مریم نواز کو انڈر ایسٹی میٹ نہ کریں

پیر 31 مئی 2021

Saif Awan

سیف اعوان

تاریخ میں نام رقم کرنے کیلئے بروقت مشکل فیصلے،زندان کا انتخاب،جلاوطنی کا انتخاب یا کبھی کبھی اپنی مٹی پر قربان ہونے کا بھی موقعہ ملتا ہے۔تاریخ ایسے موقعے بہت کم لوگوں کومہیا کرتی ہے۔اصولوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے والوں کبھی تاریخ میں یاد نہیں رکھے جاتے۔تاریخ ہمیشہ بروقت اور درست فیصلے لینے والوں کو ہی یاد رکھتی ہے۔

تاریخ نے ذاتی فائدے کیلئے سمجھوتہ کرنے والوں کو کبھی معاف نہیں کیا لیکن جو اجتماعی فائدے کیلئے مر مٹتے ہیں وہ تاریخ میں ہمیشہ امر ہو جاتے ہیں ۔جب آپ کسی نیک مقصد یا اجتماعی فائدے کیلئے خصوصا اپنی قوم کیلئے زندان،جلاوطنی یا وطن عزیز پر قربان ہونے کا فیصلہ کرلیتے ہیں اس میں یقینا تقدیر بھی آپ کا ہی ساتھ دیتی ہے۔دنیا میں جتنے بھی بڑے اور نامور سیاسی قد کاٹھ کے لیڈر گزرتے ہیں جہنوں نے قوموں کی تقدیر بدل دی ہے ۔

(جاری ہے)

ان کو سب کچھ پلٹ میں رکھ کر پیش نہیں کیا گیا بلکہ انہوں نے اپنے لیے یا قوم کیلئے جو کچھ بھی حاصل کیا وہ دشور گزار راستوں سے گزر کر ہی حاصل کیا ہے۔سیاسی میدان میں ایک مرد کیلئے تو اپنی جگہ بنانا قدر آسان ہوتا ہے لیکن ہزاروں مردوں میں ایک عورت کا اپنی صلاحیتوں کو منوانا انتہائی مشکل ترین کام ہے۔خصوصا پاکستان جیسے ملک میں جہاں 73سالوں میں جمہوریت کم اور آمریت کا راج زیادہ رہا ہوں۔

ان 73سالوں میں اگر غلطی سے بھی کوئی سیاسی لیڈر ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں آگیاتو اس کو کبھی کسی فوجی ڈکٹیٹر،کبھی سرپھیرے صدر یا کسی جج نے چلتا کردیا۔ان حالات میں کسی خاتون کیلئے اپنی الگ پہنچان بنانا انتہائی مشکل کے ساتھ ساتھ ناممکن بھی ہے۔73سالوں میں پاکستان کو جو قدآور سیاسی خواتین ملی ان کی تعداد آپ انگلیوں پر گن سکتے ہیں ۔ان میں محترمہ فاطمہ جناح ،بینظیر بھٹو،بیگم نسیم ولی خان،بیگم کلثوم نوازاور مریم نواز شامل ہیں ۔

یہ وہ خواتین ہیں جہنوں نے وردی اور بغیر وردی والے آمروں کیخلاف جدوجہد کی۔محترمہ فاطمہ جناح،بینظیر بھٹو،بیگم نسیم ولی خان اور بیگم کلثوم نواز نے جسن ادوار میں آمروں کیخلاف جدوجہد کی اس دور میں خواتین سیاست کے میدان میں بہت کم ہی نمایاں ہوتی تھی اس دور میں خواتین کی سیاست میں دلچسپی بھی اتنی زیادہ نہیں تھی لیکن مریم نواز نے جس دور میں سیاسی کا باقاعدہ آغاز کیا اس دور میں ہر طرف سیاسی میدان میں خواتین ہی خواتین تھیں ۔

(ہاں میں یہاں یہ بتاتا چلوں کہ میں نے پہلی مرتبہ سب سے زیادہ خواتین عمران خان کے جلسوں میں دیکھی لیکن عمران خان جیسے ہی اقتدار میں آئے وہ سب خواتین اچانک غائب ہو گئیں)۔ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کا دور بھی عروج پر تھا۔مریم نوازنے سیاست کے میدان میں باقاعدہ انٹری 2017کے اوائل میں دی۔یہ وہ دن تھے جب پاناما لیکس کا ڈرامہ بھی پورے زور و شور سے جاری تھا۔

مریم نواز نے جس انداز میں سیاسی میدان میں انٹری دی اس نے بہت سارے طاقتور کو ہلاکر رکھ دیا۔مریم نواز کو زیادہ شہرت فیصل آباد اور گوجرنوالہ کے جلسوں سے ملی کیونکہ لاہور کے بعد فیصل آباد اور گوجرنوالہ بھی باقاعدہ مسلم لیگ(ن) کے گڑھ تصور کیے جاتے ہیں۔مریم نواز کے جلسوں کو ملنے والی عوامی پذیرائی نے طاقتوروں کو ششدر کرکے رکھ دیا۔ان جلسوں کے بعد ہی نوازشریف کے ساتھ مریم نواز کی نااہلی کا بھی فیصلہ کرلیا گیا۔

کیونکہ اگر مریم نواز پارلیمنٹ میں پہنچ جاتی تو پھر ان کو روکنا مزید مشکل ہوجاتا۔مریم نواز نے 2017سے 2021یعنی چار سال کے کم ترین عرصے میں دنیا بھر میں ایک کامیابی سیاسی لیڈر کے طور پر شہرت سمیٹ لی ہے۔2017میں جن طاقتوروں نے ایک خاتون کی سیاست ختم کرنے کی کوشش کی وہی خاتون آج ایک قدآور سیاسی شخصیت بن چکی ہیں ۔مریم نواز نے کم ترین عرصے میں شہرت ایسے ہی نہیں سمیٹ لی۔

اس شہرت کو حاصل کرنے کیلئے وہ دو بار جیل جاچکی ہیں ۔مریم نواز کے ساتھ اڈیالہ جیل اور کوٹ لکھپت جیل میں جو سلوک روارکھا گیا وہ انتہائی شرمناک ہے۔ایک دن جب مریم نواز نے اپنی کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا تو وہ انشاء اللہ ضرورت جیل میں پیش آنے والے واقعات کو قلمبند کریں گئیں۔مریم نواز اس وقت پاکستان کی سیاست میں اپنی جگہ بناچکی ہیں ۔پاکستان کی سیاست میں جو قدآور سیاسی خاتون کا خلاء پیدا ہوا تھا اب مریم نواز نے اس خلاء کو پر کردیا ہے۔لہذا اب مریم نواز کے پارلیمنٹ میں انٹری کا وقت قریب آچکا ہے۔مریم نواز کے ساتھ آج لاکھوں نوجوان کھڑے ہیں ۔اس لیے مریم نواز کو مزید انڈر ایسٹی میٹ نہ کیا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :