مرتجز”ذوالجناح“

جمعہ 28 اگست 2020

Saif Awan

سیف اعوان

یمن کے بادشاہ باذان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت عزت تکرم کرتا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے 6ہجری میں اس کو اسلام قبول کرنے کا دعوت نامہ بھیجا تو اس نے فورا اسلام قبول کرلیا۔جناب باذان کا اسلام قبول کرنے کے کچھ عرصے بعد انتقال ہو گیا۔ان کے انتقال کے چند دن بعد ان کے بڑے بیٹے شہر بن باذان کو تحت پر بیٹھا دیا گیا تو اس نے اپنی تاج پوشی کی رسم میں شرکت کیلئے ایک دعوت نامہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لکھا ۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کہا کہ آپ یمن کے نئے بادشاہ کی تاج پوشی کی رسم میں ہماری جگہ پر چلے جائیں ۔آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ابو موسی اشعری،معاذ بن جبل اور خالد بن ولید کو روانہ فرمایا۔

(جاری ہے)

جب حضرت علی یمن پہنچے تو شہر بن باذان نے خود آکر آپ کا استقبال کیااور آپ کو محل میں لے گیا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تقریبا سات دن تک یمن میں قیام کیا اور اہل یمن کو دین اسلام کی تعلیمات اور اسلامی رسوم و رواج کے متعلق آگاہی دی۔

سات دن کے بعد جب آپ نے یمن سے رخصتی کاکہا تو یمن کے بادشاہ نے آپ کی خدمت میں بیش قیمتی تحائف پیش کیے ان تحائف میں ایک خوبصورت گھوڑی بھی شامل تھی۔ملک یمن اعلیٰ نسل کے گھوڑے کے حوالے سے آج بھی پوری دنیا میں مشہور ہے۔گھوڑی جب حضرت علی کے سامنے لائی گئی تو آپ گھوڑی کو دیکھ خوش ہوئے اور کہا کہ اس گھوڑی کا نام کیا ہے ۔بادشاہ نے کہا اس گھوڑی کا نام ”مجعلیٰ “ ہے۔

حضرت علی نے کہامیں اس گھوڑی کی پہلے چال ڈھال دیکھنا چاہتا ہوں۔بادشاہ نے ایک غلام سے کہا کہ گھوڑی پر بیٹھو اور اس کو تھوڑی دور تک لے کر جاؤ۔غلام جب گھوڑی پر بیٹھا تو گھوڑی چند قدم چلتی ہنہناتی اور بار بار پیچھے کی جانب دیکھنے لگتی ۔حضرت علی نے بادشاہ یمن سے کہا گھوڑی کی چال اور بار بار پیچھے دیکھنے سے ایسے لگتا ہے کہ اس کا کوئی بچہ پیچھے رہ گیا ہے ۔

بادشاہ نے کہا جی حضور اس کا ایک بچہ بھی ہے۔آپ نے فرمایا کہ تم نے اس کا بچہ کیوں نہیں ساتھ دیا۔تو بادشاہ نے کہا حضوراس کا بچہ آج کل بہت بیمار ہے اس لیے آپ کی خدمت میں حاضر نہیں کیا گیا۔حضرت علی نے فرمایا اس کے بچے کو کیا بیماری ہے ہمیں تفصیل بتائیں ۔بادشاہ نے کہا حضور والا ہمیں بیماری کے متعلق تو کوئی معلومات نہیں لیکن اس بچے کی عادات بہت عجیب و غریب ہیں۔

جس دن یہ پیدا ہوا تھا تو اس نے تین دن تک دودھ تک نہیں پیا تھااور اکثر اس کی آنکھوں سے آنسو برستے رہتے ہیں۔ہمارے شہر سے باہر ایک ریٹ کا ٹیلہ ہے اکثر یہ گھوڑی کا بچہ زوال آفتاب کے وقت سخت گرمی میں جب تیز لو چل رہی ہوتی ہے تو شہر چھوڑ دیتا ہے اور اس ٹیلے پر چلا جاتا ہے۔پہلے زمین پر گٹنے ٹیکتا ہے پھر دائیں اور پھر بائیں پہلو لیٹ کر سوجاتا ہے۔

پھر کچھ دیر بعد اوٹھ کے مدینہ کی طرف منہ کرکے تین مرتبہ ہنہناتا ہے اور دوڑ کر واپس شہر کی جانب آجاتا ہے ۔شہنشاہ یمن جب تک یہ تفصیل بتارہے ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ مسلسل روتے رہے۔آپ نے فرمایا مجھے اس بچے کے پاس لے چلو تو شہنشاہ یمن نے کہا حضور وہ گھوڑی کا بچہ ابھی بھی اس ٹیلے پر ہوگا۔حضرت علی جب شہر سے باہر نکلے اس ٹیلے کی جانب دیکھا تو وہ گھورڑی کا بچہ دائیں جانب لیٹا ہوا تھا۔

آپ جب اس بچے کے قریب پہنچے تو اس نے آپ کی مہک محسوس کرلی اور دوڑ کر آپ کے قریب آکر آپ کے قدموں میں بیٹھ گیا۔آپ نے اس کے گلے میں بائیں ڈالی اور کافی دیر تک گریہ زاری کرتے رہے۔حضرت علی نے گھوڑی کے بچے سے کہا تم نے ابھی سے یہ عادتیں سیکھنا شروع کردی ہیں ابھی تو وہ وقت بہت دور ہے۔پھر وہ بچہ بھی رونے لگا۔شہنشاہ یمن بھی یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا۔

حضرت نے شہنشاہ یمن سے پوچھا اس کا نام کیا ہے تو شہنشاہ نے جواب دیا حضور اس کا نام ”مرتجز“ ہے۔ حضرت علی نے کہا شہر بن باذان ہم اس بچے کو بھی ساتھ لے کر جانا چاہتے ہیں۔شہنشاہ نے کہا حضور اس ملک کی ہر چیز آپ کی ہے جو دل چاہیے ساتھ لے جائیں۔حضرت علی نے فرمایا شہر بن باذان ہم آپ کی اس عزت افزائی کے شکر گزار ہیں۔آپ اس گھوڑی اور بچے کو اپنے ساتھ مدینہ لے آئے ۔

جب امام حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے والد گرامی کی مدینہ پہنچنے کی اطلاع ملی تو آپ فورا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور کہا بابا آپ میرے لیے ایک تحفہ لائے ہیں وہ مجھے دیں ۔حضرت علی نے ایک صحابی سے کہا وہ گھوڑی ”مجعلیٰ“ ہمارے پاس لائیں ۔جب گھوڑی سامنے آئی تو اس کے ساتھ موجود ”مرتجز“ نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر دوڑ لگائی اور آپ کے قریب آکے قدموں میں بیٹھ گیا کبھی آپ کے قدموں پر سر رگڑتا اور کبھی آپ کے ہاتھوں پر اپنا منہ لگاتا ۔

مرتجز اور امام حسین رضی اللہ عنہ ایک دوسرے کو ایسے ملے جیسے ایک مدت سے بھچڑے ایک دوسرے کو مل رہے ہیں۔تاریخ میں درج ہے کہ اس وقت مرتجز کی عمر تین سال تھی۔یہ مرتجز تھا جس کو امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت سے 58سال قبل معلوم تھا کہ میں کربلا میں امام حسین رضی اللہ عنہ کی سواری بنو گا۔پھر جب کربلا واقعہ پیش آیا اور اس میں مرتجز نے امام حسین رضی اللہ عنہ سے جو وفاداری کی اس نے ہمیشہ کیلئے مرتجز کو تاریخ میں امر کردیا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :