کہا : ”چند سال کے بعد آپ کے خاندان کے سب افراد وفات پا جائیں گے اور آپ سلطنت میں اکیلے رہ جائیں گے اور دشمنوں کے ہاتھوں بری طرح مارے جائیں گے ۔

یہ سُن کر بادشاہ کو طیش آگیا اور اسے کوڑے لگانے کے بعد قید خانے میں پھینکنے کا حکم دے دیا۔اس کے بعد دوسرانجومی حاضر کرنے کا حکم دیا ۔وہ آیا اور بادشاہ نے اسے خواب سنایا اور تعبیر پوچھی ۔۔نجومی خوش رُوئی سے مسکرایا اور بولا :” بادشاہ سلامت کا اقبال بلند ہو ۔۔خوشی کی بات ہے۔بادشاہ نے پوچھا :”وہ کیسے ؟“ نجومی نے مسکرا کر جواب دیا :”اس کی تعبیر یہ ہے کہ آپ کی عمر لمبی ہوگی ، آپ خاندان میں سب سے آخر میں فوت ہونگے اور تمام عمر بادشاہ رہیں گے ۔

“ بادشاہ یہ تعبیر سن کر بہت خوش ہوا اور انعام و کرام دیکر رخصت کیا ۔۔بات ایک ہی تھی کہ جب آپ مریں گے آپ کے اہل خاندان پہلے ہی مر چکے ہونگے مگر مختلف طریقوں سے کہی گئی تو نتائج بھی مختلف نکلے ۔۔افسوس ہمارے پاس دینی اور دنیاوی تمام علوم میں خوش خلقی اور ایک دوسرے کو برداشت کر کے ساتھ چلنے کی نصیحت کی گئی ہے مگرہم دنیاوی لذتوں کے حصول میں زیاں کا احساس ہی کھو چکے ہیں ”ان الانسان لفی خسر “ بے شک انسان خسارے میں ہے “ آئے روز عدم برداشت کے لرزہ خیزواقعات اورغیر مہذبانہ خبریں دیکھنے اور سننے کو مل رہی ہیں کہ کرونا جیسی ہولناک وبا اور طیارہ حادثہ سمیت دیگر المناکیوں کے باوجود حالات حاضرہ عجیب نقشہ پیش کر رہے ہیں ۔

عوام سوچ رہے ہیں کہ ٹریفک پولیس کے پاس اتنا وقت ہے کہ راستہ روکنے پر مرد و زن کے غیر اخلاقی رویوں پر ویڈیو بنائیں اور وائرل کریں جبکہ بد لحاظی کے لیے ذات ،قوم اور وراثت شرط نہیں ہوتی ؟ اب کیا الیکٹرانک میڈیا کے پاس یہی اہم ایشو رہ گیا ہے کہ نا عاقبت اندیش افراد کے معاشقوں اور جارحانہ رویوں کو سر عام دکھائیں ؟کرونا ختم نہیں ہوا ، معاشی مسئلہ سر اٹھا چکا ہے ، امداد کا کیا بنا ،کس کو ملی ،کس کو ملے گی اور احتیاطی تدابیر کے لیے ارکان اسمبلی اپنے علاقوں میں کیا اقدامات کر رہے ہیں ان پر بات کیوں نہیں کی جاتی ؟نان ایشوز میں حقیقی مسائل کو کیوں دبا یا جا رہا ہے ؟آپ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اکثریتی بااثرشخصیات کی فیملیز کے غیر مہذبانہ اورتحکمانہ لہجے ہمیشہ سے زیر بحث رہے ہیں جہاں ایسی سنگینی بھی دیکھنے کو ملی کہ اوورٹیک کرنے پر موٹر سائیکل سوار دہی لیجانے والے بھائیوں کو عہدے دار کے گارڈ کی اندھی گولیوں نے موت کی نیند سلا دیا تھا اسکے علاوہ بھی ایسی سینکڑوں مثالیں ریکارڈ پر موجود ہیں جہاں لاقانونیت کا کھلے عام مظاہرہ کیا گیا لیکن کمزور ہی خسارے میں رہا اور خبر کے ہائی لائیٹ ہونے کے باوجود بھی حاصل حصول کچھ نہ ہوا ۔

یہی دیکھ لیں کہ معصوم پھولوں اور کلیوں کو مسلنے والوں کے لیے بھی کوئی عبرت ناک قانون تاحال نہیں بن سکا اور پھر ایک بچہ ایک درندے کا شکار بن گیامزید سوشل میڈیا کی وجہ سے بلیک میلنگ اور ذاتی عناد میں عزتوں کی دھجیاں بکھیرنے کا نیا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے جو کہ خطرناک حد تک پھیل رہا ہے جس کا تدارک بہر صورت ہونا چاہیے مگر تدارک کون کرے گا تمام قسم کی پابندیوں کے باوجود علی امین گنڈا پوری نے جلسہ کر ڈالا جبکہ پولیس اس وقت دکانیں بند کروانے میں مشغول تھی یہی وہ دوہرا معیار ہے جو عدم برداشت کی وجہ بن چکا ہے۔

بہر حال جو کچھ ہو رہا ہے اس کی وجہ صرف دین سے دوری ہے جب تک حکام بالا کے قول و فعل میں تضاد رہے گا اور وہ اپنی زندگیاں سیرت النبی ،قرآنی تعلیمات اور سیرت صحابہ کے مطابق نہیں گزاریں گے تب تک کچھ نہیں بدلے گا بلکہ آگے بھی خسارہ ہی خسارہ ہے ۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :