دل بہت نازک

پیر 21 دسمبر 2020

Saif Awan

سیف اعوان

پاکستان کی پنجابی فلموں میں اکثر لڑائیاں طاقت کے حصول کی ہوتی تھیں ۔سلطان راہی،مصطفی قریشی ،ہمایوں قریشی،اظہار قاضی ،جاوید شیخ اور شان کے درمیان اکثر فلموں میں لڑائیاں اپنی طاقت اوراپنا لوہا منوانے کی وجہ سے لڑی جاتی تھیں۔پھر ہماری پنجابی فلموں میں منور ظریف اور رنگیلاصاحب نے انٹری دی ۔ان کی فلمیں اکثر طنز مزاح سے بھرپور ہوتی تھیں جبکہ منصور ملنگی صاحب زیادہ اپنے فلموں میں ہدایتکار،پروڈیوسر اور ادکار بھی خود ہی ہوتے تھے جس کی وجہ سے ملنگی صاحب کی زیادہ فلمیں عوام میں مقبول نہیں ہو سکیں۔

پھر وقت بدلا فلموں میں جدت کا رجحان آیا پاکستان میں اردو فلمیں بننے لگی ۔اداکار شان پنجابی فلموں سے تنگ آگئے اور انہوں نے اردو فلموں میں قسمت آزمائی شروع کردی۔

(جاری ہے)

شان کے ساتھ ہمایوں سعید ،معمر رانا ،سعود ،فہد مصطفی،بلال اشرف اور کئی نئے فنکاروں نے قسمت آزمائی شروع کردی۔لیکن نتیجہ ایک ہی نکلا پنجابی فلموں کے بعد اردو فلمیں بھی عوام کو اپنی طرف کھینچنے میں ناکام رہیں۔

ہماری فلم انڈسٹری کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ وہی گھسے پٹے موضوعات،روایتی سٹوری،1950کی دہائی کے کیمرے اور سالہا سال سے چلتے آرہے ٹیکنیشن ہیں ۔ایسا ہی کچھ حال ہماری سیاست اور ریاست کا ہے۔جس میں طاقت کے حصول کیلئے کبھی جنرلز لڑتے ہیں اور کبھی سیاستدان دست گریبان ہوتے ہیں ۔جنرلز کبھی کبھی فرنٹ فٹ پر آکر کھیلتے ہیں اور کبھی پس پردہ رہ کر پتلیاں نچاتے ہیں ۔

یہ سب لڑائیاں طاقت کے حصول کی ہیں ۔جنرلز کو جن فرائض کی ادائیگی کیلئے اعلیٰ منصب ملتے ہیں ان کو اپنے وہی فرائض سر انجام دینے چاہیے وہ اپنے حلف کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اور سیاستدانوں کو پراپرٹی اور قبضے کے بزنس میں قسمت آزمائی کی بجائے وہی کام کرنے چاہیے جن کا وہ حلف اٹھاتے ہیں ۔لیکن بدقسمتی ہے کہ کوئی بھی اپنے اپنے حلف کی پاسداری نہیں کرتا۔


میں گزشتہ چار سالوں سے باقاعدگی سے اپنے ٹیکس گوشوارے جمع کرارہا ہوں ۔میں جب بھی ٹیکس گوشوارے جمع کرانے جاتا ہوں تو سوچتا ہوں میں فائلر کیوں ہوا؟مجھے فائلر ہونے کا کیا فائدہ مل رہا ہے ۔میں سالانہ اتنا ٹیکس ادا کررہا ہے ۔گزشتہ دنوں جب ارکان اسمبلی کے ٹیکس جمع کرانے کی تفصیلات جاری ہوئی تو میں حیران رہ گیا کہ اکثر ارکا ن اسمبلی تو مجھ سے بھی کم ٹیکس ادا کرتے ہیں ۔

یہ وہی سیاستدان ہیں جو عوام کو تو ٹیکس ادا کرنے اور فائلر ہونے کا درس دیتے ہیں لیکن خود ٹیکس چور ہیں۔کہتے ہیں وہی شخص دوسرے مسلمان کو نماز پڑھنے کا کہے جو خود نماز پڑھتا ہے۔یہاں لوگ حرام بھی کھارہے ہیں چوری بھی کررہے ہیں شراب بھی پی رہے ہیں اور دوسروں کے اچھے برے کاموں پر خود نظر بھی رکھتے ہیں جیسے ان کادنیا میں ظہور صرف اسی کام کیلئے ہوا ہے۔

آپ کے اردگرد ایسے بہت سے لوگ ہونگے جن کا کام ہی صرف دوسروں پر نظر رکھنا ہے۔کون کیا کھارہا ہے کیا پہن رہا ہے کہاں جارہا ہے اور کس سے مل رہا ہے۔اس کے پاس اتنا بینک بیلنس کیسے آیا ۔اس نے گھر کیسے بنالیا اس کے پاس گاڑی کیسے آگئی ۔مجھے ایسے لوگوں سے سخت نفرت ہے۔جو صبح سے شام تک صرف دوسروں پر ہی نظر جمائے رکھتے ہیں۔اگر یہ لوگ اتنی توجہ اپنے گھروں کے مسائل پر دیں تو وہ یقینا حل ہو سکتے ہیں۔

او اللہ بندے تم بھی محنت کرو کام کرو اگر تم اچھی اور پر سکون زندگی گزرنا چاہتے ہو۔
سینئر صحافی مجیب الرحمن شامی صاحب نے بہت خوبصورت انداز میں سیاستدانوں اور فوج میں اصل جھگڑے کی وجہ بیان کی ہے ۔شامی صاحب کہتے ہیں کہ اصل جھگڑا حق ملکیت ہے کہ اس ملک کا اصل مالک ہے کون؟شامی صاحب کہتے ہیں پاکستان بننے کے چند دنوں بعد ایک نوجوان فوجی افسر کی قائد اعظم سے ملاقات ہوتی ہے ۔

نوجوان فوجی افسر نے ملک میں جو کچھ ہورہا تھا اور سیاستدان جو کچھ کررہے تھے اس پر تنقید شروع کردی۔قائد اعظم صاحب نے سختی سے اس افسر کو ٹوک دیا اور کہاآپ کا کام ہے اپنا فرض ادا کرنا اور حکومت کی اطاعت کرنا ۔قائد اعظم نے کوئٹہ سٹاف کالج میں بھی خطاب کرتے ہوئے کہا جو مسلح افواج ہے ان کا کام قانون کے مطابق حکومت کی اطاعت کرنا ہے اور فیصلے کرنا ہمارا کام ہے۔

نوجوان فوجی افسر سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے ذہن میں پہلے دن سے یہ بات موجود ہے کہ ملک کے درپیش مسائل کے حل کیلئے ملک کو ان کی اشد ضرورت ہے۔پاکستان کے مسائل کا حل اور ملک کو بہتر انداز میں چلانا ہر شخص کی خواہش ہے۔ہر ادارے کی یہی خواہش رہی ہے ۔سب کی نیک خواہشات ہوتی ہیں جس کی وجہ سے وہ مداخلت کرتے ہیں لیکن جب نتیجہ درست نہیں نکلتا تو اس مداخلت پر پھر تنقید ہوتی ہے۔

تجربے اور پاکستان کی تاریخ نے بتایا کہ کوئی ادارہ اگر دوسرے ادارے کے کام میں مداخلت کرے تو کام بہتر طریقے سے نہیں ہو سکتا۔وقتی طور پر تو ریلیف ملتا سکتا ہے لیکن بعد میں اس کے نتائج ٹھیک نہیں سامنے آئیں گے جو مسائل پیدا کرینگے۔اسی طرح سیاستدانوں نے جو غلطیاں کی ان کو غلطیاں سدھارنے کا بھی موقع نہیں مل سکا۔فوجی حکومتیں اور مداخلت سے پھوڑے پھنسی کا تو علاج ہو جاتا ہے لیکن پھر آپ کے دل کے عارضے میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔لہذادل کے عارضے میں مبتلا ہونے سے بچاجائے دل بہت نازک ہے جب ٹوٹتا ہے تو بہت درد ہوتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :