بھنور میں پھنسی کشتی

جمعرات 7 مئی 2020

Saleem Saqi

سلیم ساقی

انسان جب چھوٹا بچہ ہوتا ہے تب اسے خبر نہیں ہوتی کہ اسکے ماں باپ کے حالات کیا ہیں۔ انکی جیب میں اسکی بے جا ضد پوری کرنے کے پیسے ہیں بھی یا نہیں۔ اگر اس نے ایک دفعہ کچھ لینے کی ضد کر دی تو بس اسے وہ ہر حال میں چاہیے ہوتی ہے۔ ایسا وہ اسلیئے کرتا ہے کیونکہ وہ نادان ہوتا ہے۔ کم عقل ہوتا ہے۔ جب آہستہ آہستہ وہ بلوغت کی راہ کو ناپتا ہوا اوپر کو چڑھتا ہے۔

تب اسے احساس ہوتا ہے کہ احساس ذمہ ہونا کیا شے ہوتا ہے۔
جیسے ساحل سمندر پہ بیٹھ کر سمندر کی گہرائی ماپنے کیلیئے چھوٹا سا کنکر سمندر میں پھینک دینا۔ یہ جاننے کیلیئے کہ سمندر کتنا گہرا ہے۔ گہرائی کتنی ہے یہ صرف وہ نیچا گرتا پتھر ہی بتا سکتا ہے،ہم ساحل پہ بیٹھ کر لاکھ چاہ کر بھی وہ گہرائی نہیں ماپ سکتے،نہ اس گہرائی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

بالکل اسی طرح جب پی۔ٹی۔آئی اقتدار سے باہر تھی۔ اسے صرف اور صرف بظاہر نظر آنے والے حالات و واقعات کا پتہ تھا۔ اندر کیا چل رہا ہے یہ نہ پتہ تھا۔ اب جب کہ کورونا جیسی مہلک بیماری نے نہ صرف پاکستان کو بلکہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔ ایسے میں کاروبار بند ہونے کی وجہ سے،ملک کو چلانے کیلیئے ملکی وسائل کی عدم دستیابی کے پیش نظر ملکی معیشت کو برقرار رکھنے کیلیئے حال ہی میں جی 20 ممالک سے قرضہ کی درخواست دائر کر دی گئی۔

اگر پی۔ٹی۔آئی کی حکومت آنے سے پہلے دیکھا جائے جب نواز شریف کی حکومت تھی۔ تب بھی اپس اینڈ ڈاؤن آتے رہے۔ تب بھی قرضے لیئے جاتے رہے۔ اب وہ قرضہ جات ملک میں لگائے گئے یا ان سے اثاثہ جات بنائے گئے۔ یہ وقت ایسی باتوں میں الجھنے کا نہیں۔ کیونکہ ہمارا ملک کورونا جیسی مہلک مرض میں مبتلا ہے۔ اک ایسی مرض جو پل پل میں ہر پل موت برسا رہی ہے۔
کہنے کا مقصد یہ کہ جب ملک پر برا وقت آن پڑتا ہے۔

تب مدد لینی ہی پڑتی ہے۔ اس وقت اپوزیشن کی لعن طعن کو مدنظر نہیں رکھا جاتا بلکہ ملک کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ اپنے ملک کی لاچار بے کس عوام کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ ملک کا بھلا سوچا جاتا ہے۔
ایک دفعہ ہمارے خاندان کے چند بزرگ مل بیٹھے تھے۔ میں بھی پاس بیٹھا تھا۔ بات چل پڑی سیاست کی یہ ایک فطرتی عمل ہے۔ ہر انسان کا ہر ایک معاملے میں اپنا ایک الگ مؤقف ہوتا ہے۔

کچھ بزرگ پی۔ٹی۔آئی کے سپورٹر تھے۔ کچھ ن۔لیگ کے حمایتی تھے۔ بحث چلتی رہی چلتے چلتے بات قرضہ جات تک جا پہنچی۔ کچھ نے کچھ کہا۔ کچھ نے کچھ کہا۔ ویسے تو مجھے سیاست میں زیادہ کوئی دلچسپی نہیں۔ نہ ہی میں نے آج تک سیاست پر بات کی۔ آج بات چھیڑی کیونکہ آج مجھے میرے کچھ دوستوں کی ٹائم لائن پر یہ موضوع ایک جھگڑے کی مانند ابھرا ہوا نظر آیا۔ تو سوچا کچھ قلم کشائی کر کے سب کو سیدھی راہ دکھلائی جائے۔

ہاں تو میں بتا رہا تھا کہ جب بات قرضہ جات تک پہنچی تب ایک بزرگ یوں گویا ہوئے۔
''میں تہاڈے کولوں اک گل پچھداں واں تسیں سارے چند پل واسطے اک خیالی سین بناؤ ذہن اچ، اک بندہ اے جیہڑا اپنے گھر دا کرتا دھرتا اے۔اپنے گھر دا سربراہ اے۔ اچانک اوسدے گھر اچ کوئی فوتگی ہو جاندی اے۔ جدوں فوتگی ہوندی اے اس ٹائم اس بندے دی جیب اچ اک پیسہ وی نہیں ہوندا۔

ہن تساں من سارے دسو اس صورت اچ او بندہ کی کرو گا؟ 
سارے ایک زبان ہو کر بولے۔۔۔کسی سے ادھار مانگے گا قرضہ لے گا۔ اور سارے اخراجات اٹھائے گا۔ تب ان بزرگ نے کہا۔
''ہن تساں من دسو جدوں نواز شریف دی حکومت سی خزانہ خالی سے بھاویں جداں مرضی ہویا سی۔ انہاں آپ کھادا یا جیویں وی خالی ہویا۔ ملک تے ناگہانی آفت آن پئی اس صورت او قرضہ نا لیندا تے کدے جاندا؟
اس سوال کا شاید کسی پاس جواب نہ تھا۔

اور یہ بات مجھے بہت بھلی لگی۔ کیونکہ حقیقت بھی ایسی ہی ہے۔ جب انسان مصیبت میں پھنس جائے پھر قرضوں کی پوٹلی سر پر اٹھانی پڑتی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا ن۔لیگ صحیح تھی پی۔ٹی۔آئی غلط ہے۔ نہ ہی میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ن۔لیگ غلط تھی پی۔ٹی۔آئی صحیح ہے۔ یہاں حال کی گھڑی ہمیں تمام تر باتیں کمر پیچھے کر کے ملک کو اس وبا سے نکالنے کیلیئے حکومت کا ساتھ دینا ہے۔

کسی کو ''کریٹیسائیز'' کرنے کی بجائے حکومتی آرڈرز کو مانتے ہوئے کورونا کے خلاف اس چھڑی جنگ کو جیتنا ہے۔ اگر ہم اس سیاست کے جھیل جھمیلے میں پھنس کر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے وہیں گے۔ ایک کا منہ مشرق ہو گا دوسرے کا مغرب تو ہم کبھی کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔
جیسے ہمارے وزیراعظم خان نے کہا تھا۔ یہ وبائی جنگ ہم صرف اور صرف متحد ہو کر ہی جیت سکتے ہیں۔

بالکل اسی طرح ہمیں متحد ہونا پڑے گا۔ رنگ،نسل، پارٹی کے فرق کو چھوڑ کر نظر اندا کر کے ایک جٹ ہونا پڑے گا۔ اگر ہم ایسی ناگہانی آفت کے دنوں میں اک دوجے کو یہ طعنے مارتے رہیں گے، کہ یہی قرضے نواز شریف نے بھی لیئے تھے۔ جو عمران خان لے رہا ہے۔ یا یوں اک دوجے کو ٹچ کریں، تمہارا خان پہلے تو بہت بڑی بڑی باتیں کیا کرتا تھا۔ اب کیا ہوا۔ نہیں ایسا سوچنا غلط ہو گا۔

کیونکہ اس کورونا کے ہمارے ملک پر بہت منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ جنکو مثبت میں بدلنے کیلیئے ملک کو اس وبا سے چھٹکارا دلانے کیلیئے تدابیر کے ساتھ ساتھ پیسے بھی چاہیے۔
اسلیئے ان جھگڑوں میں الجھنے کی بجائے خود کو گھروں کی دہلیز تک محدود رکھ کر خود کی حفاظت یقینی بنائیں۔ اور سیاست میں الجھ کر اپنے ریلیشن خراب مت کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :