وبائی دن اور معاشرتی ہٹ دھرمی

بدھ 29 اپریل 2020

Saleem Saqi

سلیم ساقی

بات شروع ہوتی ہے ان دنوں سے جب باعث کورونا لاک ڈاؤن لاگو ہوئے ابھی کچھ دن بیتے تھے چونکہ ہمارا ملک پاکستان دنیا کو واحد ملک ٹھہرا جہاں قانون صرف اور صرف غریب غربا پہ لاگو ہوتا ہے امراء طبقہ ''کچھ لو اور کچھ دو'' پالیسی کے تحت آنکھ بچا کے بچ نکلتا ہے،حکمرانیت کی چکی میں غریب بیچارہ پس کے رہ جاتا ہے
سچ پوچھیں تو جب سے ہوش سنبھالا اب آ کر لاک ڈاؤن کا لفظ کانوں کو سننے کو ملا کہ لاک ڈاؤن جیسی بھی کوئی بلا اس دنیا میں پائی جاتی ہے
جوں ہی ٹی وی پر خبروں کی ریل پیل میں ابتدائی چند دنوں کے لاک ڈاؤن کے بارے میں سنا کشمیر لاک ڈاؤن کو سامنے رکھتے ہوئے جب پل بھر کو  اپنے مستقبل کے بارے میں سوچا یقین جانیئے پل بھر کو تو ہم سارے سٹیا ہی گئے کیونکہ ہم ٹھہرے گاؤں کے سادہ لوگ جونہی کانوں میں دکانیں مارکیٹیں بند ہونے کی خبر پڑی آسمان سر پر اٹھا لیا یا خدایا اب ہم کھائیں گے کہاں سے پیئے گے کہاں سے زندہ رہنے کو تو کھانا پینا ضروری ہوتا اگر کھانا پینا راشن فراہم کرنے والے ہی نہ رہیں گے تو ہم کہاں جائیں گے
ہمیں لگا ہمیں واقعی کشمیریوں کی طرح گھر کی دہلیز تک محدود کر دیا جاوے گا سب دکانیں بند کر دی جاویں گی حالات زندگی بہت متاثر ہوں گے چار سو ویرانی ہو گی سنسانی ہو گی مگر جونہی دن گزرے ہماری سوچ ہمیں بس ایک وہم لگنے لگی
چہل پہل سب ویسی کی ویسی رہنے لگی دکانوں کے شٹر باہر سے بند جبکہ اندر دکانیں کھلی تھیں اگر ایک طرف فوج کی سختی تھی تو دوسری طرف بھتہ خور پولیس کی رشوت خوری تھی جو چند سو کیلیئے قانون توڑنے والوں کو جانے دے رہی تھی
اگر ایک طرف بارڈر لائن پر کھڑے سفید وردی میں ملبوس ڈاکٹرز اپنی جان داؤ پر لگا کر ہماری جان بچانے میں لگے تھے تو دوسری طرف ہماری کمظرف عوام خود کو موت کے منہ میں دھکیلنے میں لگی تھی اگر ایک طرف منہ پر ماسک لگانے اور ہاتھوں کو ڈھک کر باہر نکلنے کے احکامات تھے تو دوسری طرف ''جو رات قبر میں ہے وہ باہر نہیں'' جیسے جاہلانہ جملے تھے
ہاں البتہ ایسے مایوس کن وبائی دنوں میں جہاں کسی کی زندگی کو کوئی خاص فرق نہ پہنچا تھا وہاں ہمارے سفید پوش مزدور طبقہ بہت متاثر ہوا تھا جہاں سرکاری جوب ہولڈرز کی ہر ماہ تنخواہ ان کے اکاؤنٹس میں ٹرانسفر کر دی جانے لگی  وہی مزدور طبقہ جن کی زندگی کا دار و مدار روزانہ کی لگی دیہاڑی تھی فاقہ کشی کے دنوں میں تبدیل ہوتی نظر آئی چند ایک فلاحی تنظیموں اور حکومت پاکستان کی جانب سے شروع کردہ احساس پروگرام کے تحت چند ایک کا تو پیٹ بھرا چند ایک کی تو اس فاقہ کشی سے خلاصی ہوئی پر ساٹھ فیصد کی حالت پہلے سے بھی ذیادہ غیر ہو گئی
آخر کو ہم ''اپنا کام بنتا بھاڑ میں جائے جنتا'' والی سوچ رکھنے والے لوگ جو ٹھہرے احساس پروگرام تھا تو غریب عوام کیلیئے مگر اسے ہتھیایا امیروں نے بھی جہاں بارہ ہزار چند غریبوں کی جیب میں ڈلے وہیں یہ بارہ ہزار کئی سو امیروں کی جیبوں میں بھی ڈلے
احساس پروگرام کا کیا رونا یہ تو چند دن ہوئے شروع ہوا پر افسوس یہاں تو کئی امرا گھرانوں نے برسوں سے بینظیر انکم سپورٹ کے کارڈ بنوا رکھے ہیں جو آئے مہینے غریبوں کا حق کھائے ہی جا رہے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں کوئی روکنے والا نہیں کوئی ٹوکنے والا نہیں
یہ بات یہاں تک نہ ٹھہری پھر بات آئی دفعہ 44 کی جو قانون جانتے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ دفع 44کے تحت کوئی کہیں بھی کسی بھی جگہ پر گروپ کی شکل میں لوگ جمع نہیں ہو سکتے اس وبائی مرض کو روکنے کیلیئے 44کی امپلمنٹیشن بہت اچھا سٹیپ تھا کیونکہ جیسا سننے میں آ رہا کہ یہ وائرس زیادہ تر چھونے اور میل ملاپ سے پھیلتا اس کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر دیکھا جائے تو جب گروپ میں لوگ کھڑے ہی نہیں ہوں گے ایک دوسرے کے نزدیک نہیں جائیں گے وائرس تو خود بخود ختم ہو جائے گا
مگر ہمیشہ کی طرح یہاں بھی دفع44کیس 302کی کی پھانسی کی سزا کی طرح غریب پر ہی لاگو ہوا آنکھوں دیکھا واقع بتاتا ہوں شہر میں ایک ضروری کام سے جانا ہوا اک چوک میں پولیس والے نے اک دو موٹر سائیکل سواروں کو کان پکڑوا رکھے تھے اور وہیں دوسری جانب ایک اسی پولیس والے کی جان پہچان کا ہاتھ ہلا کر اس پولیس والے کو سلام کرتا ہوا وہاں سے چلتا بنا
یہ سب حکمرانیت کی چکی نہیں تو اور کیا جہاں حکمران وڈ وڈیرا اپنی جان کا اپنے مفاد کا تو بچ نکلتا ہے اور غریب پس کے رہ جاتا ہے
ایک اور آنکھوں دیکھا واقع سناتا ہوں ایسے ہی گندے سسٹم کا جہاں انصاف صرف اپروچ اور پیسے والوں کو ملتا ہے جہاں غریب کو غریب سمجھ کو آئے دن کورٹ کچہری کے چکر یہ سوچ کر لگوائے جاتے ہیں کہ یہ تو ٹھہرا غریب اس نے کیا کر لینا
ابھی حال ہی میں چند ہفتہ پہلے ہمارے پاس کے علاقہ میں ایک تبلیغ جماعت کی آمد ہوئی جن میں کافی باثر شخصیت کے مالک لوگ بھی شامل تھے اب ہوا یوں کہ اس علاقہ کے کسی شیطانی ذہنیت پرست نے کووڈ19 کی ٹیم کو کال کر کے کہا کہ ہمارے علاقے میں تبلیغی جماعت آئی ہوئی ہے جنہیں کورونا ہے اور وہ فن کیلیئے کی گئی کال بعد میں سچ ثابت ہوئے
