پر عزم قیادت لاز م ہے مگر کیوں

بدھ 12 فروری 2020

Sahibzadah Shams Munir Gondal

صاحبزادہ شمس منیر گوندل

  (اور وہ شخص بھی محروم سماعت نکلا
  ہم نے رو رو کے جسے درد سنُائے اپنے)
ہرن کی رفتار تقریبا 90 میل فی گھنٹہ ہوتی ہے، جبکہ شیر کی زیادہ سے زیادہ رفتار 58 کلو میٹر فی گھنٹہ سے زیادہ نہیں ہوتی، رفتار میں اتنا بڑا فرق مگر آپ سوچ رہے ہونگے کہ اکثر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ شیر ہرن کو شکار کرنے میں کامیاب ہو جا تا ہے، جب بھی شیر ہرن کا تعاقب کرتا ہے تو ہرن کا فطری خوف اس پر غالب آ جاتا ہے، وہ بار بار اسی خوف کے ہاتھوں ڈرا ہوا پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے کہ کسی لحظہ شیر اس کو دبوچ کر چیر پھاڑ جائے گا۔

 یہ بار بار کا رکنا اور نفسیاتی دباؤ اس کی رفتار کا ستیاناس کر دیتا ہے، اور شیر رفتار کا تفاوت کو ختم کرتے ہوئے اس کو شکار کر لیتا ہے، اگر ہرن اپنی اس عادت بد اس کو میں کہوں گا پر قابو پا لے تو کوئی وجہ نہیں کہ شیر اس کی ہوا کو بھی چھو سکے، اگر ہرن کو یقین کامل ہو جائے کہ میری بے پناہ رفتار جو ماند باد صباء ہے، پھر آخر میں ہی کیوں تر نوالہ بنوں تو یہ خود اعتمادی نہ صرف اس کی حفاظت کی ضامن ہوگی، بلکہ اس کے فطری خو ف پر غالب آنے میں بھی اس کے لئے مددگار ثابت ہوگی، بعین ہی یہ صورتحال پچھلے 70 سال سے پاکستان کے ارباب بست و کشاء اور مظلوم طبقہ کی ہے، ارباب اختیار پاکستان کے عوام کا استحصال کرتے ہوئے یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ یہ ہی لوگ ہیں جن کے کاندھے پر سوار ہو کر وہ اسمبلی کے راج سنگھاسن پر براجمان ہوئے ہیں، یہ سادہ لوح عوام جو لیڈر شپ کے لئے دھوپ چھاؤں برداشت کرتی ہے، بھوک کا عذاب برداشت کرتی ہے، جیلیں کاٹتی ہے، دشمنیاں بھگتتی ہے، اور یہاں تک کہ اپنے مستقبل کو داؤ پر لگاتے ہوئے اپنے بچوں کو بھی ان کی وفاداری کا طوق پہنا یا جاتا ہے صرف یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ لوگ مستقبل کے اندھیروں میں روشن چراغ کی مانند ہیں، اور ان کے سب سے بڑے بہی خواہ، جبکہ یہ خود ساختہ کارکنان قضا و قدر جب بھی ان کو موقع ملتا ہے تو بجائے انکی قربانیوں کو تسلیم کریں، صرف اپنے شخصی مفاد کو مد نظر رکھتے ہیں، صرف یہ سوچ ان کا مطمع نظر ہوتی ہے کہ یہ لوگ تو صرف خدمت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں، ان کا تو مقصد حیات ہی ہماری جی حضوری اور چاکری ہے، یہ لوگ یعنی سادہ لوح عوام سب کچھ جانتے مگر نہ مانتے ہوئے بھی اس ہوس اقتدار کی بھٹی کا ایندھن بنتے رہتے ہیں کبھی اولو الامر مانتے ہوئے اور کبھی اپنا بہی خواہ جانتے ہوئے، بدلے میں ملتا کیا ہے، کبھی ضرورتوں کے ہاتھوں اپنے ارمانوں کا خون کروانا، کبھی ناروا رویوں سے واسطہ، کبھی بیٹی کے بالوں میں تیزی سے اُترتی چاندی سے نظر چرانا، کبھی تعلیم یافتہ بچوں کی بے روزگاری پر کڑھنا، کھبی بڑھتی ہوئی مُنہ زور مہنگائی کے عفریت کا سامنا، کبھی اوپر تلے لگے ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبنا جب کہ کسی فلاحی ریاست کا یہ فرض ہوتا ہے کہ ٹیکس ضرور وصول کرے یہ تسلیم مگر کیونکہ ملک ٹیکس کی آمدنی سے چلا کرتے ہیں مگر ٹیکس دہندگان کی مشکلات کا بھی خیال ارباب اختیار کے مد نظر ہونا چاہیے، نہ کہ صرف رگڑا لگانا ہی فرض عین سمجھا جائے، جمہور کو جمہوری حقوق سے محروم کرنا گویا ان کی تقدیر کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے اور یہ حق سوائے خالق کائنات کے کسی اور کا نہیں کہ خود کو مختار کُل اور مالک کائنات سمجھ بیٹھے، صرف باتوں سے پیٹ نہیں بھرتے، کبھی پنشن کے حصول کی خاطر لمبی قطاروں میں صبر آزما ازیت کو جھیلنا، اپنے ساتھ ہونے والی ہر زیادتی کو تقدیر کا لکھا سمجھ لینا، لمبی لمبی راشن کی قطاروں میں دھکے لینے یا وسائل کی کمیابی کی وجہ سے بچوں کی دوائی نہ لے سکنا یا چھوٹی چھوٹی ضروریات کے لئے سسک کر زندگی گزارنا اس کا حساب دنیا میں بھی دینا پڑتا ہے اور احکم الا حاکمین کی عدالت میں جہاں حقوق اللہ کی معافی تو ممکن ہے مگر حقوق العباد کی ہر گز نہیں، اور حاکم چاہے کون ہو، کوئی ہو، کسی بھی جماعت کا ہو اس کو حساب دینا پڑے گا، یہ من چلے کا سودا نہیں، نہ اقتدار پھولوں کی سیج ہے، یہ کانٹوں بھری شاہراہ ہے اور حکومت کفر سے تو چل سکتی ہے، مگر انصاف کے بغیر نہیں، یہ ایسا کٹھن سفر ہے جہاں 90 لاکھ مربع میل کے حکمران حضرت عمر جو مراد رسول کریم ﷺ ہیں صرف اس لئے گریہ کناں ہوتے ہیں کہ اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مرگیا تو عمر کو جواب دہی میں بارگاہ بے کس پناہ میں کھڑا ہونا پڑے گا، ہم گناہگار انسان بھلا کس قطار شمار میں ہیں،اتنی لمبی چوڑی معروضات کا لب لباب یا حاصل کلام صرف یہ ہے کہ ہرن کی طرح کسی کے خونی جبڑوں میں اپنے آپ کو دینے کی بجائے اپنے اللہ کے فضل پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے آپ کو حالات کے جبر سے نبرد آزما ہونے کے لئے تیار کریں، کوئی آپ کے کے لئے کچھ نہیں کرے گا، جب تک کہ آپ اپنے آپ سے مخلص نہ ہوں، آپ کا یقین محکم اور عمل پیہم آپ کی راہیں خود ہموار کرے گا، آئندہ جب بھی انتخابات ہوں، اللہ کی رحمت پر یقین رکھتے ہوئے خود پر اعتماد کریں، اپنے ووٹ کو اپنی طاقت سمجھیں، کمزوری نہیں، یہ پرچی ایک مقدس امانت ہے اور حق بحقدار کو رسید کریں، ووٹ ڈالتے وقت کم از کم دو دفعہ ضرور سوچیں کہ کیا یہ بندہ صادق و امین ہے، کیا یہ آپ کو قہر و جبر کی آندھی سے بچانے کی حتی ٰ المقدور کوشش کرے گا۔

(جاری ہے)

 کیا یہ اسمبلی میں بیٹھ کر مراعات کے چیک وصول کرنے کی بجائے آپ کی تکلیفوں کا ازالہ کرنے کے لئے رطب السان ہوگا، کیا یہ آپ کے حق کی خاطر آواز بلند کرے گا یا ایسی ٹھوس منصوبہ بندی یا قانون سازی میں اپنا مثبت اور تعمیری کردار ادا کرے گا جو آپ اور آپ کی آنے والی نسلوں کو مصائب اور مشکلات کے طوفانوں اور بحرانوں سے بچا سکے، کیا یہ چور کی بجائے چوکیدار بننے کا اہل ہے، جب بھی کوئی آپ سے ووٹ مانگنے آئے تو بجائے اس کی باتوں کی دلفریبی سے مسحور ہونے کے یا وعدہ فردا کی امید پر اپنی غلامی کی معیاد میں اضافہ اور جبر و قہر اور ستم کے سلسلے کو اپنے ہاتھوں سے دراز کرنے کی بجائے یہ ضرور سوچ مدنظر رکھیئے گا کہ کیا یہ شخص اس قابل ہے جو اسلام کی عصمت و ناموس پر پہرا دے سکے، کیا یہ شخص پاکستان کے تشخص اور وقار میں اضافہ کرے گا۔

 کیا یہ عوام کے مسائل کا ترجیع پر حل اور ان کی خوشحالی کی خاطر وسائل کی بہم رسانی کو یقینی بنانے میں اپنا احسن کردار ادا کرے گا، یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کسی ملک کی سلامتی میں افواج اور عوام کی ہم آہنگی کا بنیادی کردار ہوتا ہے، کیا آ پ کا انتخاب اس قابل ہے جو بجائے فوج اور عوام میں دوریاں بڑھانے کی بجائے فاصلے مٹانے میں پُل کا کردار ادا کرے گا، کیا یہ نمائندہ اس قابل ہے کہ زمہ داریوں کا بوجھ اُٹھا سکے، کیا یہ انصاف کے حصول میں حائل رکاوٹوں کو ہٹانے اور آزاد عدلیہ کو دئیے گئے مینڈٹ کے مطابق بلا جبر و اکراہ فیصلہ کرنے میں مدد دینے کے لئے قانون سازی میں اپنا تعمیری کردار ادا کرے گا، کیا یہ ٹکراؤ کی پالیسی کی بجائے ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوگا، کیا یہ اداروں سے تصادم سے گریز کرتے ہوئے قوم کے سامنے اپنے آپ کو محب وطن لیڈر ثابت کرے گا، تھانے کچہری کی سیاست سے بالاتر ہو کر قوم کا مستقبل مد نظر رکھیں، آپ کے منتخب کردہ نمائندوں کو نہ صرف اخلا قی فضیلت کے وصف سے متصف ہونا ضروری ہے بلکہ لیاقت، صداقت، امین اور دیانت بہت ضروری ہیں، یہ ہی اوصاف ہیں جن سے اسلامی خلافت ماضی قریب میں تین براعظموں پر حکمرانی کر چکی ہے اور آج کا یورپ اور گورے اگر ترقی کے بام عروج پر ہیں تو یہ ہی چند اوصاف ہیں جن سے وہ قوموں کی برادری میں ممتاز ہیں۔

شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :