
دلوں سے بھی اترنے لگے !
جمعرات 2 جولائی 2020

رقیہ غزل
(جاری ہے)
تاریخ کے ایسے نازک دور میں کہ ایک طرف کرونا انسانی جانیں نگل رہا ہے دوسری طرف حکومت اتحادیوں اور ناراض وزراء کو منانے میں کوشاں ہے انصافی اتحادمیں دراڑکا ذمہ دار بھی قریبی رفقاء کو ٹھہرایا جا رہاہے کیونکہ اپوزیشن کا کردار تو نہ ہونے کے برابر ہے وہ عوامی مسائل اجاگر کرنے کم اور تنقید کرنے زیادہ آتے ہیں۔ یہ گڑگڑاہٹ کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ بھی ہو سکتی ہے کیونکہ اعلیٰ عدلیہ کو مطمئن نہیں کیا جا سکا ، عوام میں بھی عدم اعتماد کی فضا پھیل چکی ہے اور ملکی حالات دوبارہ لاک ڈاؤن پالیسی کیوجہ سے شدید معاشی بحران کی طرف جا رہے ہیں حکومتی ترجیح تو یہ ہونی چاہیے تھی کہ مختلف عوامی اور قومی معاملات میں عوام کا احساس محرومی ختم کیا جا ئے مگر ایسا کچھ نہیں کیا گیا بلکہ سبھی کوششیں صرف پارٹی استحکام اور پارٹی قائدین کے تحفظات دور کرنے کے لیے کی جاتی رہیں اور دیرینہ صوبائی و عوامی رنجشیں اور مطالبے عدم اعتمادکی شکل میں سامنے آ رہے ہیں ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سیکیورٹی اداروں نے دہشت گردی سمیت تمام گھمبیر مسائل پر جانوں کی قربانیاں دیکر قابو پایا ۔اکثرمنظم گروہ ٹوٹ گئے اور اکثر گمراہ لوگ راہ راست پر آگئے کہ انھوں نے مجبور ہو کر سیکیورٹی اداروں کے سامنے خود ہتھیار پھینک دئیے تھے اور بلوچوں کا بھی اعتماد بحال ہوا تھا مگر ملک میں مذہبی ،لسانی نوعیت کی دہشت گردی اور کئی نوع کا ریاستی جبر اسی وحشت اور تسلسل سے جاری تھا جو کہ قابل اصلاح تھا بایں وجہ سیاسی قائدین اور افسر شاہی کو سیکیورٹی افسران کے ساتھ بھرپور تعاون کرنے کی ضرورت تھی تاکہ امن عامہ کو فروغ مل سکے اور تعصبات کا خاتمہ ہو سکے مگر ایسا نہ ہوسکا بلکہ روایتی اور نمائشی کام ترجیحات کا حصہ رہے حالانکہ پاکستان جن مسائل سے دوچار تھا ایسی دو عملی کی قطعاً گنجائش نہیں تھی نتیجتاً جو کل تک تعریفوں کے پل باندھتے نہیں تھکتے تھے آج وہی کہہ رہے ہیں کہ عوام نے ہمیں نٹ بولٹ کسنے کے لیے منتخب نہیں کیا تھا ۔یقینا ایسی بیان بازیاں تبھی ہوتی ہیں جب مفادات پر ضرب پڑتی ہے مگرحکمران جماعت کا ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنا لمحہ فکریہ ہے ۔ندیم افضل چن کے استعفی کی خبریں گردش کر رہی ہیں اور راجہ ریاض نے سر عام چینل پر پارٹی کی کار کردگی سے غیر مطمئن ہونے اور مستعفی ہونے کا اعلان کر دیاہے یعنی” اپنے بھی خفا ہم سے ہیں‘ بیگانے بھی “ناراض رہنماؤں کومنانے کا ٹاسک سونپا جا چکا ہے اور دے دلا کر معاملات ٹھیک بھی ہو جائیں گے مگروقت ٹپاؤ نظام کب تک چلے گا ؟ مالی خساروں کے واویلے ہر وقت سننے کو ملتے ہیں بجٹ غیر تسلی بخش ہے اورگھر کے گھر بے چراغ ہو رہے ہیں مگر حکومت سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی تجاہل عارفانہ کا مظاہرہ کر رہی ہے تنخواہیں صرف سرکاری ملازمین کو مل رہی ہیں باقی تقریباً پورے ملک میں مکمل لاک ڈاؤن ہے تو دھیاڑی دار اور دیگر افراد کیسے کمائیں گے اور کیا کھائیں گے جبکہ مرنا بھی مہنگا ہوگیا ہے بلکہ آج پھر خان صاحب نے کہا ہے کہ اگلہ مرحلہ مزید مشکل ہے ،جواب ان سے مانگا جائے جو ملک کو اس حالت میں چھوڑ کر گئے ،وزیراعظم قوم کے باپ کی طرح اور عوام اس کے بچوں کی طرح ہوتے ہیں۔ عوام پوچھ رہے ہیں کہ 20ماہ میں کیا کیا ہے ؟ ایسے وبائی ماحول میں عوام کو ریلیف دینے کی بجائے اسلام آباد میں مندر کی بنیاد رکھی جا رہی ہے پہلے جو قرضے لیے گئے ان میں سے گوردوارہ تعمیر کروا دیا گیا اور یہ سب قومی خزانے سے ہوااقلیتوں کے لیے اچھا کریں مگر موقع ومحل بھی دیکھنا چاہیے جبکہ حالات یہ ہیں کہ ہماراٹیسٹنگ سسٹم خواہ کسی بھی مہلک بیماری کی تشخیص کے لیے ہو غلطی کی گنجائش رہتی ہے جسے طبّی معالج تسلیم کرتے ہیں مگر اب ٹیسٹنگ کٹس کے بوگس ہونے کی تصدیق نے عوام الناس پر بجلی گرا دی ہے یعنی کرونا ٹیسٹ مہنگا اور نا قابل اعتبار بھی ہے مزید ہسپتال عملے کے مطابق سینکڑوں اصلی ٹیسٹ سمپل ویسے ہی گم ہو جاتے ہیں اور اگر مریض کے ورثاء زیادہ شور کریں تو ٹیسٹ رزلٹ خود بنا دیا جاتا ہے ۔یہ ایک نفع بخش کاروبار بن چکا ہے مگر کوئی گرفت نہیں ہے ۔دیدہ دلیری اور نا اہلی کی حد اور کیا ہوگی کہ ایک اخبار میں خبر شائع کر دی گئی ہے کہ دوا ساز کمپنیاں کوشش کر رہی ہیں کہ کسی قسم کی دوا کی قلت نہ ہو دوسری طرف حکومت کی درآمدی پالیسی میں غیر ضروری تاخیر اور عدم فیصلہ سازی کیوجہ سے خام مال تعطل کا شکار رہا ہے اس لیے دواؤں کی شدید قلت کا خطرہ ہے ۔ایک بحران ختم نہیں ہوتا تو دوسرا سر اٹھا لیتا ہے مثالی حکومتیں لوگوں کے شعور پر نہیں بلکہ دلوں پر راج کرتی ہیں صرف 20 ماہ میں عوام اور اتحادی حکومت سے مطمئن نہیں رہے ۔مرکزی قائدین کو سوچنا چاہیے کہ اتنے کم وقت میں وہ کیوں ! دلوں سے اترنے لگے ہیں ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
رقیہ غزل کے کالمز
-
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل رپورٹ ایک لمحہ فکریہ
جمعرات 17 فروری 2022
-
وزیر اعظم اپنے مشیر تبدیل کریں !
جمعہ 21 جنوری 2022
-
تحریک انصاف مزید قوت کے ساتھ کب ابھرے گی ؟
جمعہ 31 دسمبر 2021
-
انقلاب برپا کرنے والی مہم
پیر 13 دسمبر 2021
-
آرزوؤں کا ہجوم اور یہ ڈھلتی عمر
بدھ 1 دسمبر 2021
-
حساب کون دے گا ؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
پہلے اپنا احتساب کریں پھر دوسروں سے بات کریں !
جمعرات 11 نومبر 2021
-
سیاستدانوں باز آجاؤ !
جمعرات 21 اکتوبر 2021
رقیہ غزل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.