آؤ دیکھا نہ تاؤ طبعی عملہ وہاں مانوں کہ پلک جھپکتے آن پہنچا گویا کہ کہرام برپا ہو گیا ان تبلیغی جماعت کو مسجد کی چار دیواری کے اندر تک محصور کر دیا گیا یہ کہتے ہوئے کہ آپکے بلڈ سیمپل لیبارٹری میں بھیجے ہوئے ہیں جیسے ہی رپورٹ آئے گی ویسے ہی ایکشن لیا جائے گا
چودہ دن تک مسجد میں محصور رکھنے کے بعد جب رپورٹس آئیں تو پتا چلا کہ 14میں سے 5 کو کورونا وائرس ہے اب ہونا تو یوں چاہیے تھا ان پانچوں کو قرنطینہ میں شفٹ کر دیتے مگر افسوس ان میں سے ایک بااثر اور با رعب ہونے کی وجہ سے میل ملاپ کر کے وہاں سے گھر کی اور چل دیا باقی کا کیا بنا یہ آپ خود بخوبی سمجھ گئے ہوں گے
یہ ہٹ دھرمی یہیں تک ہی محصور نہ رہی اس ہٹ دھرمی نے ہماری فرنٹ لائین پر کھڑے کورونا سے لڑتے ڈاکٹرز کو بھی اپنے وش میں کیئے رکھا اور اب تلک کیئے ہوئے ہے حکومت کو کرنا تو یوں چاہیے انکا فرض تو یوں تھا سب سے پہلے فرنٹ لائین پر کھڑے ڈاکٹرز کو کٹس فراہم کرتی تاکہ جو علاج کر رہے کم سے کم انکا علاج کرنے کی ضرورت تو نہ پڑتی مگر افسوس سد افسوس وہ کہتے ہیں نا جو منہ سے بولتا نہیں اسے دھر لیا جاتا ہے ایسا ہی کچھ یہاں بھی بیتا
بس خانہ پری کرنے کیلیئے چند جگہ کٹس فراہم کر کے تصویریں کھینچ کر سوشل میڈیا پر ڈال کر باقی ڈاکٹرز کو موت سے لڑنے کیلیئے کٹس کے بنا چھوڑ دیا جو اب تلک لڑ رہے ہیں مگر آفرین ان سفید وردی میں ملبوس فوجیوں کو جنکی ہمت و حوصلہ میں مجال ہے جو پل بھر کا بھی خلل آیا ہو بیشک ڈاکٹرز ہمارا فخر ہیں
مگر کب تک یوں چلے گا وہ ڈاکٹرز بعد میں ہیں پہلے انسان ہیں کچھ نظر کرم ادھر بھی کرو
یہ سلسلہ ابھی تک یونہی اپنی رفتار میں چل رہا تھا کہ ماہ رمضان آ پہنچا اور جیسا کہ ہم سبھی جانتے ہیں ادھر  ماہ رمضان کا چاند نظر آیا نہیں کہ ادھر اشیاء کے دام چاند کو چھونے لگ گئے بالکل اسی طرح ہر بار کی طرح اس بار بھی یونہی ہوا منافع خوروں نے دام کچھ اس قدر بڑھا دیئے کہ چالیس کا چار سو بنا دیا
''ارے کوئی انھیں بتاؤ ہمیں مت چھیڑو ہم پہلے ہی کورونا کے ستائے ہوئے ہیں ''
''شرم تم کو مگر نہیں آتی''
اگر لکھتا جاؤں تو صفحے کم پڑ جائیں پر حالات و واقعات کا ذخیرہ کم نہ ہو میری تحریر کا لب لباب یہ ٹھہرا
''جب تلک ہم خود فردا فردا صحیح معنوں میں قانون پر عمل درآمد نہیں کریں گے یہ وبائی مرض نہیں جائے گا''
یہ لاک ڈاؤن میں توسیع یہ آئے دن کیسز میں اضافہ ہماری کاہلی کی وجہ سے ہی ہو رہا ہے چند دن دعا کیساتھ دوا بھی کرلو آرام جلد آ جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :