راست گو میڈیا اینکرز

پیر 27 اپریل 2020

Saad Iftikhar

سعد افتخار

قرآن مجید کی سورة الفرقان میں اللہ رب العزت نے عباد الرحمن کے چند اوصاف بیان فرمائے ، اللہ سبحانہ تعالی نے ارشاد فرمایا
عباد الرحمن الذین یمشون علی الارض ھونا و اذا خاطبھم الجاھلون قالو سلمََا ة
رحمن کے بندے جو زمین پر تواضع سے چلتے ہیں اور جب جاہل سے مخاطب ہوتے ہیں تو سلام کہہ دیتے ہیں ۔


اس سے آگے اللہ رب العزت نے مزید ان کے اوصاف بیان فرمائے کہ وہ اپنی راتوں کو قیام اور سجود میں گزارتے ہیں ،جہنم کی چِمٹ جانے والے آگ سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ، خرچ کرنے میں اعتدال پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور بخیلی سے کام نہیں لیتے ۔ اس سے آگے اللہ رب العزت نے مزید اپنے پیاروں کی شان بیان فرمائی لیکن ہم اس سارے مضمون میں صرف دوسری صفت (خاطبھم الجاھلون قالوا سلمََا )پر بات کریں گے ۔

(جاری ہے)


ایک روایت ہے کہ رسول پاک ﷺ کے پاس ایک شخص نے دوسرے کو گالی دی ، برا بھلا کہا تو دوسرے نے جوابََا برا بھلا کہنے کے اس پر سلام بھیجا کہ اللہ تم پر سلامتی فرمائے ،آقا علیہ الصلوة والسلام نے ان کی تکرار کے بعد ارشاد فرمایا کہ تم صاحبان کے درمیان ایک فرشتہ موجود تھا جب گالی دینے والا گالی دیتا تھا تو فرشتہ اس کی گالی اسی کو لوٹاتا تھا اور جب سلام بھیجنے والا سلام بھیجتا تھا تو فرشتہ کہتا کہ اس سلام کا صحیح حقدار تو ہے۔


اس پر شاگرد مولائے کائنات سیدنا امام حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے بندے اپنی زبان کو ناپاک نہیں کرتے وہ دن کو لوگوں کی جلی ،کٹی باتیں سنتے ہیں اور رات کو اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں ۔اب اصل بات کی طرف آتے ہیں جس کیلئے یہ ساری تمہید تھی ۔
3دن پہلے وزیر اعظم کے فنڈ ریزنگ پروگرام میں مولانا طارق جمیل کی اختتامی دعا تھی، دعا سے پہلے مولانا نے مختصر سی گفتگو کی ، جس میں مولانا نے ہماری معاشرتی برائیوں پر بات کی کہا کہ ہماری قوم جھوٹی ہے ہم جھوٹے ہیں ، سینئیر اینکرز کی موجودگی میں مزید کہا کہ ہمارا میڈیا بی جھوٹا ہے دن رات سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا کر عوام کو دیکھاتے ہیں ،فحاشی کو پروموٹ کرتے ہیں ۔

ایسے میں ،میں کس سے شکوہ کروں کس سے بات کروں ؟ میں خود مجرم ہوں ،میں اس قوم کی صحیح سے تربیت نہیں کر سکا اور ان برائیوں کی وجہ سے ہم پر کرونا جیسی وباء عذاب کی شکل میں مسلط کی گئی ۔
اسی گفتگو کے دوران مولانا نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک میڈیا چینل کے مالک نے ایک دفعہ مجھ سے کہا کہ مولانا مجھے کچھ نصیحت کریں تو میں نے کہا کہ اپنے چینل سے جھوٹ کو ختم کر دو تو وہ مالک کہنے لگا کہ مولانا اگر جھوٹ کو ختم کر دوں گا تو چینل کیسے چلے گا ۔


بس پھر مولانا کی اس گفتگو کے بعد دیسی لبرل، مذہبی انتہا پسند، سیاسی چمچے ااور ہمارے کچھ نام نہاد صحافی حضرات نے مولانا کے خلاف محاذ کھڑا کر لیا ۔لبرل کو مرچیں تب لگیں جب مولانا نے بے حیائی اور فحاشی کی بات کی اور قوم لوط کی مثال دی کہ اس قوم پر بے حیائی کی وجہ سے سب سے بڑا عذاب آیا ،اس پر میں ایک محترمہ کا کا لم پڑھ رہا تھا کہ جس میں و ہ مولانا کو نشانا بناتے ہوئے کہہ رہی ہیں کہ مولانا خدا آپ کا بھی ہے اور چھوٹے کپڑوں والی کا بھی ہے ۔

حیرانگی کی بات ہے کیسے ڈھیٹ ہو کر بے حیائی کوڈیفینڈ کر رہی ہے ۔
اس کے بعد انتہا پسند وہ تو ہر وقت ایسے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں کہ کب کوئی ایسا واقعہ ہو اور ہم مذہب کے نام پر نفرتیں پھیلائیں ،اس پر نشانہ اس طرح بنایا گیا کہ مولانا کبھی شیعہ کیساتھ ہوتا ہے کبھی بریلوی کے ساتھ کبھی اہلحدیث کیساتھ کبھی کسی اور کے ساتھ ،اس کا اپنا کونسامذہب ہے ؟ بھلا یہ باتیں کرنے والی ہیں کہ کوئی دوسرے کے پاس جاتا ہے تو کیوں جاتا ہے؟
سیاسی لوٹوں کی تب جلی جب مولانا نے کہا کہ عمران خان محنتی آدمی ہے اللہ اس کی مدد کریں ، اور ان کے علاوہ سب سے بڑھ کر پیش پیش وہ حضرات ہیں جنہیں مولانا نے لائیو آئینہ دیکھایا ، ہمارے سچے ، دیانتدار ، پاک باز، راست گو چند اینکرز حضرات جنہوں نے مولانا کی وہ پگڑی اچھالی کہ جوابََا مولانا کو اُن جھلاء کو سلام کہنا ہی پڑا ۔

لائیو شو میں بلا کر مولانا سے ایسے سوال جواب کر رہے تھے جیسے وہ کسی سنگین قسم کے جرم میں مرتکب ہوں ۔
کچھ صحافیوں کی تحریریں اس قدر سخت تھیں کہ پڑھ کر دل غمگین ہوا کہ آیا یہ ایک دین کے عالم کو ٹریٹ کر رہے ہیں ، ایک صاحب نے لکھا کہ شروع میں میرا اور مولانا کا معاہدہ ہوا کہ نہ مولانا مجھے تبلیغ کریں گے اور نہ میں مولانا کو سیدھے راستے پر لاوں گا ۔

پتہ نہیں صاحب کو چار قُل بھی آتے ہیں یا نہیں اور کہہ رہے ہیں کہ میں مولانا کو سیدھے راستے پر نہیں لاوں گا ،ایسے لوگوں کو واقعی جوابا سلام ہی کہناچاہیئے۔
کم از کم تم لوگ ان کی داڑھی ، عمامہ اور تبلیغ کی ہی حیا کر لو جو ان کے اور تمہارے درمیان زمین آسمان کا امتیاز کرتے ہیں ۔مولانا سے محبت و ہمدردی کے ساتھ ساتھ چوٹا سا شکوہ بھی ہے کہ اگر آپ بھی ان ظالموں کے خلا ف کھڑے نہیں ہو سکتے تو ہم کیسے کریں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :